بھارتی مسلم خواتین ’بیک وقت تین طلاقوں‘ کےخلاف میدان میں

57787c91f397d.image

بھارتی مسلمان خاتون شگفتہ سید بیک وقت تین طلاقیں دیے جانے کے خاتمے کے لیے میدان عمل میں ہیں اور اس سلسلے میں پورے زور و شور سے اسلام کے نام پر اس سماجی روایت کو تبدیل کرنے کی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔

شادی کے کچھ ہی گھنٹوں بعد شگفتہ سید کے شوہر نے انہیں بتایا تھا کہ وہ کسی اور خاتون کے ساتھ محبت میں مبتلا ہے اور وہ شگفتہ کے ساتھ اپنا مستقبل نہیں دیکھتا۔ شگفتہ سید کے مطابق، ’’اس نے صرف اپنی ماں کی خوشی کے لیے شادی کی تھی اور اسے یقین تھا کہ ہم دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔ اس نے کہا طلاق، طلاق، طلاق! اور یہ رشتہ اسی لمحے ختم ہو گیا‘‘۔

شگفتہ سید کا تاہم کہنا ہے کہ کسی عدالت سے باقاعدہ طور پر شادی کے خاتمے کے حکم نامے سے قبل شوہر کا نام اپنے نام کے ساتھ لکھا جا سکتا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ ہے کہ دیگر سنی مسلمان لڑکیوں کی طرح شگفتہ سید کی زندگی کا فیصلہ بھی ایک ایسے مسلم قانون سے مشروط ہے، جس کی شاخیں اسلامی فقہ سے جڑی ہیں اور جس کی تشریحات کا حق بھارت بھر میں مساجد اور دینی مدارس میں بیٹھے مولویوں اور مفتیوں کے پاس ہے۔

ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دینے پر کم از کم قانونی طور پر دنیا کے بیس سے زائد مسلم ممالک میں پابندی ہے۔ تاہم بھارت میں مسلمانوں، مسیحیوں اور ہندوؤں کو قانونی اور دستوری طور پر حاصل مذہبی آزادی کی وجہ سے ان برادریوں کو اپنی اپنی مذہبی روایات اور ضوابط کے تحت خاندانی معاملات اور مسائل نمٹانے کی اجازت حاصل ہے۔ تاہم شگفتہ سید کی کوشش ہے کہ ایسے مسائل کو بھی ریاستی قانون کے زیراثر لایا جائے۔

بھارت میں مجموعی طور پر قریب سترہ کروڑ مسلمان آباد ہیں، جن میں سے زیادہ تر سنی ہیں اور ان کے لیے مسلم پرسنل لاء یا اسلامی خاندانی قانون لاگو ہوتا ہے۔ ان قوانین میں مردوں کو اپنی بیویوں کو ایک ہی وقت میں تین بار طلاق دینے کا حق بھی حاصل ہے، یعنی اردو میں تین بار طلاق، طلاق، طلاق کہا جائے اور شادی کا بندھن ختم۔ اور ’تین طلاق‘ کا یہ پیغام تو اب ٹیلی فون، موبائل پیغام اور سوشل میڈیا ویب سائٹس کے تحت بھی بھیج دیا جاتا ہے۔

تاہم متعدد خواتین کو اس پر شدید تحفظات ہیں، کیوں کہ انہیں اس سلسلے میں مساوی حقوق حاصل نہیں، بس وہ اس طلاق کے بدلے عدت کے دنوں میں (تین ماہ تک) ایک معمولی سی رقم بہ طور نان نفقہ حاصل کر سکتی ہیں۔ اس کے بعد سب کچھ انہیں خود کرنا ہوتا ہے۔

بھارتیہ مسلم مہیلا اندولن (بھارتی مسلم خواتین کی جدوجہد) نامی تحریک کی شریک بانی نورجہاں صفیہ نیاز کے مطابق، ’’کئی خواتین کو اسپیڈ پوسٹ کے ذریعے بھیجے جانے والے خطوط کے ذریعے بھی طلاق دی جاتی ہے اور بعض کو تو بس یہی ایک لفظ تین بار کہہ دیا جاتا ہے‘‘۔

یہ تحریک گزشتہ چھ برسوں سے مسلمان خواتین کے مساوی حقوق کے لیے آواز بلند کر رہی ہے۔ نیاز کے مطابق، ’’کئی بار تو ایسے معاملات بھی سامنے آئے ہیں کہ جب خواتین کو یہی معلوم نہیں ہوتا کہ آیا انہیں واقعی طلاق ہو چکی ہے یا نہیں‘‘۔

ان کا مزید کہنا ہے، ’’اس طرح بچے بغیر کسی مدد کے رہ جاتے ہیں۔ سو مسلمان مردوں کے لیے یہ بڑا آسان ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیویوں کو بس تین بار طلاق دے کر ہر طرح کی ذمہ داری سے الگ ہو جائیں۔ کسی عورت کو اپنی زندگی سے نکال باہر کرنا کسی مسلمان مرد کے لیے ذرا بھی مشکل کام نہیں۔‘‘

قانونی ماہرین کے مطابق یہ روایت دستوری طور پر درست نہیں ہے۔ سن 1985ء میں بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے حکومت کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ قوانین کو یکساں بنائے۔ اس مقدمے میں عدالت نے ایک مرد کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنی معمر بیوی کو، جسے اس نے طلاق دے کر تنہا چھوڑ دیا تھا، نان نفقے کی رقم ادا کرے۔ تاہم اس وقت کی بھارتی حکومت نے مسلم طلاق کے طریقے کو تحفظ دینے کے لیے ایک قانون منظور کر لیا تھا، جس کی وجہ مسلمان کاروباری شخصیات کی جانب سے حکومت پر ڈالا جانے والا دباؤ اور مسلم ووٹ بینک بنے تھے۔

DW

Comments are closed.