اگر رسم و رواج پسند نہیں تو شہریت مسترد

Asif Javaid4

آصف جاوید

اگر تم ہمارے رسم و رواج اور ثقافت کو مسترد کروگے ، تو ہم تمہاری شہریت کی درخواست کو مسترد کریں گے

سوئٹزرلینڈ دنیا کے ان چھ عظیم ترین ممالک میں شامل ملک ہے، جو اقوامِ متّحدہ کے ہیومن ڈیویلپمنٹ انڈیکس پر ہمیشہ ٹاپ رینکنگ میں رہتے ہیں۔ یہ ملک برِّ اعظم یورپ کے وسط میں ہونے کے باوجود یوروپئین یونین کا حصّہ نہیں ہے۔ جغرافیائی طور پر یہ ایک لینڈ لاک ملک ہے، مگر حسین ترین وادیوں، سرسبز اور اونچے پہاڑوں ، خوبصورت نظاروں کی وجہ سے دنیا کا مشہور ترین سیّاحتی مقام ہے۔ 65فیصد آبادی جرمن نسل، 18 فیصد فرنچ نسل اور 10 فیصد اٹالین نسل ہے۔

سوئٹزر لینڈ دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کے اساتذہ اکرام دنیا میں سب سے زیادہ تنخواہ اور عزّت پاتے ہیں۔ دنیا کے امیر ترین لوگ اپنا پیسہ سوئس بنکوں میں رکھنا محفوظ سمجھتے ہیں۔ سوئس گھڑیاں دنیا کی مہنگی ترین گھڑیوں میں شمار ہوتی ہیں۔ سوئٹزر لینڈ میں قانون کا نفاذ بہت سخت ہے، اتوار کا دن سوئس شہریوں کے لئے شہری قوانین کی پابندیوں کا سخت ترین دن ہوتا ہے۔ اس دن سوئس باشندے اپنے گھر کے لان کی گھاس نہیں کاٹ سکتے، اونچی آواز میں میوزک نہیں بجا سکتے، گیراج میں گاڑی نہیں دھو سکتے، گیلے کپڑے گھر سے باہر رسّی پر نہیں لٹکا سکتے، نہ ہی زور دار آواز میں ٹوائلٹ یا فلیش میں پانی بہا سکتے ہیں۔ 10 بجے رات بتّیاں بجھا کر سب سو جاتے ہیں۔

اسی80 لاکھ کی آبادی والے ملک سوئٹزر لینڈ میں تقریباً 20 لاکھ غیر ملکی (پناہ گزیں) قانونی طور پر آباد ہیں۔تاہم سوئس قومیت حاصل کرنا ایک پیچیدہ ، مہنگا اور مشکل عمل ہے۔ دوسرے مغربی ممالک کی طرح سوئٹزرلینڈ میں یہ حق پیدائش کے ساتھ خود بخود حاصل نہیں ہوتا ہے۔ سوئٹزر لینڈ میں بڑی تعداد میں دوسرے ممالک سے آکر بسنے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافے سے ملک میں نئے سماجی اور نفسیاتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

حالات کے پیشِ نظر سالِ رواں کے ماہِ فروری میں ملک کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت سوئز پیپلز پارٹی نےایک ریفرنڈم بھی کرایا تھا، جس میں تجویز پیش کی گئی تھی کہ اگر کوئی بھی بیرونی شخص دس برس کے اندر تیز کار چلانے یا پولیس سے بحث کرنے جیسی دو چيزوں کی خلاف ورزیوں کا مرتکب پایا جائے تو اسے بغیر کسی اپیل کے حق کے اپنے سابقہ وطن خود بخود واپس جانا ہوگا۔

اس قرارداد کے حامیوں کا استدلال تھا کہ کہ بیرونی ممالک کے افراد کی سوئس جیلوں میں تعداد بہت زیادہ ہے۔ مگر سوئٹزر لینڈ کے فراخ دل عوام نے 60 فیصد کی اکثریت سے اس ریفرنڈم میں معمولی جرائم میں ملوث غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کے منصوبے کو مسترد کر دیا تھا۔

پنا ہ گزینوں کی ایک چوتھائی آبادی کے سوئس روایات اور ثقافت کا احترام نہ کرنے اور سوئس معاشرے میں ضم اور جذب ہونے سے اجتنابی رویّے کے باعث سوئٹزرلینڈ کے معاشرتی حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ جو پناہ گزیں سوئس معاشرے میں ضم ہونے سے اجتناب اور اپنی ثقافت اور روایات کو برقرار رکھنے پر اصرار کرتے ہیں ، ان کی شہریت منسوخ کرکے ان کو ان کے سابقہ ممالک واپس بھیج دیا جاتا ہے ۔

جوغیر ملکی سوئس ثقافت کے ساتھ ضم اور جذب کرنے کو تیار نہیں ہیں ایسے لوگوں کی شہریت کی درخواست کو رد کرنے کے حالیہ اقدامات میں دو مسلمان لڑکیوں کی شہریت کی درخواست کو مسترد کر دیا گیاہے۔ بارہ اور چودہ سال کی عمر کی ان لڑکیوں نے لڑکوں کی موجودگی میں نصاب میں مقرر کردہ سوئمنگ کی لازمی تربیت لینے سے انکار کردیا تھا۔ لڑکیوں کا کہنا تھا کہ ان کا مذہب ایک ہی وقت میں سوئمنگ پول میں مردوں کے ساتھ لازمی سوئمنگ تربیت میں حصہ لینے سے روکتا ہے۔

یہ لڑکیاں سوئٹزر لینڈ کے شمالی شہر باسِل میں رہتی ہیں اور انہوں نے کئی ماہ قبل شہریت کے لئے درخواست دے رکھی تھی۔ نیچرل آئزیشن کمیٹی کے صدر سٹیفن ویرلے نےمیڈیا کو بتایا کہ جو شخص سوئٹزر لینڈ کی ثقافتی روایات اور ملکی قوانین کی پاسداری نہیں کرتا وہ در اصل قانون شکنی کا مرتکب ہوتا ہے۔ جو لوگ قانون کی پابندی نہیں کرتے وہ خواہ کتنی ہی مدّت سے سوئٹزرلینڈ میں رہ رہے ہوں، کتنا ہی اچھّا کما رہے ہوں، کتنی ہی روانی سے مقامی زبانیں بولتے ہوں، انہیں سوئٹزرلینڈ کی شہریت، اصولی طور پر نہیں دی جاسکتی ہے۔

گزشتہ اپریل کے مہینے میں، باسِل کے ایک مہاجر خاندان کے دو افراد کی شہریت کی درخواست اس لئے مسترد کر دی گئی تھی کہ وہ شلوار قمیض پہن کر پبلک مقامات پر گھومتے پھرتے تھے اور اس دوران اپنے ارد گرد موجود کسی کو بھی شخص سے سلام دعا یا ہیلو ہائے نہیں کرتے تھے۔ نیچرلائزیشن بورڈ کا کہنا ہے کہ اِن لوگوں کا یہ عمل اس بات کا یقینی ثبوت ہے کہ یہ لوگ مقامی ثقافت اور معاشرت میں گھل مِل جانا، اور جذب ہونا پسند نہیں کرتے تھے ، اس ہی لئے ان دونوں افراد کی شہریت منسوخ کرنا پڑی۔

دو مسلمان بھائیوں نےبھی مذہبی پابندیوں کے حوالے سے اپنی خاتون استاد کے ساتھ، ہاتھ ملانے سے انکار کردیا تھا۔ جب میڈیا پر یہ واقعہ نشر ہوا تو اس واقعے سے سوئٹزرلینڈ میں بڑے پیمانے پر غم و غصہ کی لہر پیدا ہوگئی ۔ ایک استاد سے طلباء و طالبات کا ہاتھ ملانا سوئس سکولوں میں ایک عام معاشرتی عمل ہے۔

اس واقعے پر بڑے پیمانے پر ناگوار ردِّ عمل کے بعد، سوئِس حکّام نے لڑکوں کے باپ، جوکہ باسِل کی ایک مسجد کے اِمام ہیں ،کی شہریت کی درخواست کو معطل کر دیاتھا۔

سوئٹزرلینڈ میں مخلوط ماحول میں تیراکی کی لازمی تربیت پر بھی ہنگامہ پہلی بار نہیں اٹھا ہے، اس سے پہلے سنہ 2012 میں ایک مسلم خاندان کو اپنی بیٹیوں کو سوئمنِگ کی ٹریننگ کلاس میں شریک ہونے پر 1500 سوئس فرانک جرمانہ کیا گیا تھا۔

جرمانے سے متاثّرہ خاندان اس معاملے کو عدالت لیکر گیا تھا، بالآخر سوئٹزر لینڈ کی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ مذہبی بنیادوں پر سوئمنگ کے سبق میں حصّہ نہ لینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔

سوئٹزرلینڈ میں امریکہ، کینیڈا اور دوسرے مغربی ممالک کی طرح حقِ شہریت صرف قومی تاریخ، سیاست ، ملکی قوانین سے واقفیت اور طرزِ معاشرت کا علم رکھنے کی بنیاد نہیں دیا جاتا ہے، بلکہ شہریت حاصل کرنے کے لئے معاشرے میں تحلیل و انضمام (نیچرل آئزیشن)نہایت ضروری ہے۔ شہریت حاصل کرنے کے لئے امیدواران کو ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف ملکی رسم ورواج، ریت روایات، اور معاشرے میں رائج چلن کا احترام کرتے ہیں، بلکہ مقامی ثقافت اور معاشرے میں مکمّل طور پر ضم ہونے کے لئے ذہنی اور جسمانی طور پر تیار ہیں۔

نیچرل آئزیشن بورڈ (جو کہ ایک طرح کی سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن کورٹ ہوتی ہے) کی جانب سے سوئس رسم و رواج اور ثقافت میں مدغم و تحلیل نہ ہونے کے عمل سے اجتناب پر بڑی بے رحمی کے ساتھ حقِ شہریت منسوخ کئے جانا دراصل سوئس حکومت کا پناہ گزینوں کو واضح پیغام ہے کہ اگر تم ہمارے رسم و رواج اور ثقافت کو مسترد کروگے ، تو ہم تمہاری شہریت کی درخواست کو مسترد کریں گے۔

Comments are closed.