گذشتہ نصف صدی کی کہانی غلام رسول مہر کی زبانی

درویش

1-ghulam-rasool-telugu-journalist
۔’’ہمارے زمانہ میں اخبار کا بنیادی مقصد’’آزادی‘‘ تھا ہم جو کچھ لکھتے تھے اس سے مقصود یہ ہوتا تھا کہ جتنی جلد ہوسکے قوم کو آزاد کرواؤ، انگریز کے خلاف اپنی کوششیں جاری رکھو، آپس میں مل جل کر جدوجہد کرو، ان دنوں اخبارات کی آواز میں اثر بھی بہت ہوتا تھا۔ عوام کو اگرچہ کافی سہولتیں میسر تھی پھر بھی اخبارات مزید سہولتوں کیلئے کوشاں رہتے کہیں کوئی خرابی پیدا ہوتی، فوراً اس پر قلم اٹھایا جاتا ان دنوں سرکاری مشینری اخبارات کے لکھنے پر فوراً حرکت میں آجاتی تھی اور مسئلہ بلا تاخیر حل ہوجاتا تھا۔‘‘

اردو کے بزرگ صحافی اور جیدادیب مولانا غلام رسول مہر میری ایک گذارش کے جواب میں اپنے دور کی صحافت پر روشنی ڈال رہے تھے اس دور کی‘ جب آسمان صحافت پر کیسے کیسے ماہتاب چمکتے تھے۔ مولانا ظفر علی خاں، مولانا عبدالمجید سالک، مولانا غلام رسول مہر، حاجی لق لق، عثمان فارقلیط اور وہ دور جس میں کیسی کیسی نابغہ روزگار شخصیات تھیں۔ علامہ اقبال، مولانا صلاح الدین احمد، پطرس بخاری ،ایم ڈی تاثیر۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب قلم کی کچھ آبروتھی، جب ہر لفظ کی کچھ قیمت تھی، قلم اور دماغ میں گہرا رشتہ تھا۔

مولانا نے اپنی زندگی میں برصغیر کے بے شمار سیاسی مدو جزردیکھے ہیں پھر ان طوفانوں کو حیطہ تحریر میں بھی لائے ہیں‘ وہ اپریل1895ء میں پیدا ہوئے ۔ ان کے ہوش سنبھالنے سے لے کر آج تک کا عرصہ اس خطہ ارضی کا جسے برصغیر پاک وہند کہتے ہیں سب سے حساس دور ہے۔ انگریز استعمار کا عہد شباب‘ حریت پرستوں کی قربانیاں، تحریک آزادی، مسلمانوں کی اپنے لئے ایک الگ وطن کی جدوجہد یہ سب کچھ اسی دور میں تو ہوا ہے۔

زندگی کے بیسویں برس میں وہ اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے کی ڈگری پاکر فارغ التحصیل ہوچکے تھے۔ کچھ مدت آوارگی کی پھر حیدر آباد دکن چلے گئے۔ خیال تھا کہ اسلامی ریاست ہے وہاں ملی کام زیادہ اچھے پیمانہ پر ہوسکے گا لیکن وہاں حالات اس سے بھی ابتر تھے۔ مولانا یہاں انسپکٹر تعلیمات رہے، کوشش کی کہ کوئی اخبار جاری کریں لیکن 1920ء میں ترک موالات کی تحریک جاری ہوگئی اس لئے اخبار کی اجازت نہ مل سکی۔ پنجاب واپس چلے آئے لکھنے لکھانے کا شوق تھا۔ زمیندارسے وابستہ ہوگئے لیکن شرط یہ رکھی کہ دفتر نہیں آؤں گا گھر سے لکھ کر بھیج دیا کروں گا۔ ان دنوں آپ جالندھر کے قریب اپنے آبائی گاؤں میں مقیم تھے۔

لاہور آئے اور زمیندار کیلئے نومبر1921میں پہلا اداریہ لکھا پھر سامان لینے کیلئے اپنے گاؤں گئے۔ وہاں سے جلدی لوٹ نہ سکے اور اتفاق ادھر حکومت نے ’’زمیندار‘‘ کی ضمانت طلب کرلی پھر1922ء کے آغاز میں اخبار جاری ہوا۔ مولانا سے دوبارہ درخواست کی گئی۔ ان دنوں زمیندار کے دفتر کے اندر ہی ایڈیٹروں کی رہائش کا انتظام بھی تھا، اس کمرے میں بیٹھ کر مولانا’’مقالہ افتتاحیہ‘‘ لکھتے پھر گھر کا انتظام ہوگیا تو گھر سے مقالہ بھجوانا شروع کردیا۔ ان دنوں اخبارات میں عموماً زیادہ سے زیادہ پانچ چھ آدمی کام کرتے تھے۔رپورٹر ایک ہی ہوتا تھا جو شہر سے خبریں بھی جمع کرتا اور ڈیسک پر بھی بیٹھتا۔

نامہ نگار آج کی طرح تنخواہوں پر نہیں بلکہ اعزازی طور پر کام کرتے تھے۔ اخبار کی طرف سے ان پر یہ کرم ہوتا تھا کہ ان کے نام اخبار مفت جاری کردیا جاتا تھا۔ زمیندار سے مولانا کا تعلق 1927ء میں ٹوٹا جبکہ انہوں نے سالک صاحب کے ساتھ مل کر اپریل1927ء میں’’انقلاب‘‘ نکالا، اس میں ان کے ساتھ زاہدی صاحب اور میکش مرحوم بھی تھے۔ اس کے چھ صفحے تھے۔ کاغذ بھی ارزاں تھا اور چھپائی بہت سستی تھی۔ مولانا اور سالک کے زور قلم کے باعث یہ پرچہ مسلمانوں میں بہت مقبول ہوگیا۔ لوگ مولانا مہر اور سالک مرحوم کے قلم کی جولانیاں دیکھنے کیلئے اس پرچے کا روزانہ بڑی بے تابی سے انتظار کرتے۔ پاکستان بننے کے دو سال بعد اکتوبر1949ء تک یہ پرچہ جاری رہا پھر اس وقت کے حکمرانوں نے اسے پاکستان کا مخالف قراردے کر بند کردیا۔ اس کے بعد مولانا 1955ء یا1965ء میں صرف دوتین مہینے کیلئے آفاق سے منسلک رہے۔ انہوں نے پہلے بھی اخبار کے دفتر میں بیٹھ کر کبھی کچھ نہیں لکھا تھا۔ اب اخبارات سے باقاعدہ وابستگی نہ رہنے کے بعد گھر پر ہی تالیف وتصنیف کا سلسلہ شروع کردیا۔

مولانا اردو صحافت کی مجسم تاریخ ہیں۔ میں چاہتا تھا کہ آج کی نشست میں اردو صحافت کے اس دور کی بھرپور تصویر اپنے ذہن میں محفوظ کرلوں، یہ وہ دور ہے جب بڑے بڑے مبارک ہاتھوں نے اردو صحافت کی بنیادیں رکھیں۔ ان دنوں جو اخبارات چھپے یا جو کالم متعارف ہوئے، جو انداز تحریر چلا‘ آج ہمارے لئے وہی مثال ہے۔ میں نے عرض کیا کہ جس طرح آج کے اخبارات وجرائد میں ترجموں کی بھرمار ہوتی ہے جرائم اور سراغرسانی کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں کیا ان دنوں بھی ایسا ہوتا تھا؟ 

فرمانے لگے کہ ان دنوں ترجمہ تو صرف خبروں تک محدود ہوتا تھا اور رہے جرائم تو صرف ان کا ذکر ہوتا جن کے مقدمات مقامی عدالتوں میں زیر سماعت ہوتے وہ بھی خبروں کی صورت میں۔ غیر ملکی خبریں خاصی چھپتی تھیں۔ کیونکہ بین الاقوامی خبریں پڑھ کر ہی حالات کے رخ کا اندازہ ہوتا ہے۔ باقی رہی سنسنی خیز خبریں تو اپنے دور میں اس نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہر اخبار نویس کو سوچنا چاہئے مجھے قوم کو کہاں لے جانا ہے۔

میں اس زمانے کے اخبارات کی زیادہ سے زیادہ اشاعت پوچھنے کا خواہاں تھا پتہ چلا کہ زیادہ سے زیادہ اخبار بارہ ہزار کی تعداد میں چھپتا۔ مولانا کے دورِ ادارت میں زمیندار پانچ چھ ہزار شائع ہوتا رہا۔’’الہلال‘‘ نے بھی ان دنوں اپنا روزنامہ جاری کیا۔ یہ خاصا مقبول پرچہ تھا اور برصغیر کے خاصے بڑے علاقے میں پڑھا جاتا تھا لیکن چند روز کے تجربے کے بعد ہی ختم ہوگیا اور پھر وہی ہفت روزہ نکلنے لگا۔

مولانا نے اس بات کا انکشاف کیا کہ انگریزی اخبارات اردو پرچوں سے کہیں زیادہ چھپتے تھے مثلاً ٹریبیون کی عام تعداد اشاعت بیس ہزار تھی اور سول اینڈ ملٹری گزٹ پچاس ہزار تک چھپتا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ خبروں اور مضامین کے اعتبار سے انگریزی اخبارات زیادہ مستند اور وقیع خیال کئے جاتے تھے پھر حکومت بھی اپنے سب اداروں میں انہیں جاری کروالیتی تھی۔ اشتہارات کا بھی یہی حال تھا۔ نصف سے زیادہ اشتہارات انگریزی پرچوں میں ہی چھپتے تھے‘ اردو کے پرچوں میں بھی ضرورت کے مطابق اشتہارات آجاتے تھے لیکن اس قدر نہیں۔ البتہ دیوان سنگھ مفتون کے ’’ریاست‘‘ میں برطانوی فرموں کے بے شمار اشتہارات شائع ہوتے۔ اس کا سبب مفتون کی ذاتی محنت تھی وہ بذات خود بمبئی جاکر ان فرموں کے ارباب متعلقہ سے ملتے اور اشتہارات لاتے۔ 

اب ذکر چلا تصویر بتا ں کا۔ مولانا نے بتایا تصویر بتاں تو کیا عام تصویر بھی نہیں چھپتی تھی اس کی وجہ صرف ٹیکنیکل دشواری ہی نہیں بلکہ مسلمان اخبارنویس تصویر چھاپنا جائز ہی نہیں سمجھتے تھے اور یہ عالم قیام پاکستان تک رہا۔پاکستان بنتے ہی مسلمانوں کے پرچوں میں بھی تصویریں چھپنے لگیں۔ مولانا کو البتہ ایک واقعہ یاد تھا کہ ایک دفعہ ایک بنگالی لڑکی اسنوہتیا کی تصویر چھپی تھی وہ جل کر مر گئی تھی بعد میں جل مرنے کی وجہ یہ منظرعام پر آئی تھی کہ اس نے یہ قدم اس لئے اٹھایا کہ والدین سے جہیز بہت مانگا جاتا تھا، اس رسم کو ختم کرنے کیلئے اس نے اپنی قربانی دی تھی ایک مرتبہ ایک مسلمان خاتون کی تصویر چھپی تھی لیکن برقعہ میں یہ مولانا محمد علی جوہر کی بیگم کی تصویر تھی جو سفید برقعہ میں سرتاپا مستور تھیں۔ ان دنوں صرف ایک خاتون کو بے پردہ دیکھا۔وہ حسرت موہانی کی بیگم تھیں لیکن ان کی تصویر کبھی نہیں چھپی مسلمانوں کے اخبار اس معاملہ میں بالا ہتمام احتیاط کرتے تھے۔

میں نے فوٹوگرافروں کے متعلق پوچھا تو کہنے لگے کہ کسی اخبار کے ساتھ فوٹو گرافر وابستہ نہیں ہوتا تھا۔ شہر کے کسی فوٹو گرافر سے فی تصویر کچھ طے کرلیا جاتا تھا۔ اب میں نے آج کی صحافی خواتین کے ذکر کے ساتھ اس وقت کی خواتین کے صحافت میں حصہ کے بارے میں دریافت کیا تو وہ بتانے لگے’’خواتین کی تصویر توایک طرف کسی خاتون کے مضمون لکھنے پر بہت لے دے ہوتی تھی، اسی لئے تو اس وقت ایک شاعر نے کہا تھا۔

شوق تحریر مضامین میں گھلی جاتی ہے
بیٹھ کر پردے میں بے پردہ ہوتی جاتی ہے

مولانا نے کہا کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس وقت صرف ایک خاتون مولانا محبوب عالم کی صاحبزادی اصلاحی مضامین لکھتی تھیں۔ انہوں نے ایک اسکول بھی جاری کیا تھا۔ ایک اور خاتون’’ زخ ش‘‘ کی اسلامی رنگ کی نظمیں چھپتی تھیں یہ نواب مزمل اللہ خاں شیروانی کی صاحبزادی تھیں۔

ان دنوں کی بامقصد صحافت کا ایک نقشہ ساسامنے کھنچ چکا تھا۔ اس کی روشنی میں، میں آج کی صحافت کے نقوش دیکھنے کی کوشش کررہا تھا اور اردو صحافت کے ارتقاء کا انداز لگارہا تھا، اس جدوجہد میں‘ میں نے مولانا سے مدد چاہی۔ وہ کہنے لگے کہ آج کل کے زیادہ اخبارات میری نظر سے نہیں گذرتے اور ویسے بھی اس دور کی’’فنکارانہ صحافت‘‘ اپنی سمجھ میں نہیں آتی۔ ہاں ایک واضح فرق نظر آتا ہے کہ اپنے دور میں عوام کو کوئی دقت ہوتی اور اخبارات اس موضوع پر کچھ لکھ دیتے تو یہ مسئلہ فوراً حل ہوجاتا ۔ اب عوام کیلئے دقتیں کبھی کبھی نہیں مسلسل پیدا ہوتی رہتی ہیں اور بعض اخبارات بھی ان کے بارے میں مسلسل لکھتے رہتے ہیں لیکن کچھ نہیں ہوتا۔ میں نے مولانا سے اس کے اسباب پر روشنی ڈالنے کیلئے عرض کیا تو وہ کہنے لگے۔’’اس کی وجہ آپ لوگ خود ہیں۔‘‘ 

اُردو کے یہ عظیم صحافی، مورخ اور مترجم گذشتہ بارہ برس سے روزانہ صبح نوبجے سے مسلم ٹاؤن (لاہور) میں و اقع اپنے پر سکون مکان کے کونے والے چھوٹے کمرے میں آرام کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں دوپہر کے ایک بجے تک ترجمہ کاکام کرتے ہیں ۔ معمول یہ ہے کہ انگریزی کتاب ان کے ہاتھ میں ہوتی ہے‘ وہ پڑھتے جاتے ہیں اور ساتھ ساتھ اس کا اُردو ترجمہ بولتے جاتے ہیں‘ سامنے کوئی صاحب بیٹھے ہوتے ہیں وہ اسے لکھتے جاتے ہیں۔ یوں ایک بجے تک روزانہ دس بارہ صفحے ترجمہ کرڈالتے ہیں۔ یہ زیادہ سے زیادہ صفحات تک کی رفتار ہے۔ دوپہر کاکھانا کھاکر سوجاتے ہیں، تین بجے سوکر اٹھتے ہیں تو دوستوں سے ملاقات کرتے ہیں‘ خطوں کا جواب دیتے ہیں‘ کوئی ملنے والا نہ ہویا کوئی خط جواب دینے والا نہ ہو تو مطالعہ شروع کردیتے ہیں۔

سات دنوں میں ایک دن انہوں نے شہر کیلئے مخصوص کررکھا ہے۔ ہفتے کو صبح سویرے گھر سے چل پڑتے ہیں ان کی منزل انار کلی میں واقع دکان پبلشرز یونائٹیڈ ہوتی ہے۔ دوپہر کا کھانا بھی وہیں ہوتا ہے۔ سب ملنے والے بھی وہیں آجاتے ہیں محفل جمتی ہے، ادب ، سیاست، تاریخ ہربات گفتگو کا موضوع بنتی ہے بقول مولانا یہ اچھی خاصی تفریح ہوجاتی ہے۔ ہفتہ کو انہیں گھر پر کوئی ملنے نہیں آتا۔
اس بڑھاپے میں اس دلجمعی اور پابندی سے کام کرکے مولانا نے اردو ادب اور آنے والی نسلوں پر عظیم احسان کیا ہے۔ اردو کی کتابوں میں ایسی ایسی عظیم تصانیف کا اضافہ ہوا ہے کہ اب اردو پر تہی دامنی کا الزام نہیں لگایا جاسکتا۔ مشہور زمانہ مورخ آرنلڈٹائن بی کی نوسو صفحات پر پھیلی ہوئی کتاب کو انہوں نے اردو میں منتقل کرکے ایک عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے۔’’مطالعہ تاریخ ‘‘یقیناًہمارے ذخیرہ کتب میں ایک نادر اضافہ ہے۔

اپنی تصانیف میں وہ سنیچری کبھی کی بناچکے ہیں‘ سو سے زیادہ ان تصانیف میں سے اکثر شیخ غلام علی اینڈ سنز نے شائع کی ہیں۔ ترجمے انہوں نے فرینکلن کیلئے زیادہ کئے ہیں ان کی تعداد چالیس سے اوپر ہے۔ ٹائن بی کی کتاب کے علاوہ انسائیکلوپیڈیا کی تین جلدوں کا ترجمہ بھی نہایت اہم کارنامہ ہے اور انگریزی کی او ربے شمار‘ وقیع، مستند اور تاریخ کتابیں انہوں نے اردو قالب میں ڈھال دیں۔ 

میں مولانا کے دارالمطالعہ میں بیٹھا ان سے محو گفتگو تھا، اس میں تین چار کرسیاں تھیں۔ اس کے علاوہ بس کتابیں ہی کتابیں تھیں۔ ان کا اوڑھنا بچھونا ہی کتابیں رہی ہیں اس لئے میں نے ان کے ذاتی کتب خانے میں موجود نوادرات کے بارے کچھ جاننے کا اشتیاق ظاہر کیا۔ کتابوں کی کل تعداد پندرہ ہزار کے قریب ہے جن میں فارسی، اردو، عربی اور انگریزی چاروں زبانوں کی کتابیں ہیں۔ تفسیر، حدیث، تاریخ، سوانح ہر موضوع پر بے شمار مستند اور وقیع کتابیں موجود ہیں۔ ان دینی موضوعات کے علاوہ شعر وادب کا ذخیرہ بھی بے پناہ ہے۔ اساتذہ کے دیوان، ادب کے تذکرے ، تنقید کی کتابیں کیا ہے جو اس گھر میں نہیں ہے۔ گذشتہ نصف صدی مولانا کی نصف صدی ہے۔ اس عرصے میں جو کتابیں لکھی گئیں جو رسالہ جاری ہوا جو اخبار چھپا وہ یہاں موجود ہے۔ روزنامہ’’انقلاب‘‘ کی48مکمل فائلیں،’’زمیندار‘‘ کی فائل اس طرح برصغیر کے مشہور علمی ماہنامہ’’معارف‘‘ کی چار جلدیں ان کے پاس ہیں ماہنامہ’’زمانہ‘‘ کی تمام جلدیں۔

ان کے پاس ایک اور بہت اچھا ذخیرہ تھا جس میں چالیس پنیتالیس برس کے رسائل وجرائد کی جلدیں‘ اس عرصے میں ہونے والی علمی وادبی کانفرنسوں کی روداد۔ زمیندار اور انقلاب کی90جلدیں۔’’کامریڈ‘‘ اور’’ پیپلز‘‘ کی ایک سو آٹھ جلدیں۔ یہ نایاب ونادر علمی ذخیرہ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی کی ہسٹوریکل سوسائٹی کو عطیہ کے طور پردے دیا۔

ایک نادر چیز ان کے پاس برصغیر کے ایک جریدے ’’غریبوں کا اخبار‘‘ کی مکمل فائل ہے۔ مولانا محمد علی جوہر جن دنوں دہلی سے ہمدرد نکالتے تھے، مولوی حسن نظامی اور ان کی کسی معاملے پر کشمکش ہوگئی۔ اس پر حسن نظامی نے پریشان ہوکر اپنا ایک اخبار’’غریبوں کا اخبار‘‘ کے نام سے نکالا تھا جس کی قیمت ایک پیسہ تھی اس کے پچیس شمارے نکلے جن میں علی برادران کے خلاف خوب کھل کر لکھا گیا۔ اس کے پچیس کے پچیس شمارے مولانا کے پاس ہیں۔

صحافت، تصنیف وتالیف اور کتابوں سے ہوتے ہوئے اب تذکرہ چھڑا علامہ اقبال سے ربط خاص کا ۔مولانا علامہ کے خاص احباب میں سے تھے، ان احباب میں سے جنہیں علامہ اپنا تازہ بتازہ کلام سب سے پہلے سناتے اور مشورہ لیتے۔ مولانا کو ایک اتفاق علامہ کے ساتھ بلا داسلامیہ کے سفر کا بھی ہوا جس میں انہوں نے اتحاد عالم اسلام کیلئے علامہ کی دلی تڑپ کا عالم بھی دیکھا۔

حضرت علامہ سے تعلق خاص1922ء میں ہوا۔ مولانا نے بتایا کہ’’چوہدری محمد حسین میرے عزیز دوست تھے۔ وہ ڈاکٹر صاحب کے بھی قریبی رفیق تھے۔ ایک روز میں اور چوہدری صاحب باغ میں ٹہل رہے تھے ۔ باتوں باتوں میں میں نے کہا علامہ کی کوئی ایسی چیز سناؤ جو آج تک نہ چھپی ہو۔ چوہدری صاحب نے چلتے چلتے علامہ کے چار غیر مطبوعہ اشعار سنا دئیے، اس کے بعد مجھے انقلاب کے دفتر جانا تھا وہاں میں نے کوشش کی اور یاد کرکے علامہ کے چاروں اشعار لکھ کر ’’انقلاب‘‘ کے صفحہ اوّل پر دے دئیے۔ اگلے دن چوہدری صاحب ملے تو غصے میں آگ بگولا تھے مجھے پکڑ کر سیدھے علامہ کے پاس لے گئے۔

اقبال ان دنوں انار کلی میں رہتے تھے۔ علامہ اوپر کی منزل میں تشریف فرماتھے اور احباب بھی تھے ہم دونوں ایک ساتھ بیٹھ گئے۔ چوہدری صاحب میری طرف اشارہ کرکے علامہ سے کہنے لگے’’لیجئے مجرم پکڑلایا ہوں‘‘ اقبال نے پوچھا’’یہ اشعار آپ نے کہاں سے لے لئے؟‘‘ میں نے عرض کیا’’چوہدری صاحب نے سنائے تھے۔ یاد داشت میری اچھی ہے اور اچھے شعر یاد رہ جاتے ہیں‘‘ لیکن ڈاکٹر صاحب کے چہرے پر کچھ ایسا تاثر تھا جیسے انہیں اس بات کا یقین نہ آیا ہو۔ خیر جو کچھ بھی ہو یہ تعلقات کی ابتدا تھی۔

اس اثنا میں ڈاکٹر صاحب انار کلی سے میکلوڈ روڑ پرچلے آئے۔ میں ان دنوں بیڈن روڈ پر رہتا تھا۔ مکان قریب قریب تھے۔ اس لئے خاصا آنا جانا رہتا تھا۔ اوّل تو میں خود ہی روزانہ بلاناغہ پہنچ جاتا۔ اگر کسی روز دیر ہوجاتی تو علی بخش کو بھیج دیتے۔ یہ نشست خاص ہوتی تھی۔ اس میں صرف دو تین دوست ہوتے تھے۔ بعض اوقات گفتگو کا سلسلہ بہت طویل ہوجاتا، ایک روز، مجھے یاد ہے ہم مسلسل کوئی دس گھنٹے تک بیٹھے رہے تھے۔ پھر1932ء میں ڈاکٹر صاحب میو روڈ پر چلے گئے۔ میں ادھر مسلم ٹاؤن منتقل ہوگیا، اس طرح روزانہ کی ملاقات ختم ہوگئی۔‘‘

میں نے مولانا سے عرض کیا کہ آپ کی یادداشت میں ڈاکٹر صاحب کی کوئی ایسی چیز ہو جو اب تک نہ چھپی ہو اور جسے آپ اپنے قیمتی سرمایہ سمجھتے ہوں۔ میرے اس سوال پر مولانا نے اپنے دائیں ہاتھ کی الماری کے ایک خانے سے ایک چھوٹا سی ڈائری نکالی جس کے صفحات گردش ایام کی کہانی سنارہے تھے اور بتانے لگے کہ جس زمانے میں ڈاکٹر صاحب ’’زبورعجم‘‘ لکھ رہے تھے وہ جو کچھ روزانہ لکھتے ہمیں سنادیتے میرا یہ معمول تھا کہ جب دس ساڑھے دس بجے گھر لوٹتا تو دماغ پر زور دے کر وہ سنی ہوئی چیزیں لکھ لیتا۔ یہ ڈائری انہی دنوں کی یادگار ہے‘ اس میں ’’زبورعجم‘‘ تاریخ وار محفوظ ہے۔ زبور عجم چھپ کرآئی تو اشعار میں خاصی تبدیلیاں ہوگئیں اور بعض اشعار تو باقی ہی نہیں رہے۔ اس ڈائری میں اشعار کے علاوہ ان دنوں زیر بحث آنے والے مسائل بھی تاریخ وار درج ہیں۔‘‘میرے پوچھنے پر مولانا نے فرمایا کہ وہ اس ڈائری کو چھپوانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

اب مولانا اپنے اس عظم دوست کے ساتھ ہمسفری کی داستان سنانے لگے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ ڈاکٹر صاحب گول میز کانفرنس میں جانے کیلئے رضامند ہوگئے۔ مولانا بھی ساتھ تھے۔ لندن، فلسطین اور قاہرہ میں ان کا قیام اکٹھا ہی رہا۔ فلسطین میں وہ ایک ہی ہوٹل میں ٹھہرے، کمرے ساتھ ساتھ تھے۔ یہاں علامہ کی طبیعت کا عجیب عالم تھا کہ وہ گھومنے پھرنے کے موڈ میں بالکل نہ ہوتے۔ زیادہ تر کمرے میں مصروف مطالعہ یا محواستغراق رہتے۔

ایک روز ہم مقامات مقدسہ کی سیرکو نکلے۔ موٹر آئی۔ تیار ہوئے۔ میں ان کی رہنمائی کررہا تھا۔ ہم مقام صعودعیسٰی ؑ پر پہنچے۔ یہ ایک پہاڑی پر واقع ہے موٹر وہاں لے گئے۔ عین دروازے پر جاکر موٹررکی۔ میں اتر اور علامہ سے اترنے کیلئے عرض کیا تو کہنے لگے’’تم دیکھ آؤ‘‘ میں نے کہا’’اگر آپ کو دیکھنا نہیں تھا پھر آئے کیوں تھے لیکن وہ اپنی بات پر ہی ڈٹے رہے موٹر سے باہر نہ نکلے۔ میں گھوم پھر کے دیکھ کر آگیا۔ اس کے بعد حضرت مریم ؑ کے مقبرے پر گئے یہاں بھی ڈاکٹر صاحب نے کہا’’ تم دیکھ آؤ۔‘‘ اب مجھے احساس ہوا کہ علامہ کو ان مقامات کو دیکھنے کا کچھ اشتیاق نہیں تھا صرف میری خاطر ہی چلے آئے۔ خیر اس مرتبہ میں نے ڈاکٹر صاحب کو ساتھ لے ہی لیا۔ آگے کچھ سیڑھیاں اتر کر نیچے جانا پڑتا تھا اور نیچے مقبرے میں خاصی تاریکی تھی۔ کہنے لگے‘ ’’دیکھو یہاں پستی میں اترنا پڑرہا ہے اور کتنی تاریکی ہے یہاں‘‘ مقبرے سے باہر آئے تو فرمایا کہ تم نے دیکھا کہ سب مذاہب انسان کو نیچے اتارتے ہیں۔ تاریکی میں لے جاتے ہیں لیکن اسلام بلندیوں اور روشنیوں کی طرف۔۔۔ تم نے مسجد یں دیکھی ہیں ناکتنی کھلی اور روشن ہوتی ہیں۔‘‘

’’پھر ایک دعوت کا اہتمام مفتی اعظم امین الحسینی نے کیا تھا۔ الخلیل جبران حائفہ کی دعوتوں میں ہم اکٹھے ہی گئے۔ اردن کے امیر عبداللہ کی دعوت پر دریائے اردن کے کنارے خیمہ میں شریک ہوئے۔ قاہرہ میں اکیلے کہیں جانے کا اتفاق نہ ہوا۔ زیادہ تر پارٹی ساتھ ہی رہی۔‘‘

علامہ کابل بھی گئے تھے لیکن مولانا ان کی رفاقت نہ کرسکے۔ علامہ کے ساتھ سید سلیمان ندوی اور راس مسعود بھی تھے۔ یہ1933ء کی بات ہے۔ اس کے ایک برس بعد 1934ء میں مولانا کو کابل جانے کا اتفاق ہوا۔ انہیں حکومت افغانستان نے سفیر سلجوقی کی معرفت دعوت دی تھی۔ اس سفر میں انہوں نے جلال آباد، گل بہار، کابل، پنج شیر، کوہ دامن، غزنی، چمن اور غلزئی دیکھے۔ ہر ملت اور بلخ جانے کا موقع نہ ملا کیونکہ سردی خاصی بڑھ گئی تھی۔

مولانا کا ارادہ ہے کہ یہ سفر نامہ قلم بند کریں،ا گر انہوں نے علامہ کے ساتھ اپنے سفر کو قلم بند کردیا تو اقبال کے شیدائیوں پر ایک بڑا احسان ہوگا، اقبال کے پروانوں کو چاہئے کہ وہ مولانا کی یہ یادیں محفوظ کرلیں۔

اب شام کے سائے گہرے ہوچکے تھے۔ کھڑکیوں سے رات کی تاریکی دبے پاؤں اندر آرہی تھی۔ اب میں نے مولانا سے اجازت چاہی۔ اس مختصر سے عرصے میں میں نے گذشتہ نصف صدی کے ہنگاموں ، علمی وادبی ہستیوں، اخباروں اور رسالوں میں خوب گھوم پھر آیا تھا۔ یہ پچاس برس میری نگاہوں کے سامنے رقصاں تھے۔

(ہفت روزہ الفتح، ۲۸مئی۔۴جون۱۹۷۰)

One Comment