عراق کی جنگ کا اصل مقصد، تیل کی دولت پر قبضہ

asaf jilani

آصف جیلانی

 برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیر یہ تاویلیں پیش کرتے نہیں تھکتے کہ عراق اور مشرق وسطی میں امن و آشتی کے لئے صدام حسین شدید خطرہ تھے اور ان کا وسیع پیمانہ پر تباہی کا جوہری اسلحہ دنیا کے امن کے لئے خطرہ تھا اس لئے عراق کی جنگ لازم تھی۔۔ٹونی بلیر کا اب بھی یہ استدلال ہے کہ اگر صدام حسین کو اقتدار سے نہ ہٹایا جاتا تو حالات آج سے بھی بد تر ہوتے ۔ صدام حسین کے مفروضہ جوہری اسلحہ کے بارے میں تو ٹونی بلیر نے خود اعتراف کیا ہے کہ انہیں غلط انٹیلی جنس اطلاعات فراہم کی گئیں تھیں لیکن ان کے اس جواز کو کہ مشرق وسطی کے امن کو صدام حسین سے خطرہ تھا، چلکاٹ انکویری رپورٹ میں واضح طور پر باطل قرار دے دیاگیا ہے۔

سات سال کے طویل عرصہ کے بعد ، 6جولائی کو26لاکھ الفاظ پر مشتمل شائع ہونے والی چلکاٹ انکوائری کی رپورٹ میں جو سرکاری دستاویزات شامل ہیں ان سے یہ واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ عراق کی جنگ کا بنیادی مقصد ، عراق کے تیل کی دولت پر قبضہ کرنا تھا۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جنگ کے بعد مقبوضہ عراق میں چھ سال تک برطانوی فوجوں کی موجودگی کے دوران برطانیہ کے دو بنیادی مقاصد تھے۔ اول ، تیل کی ملکیت ، قومی تحویل سے بین الاقوامی کمپنیوں کو منتقل کردی جائے اور دوم اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ عراق کی تیل کی دولت میں برطانوی برٹش پیٹرولیم اور امریکی شیل آئل کو بڑا حصہ ملے۔

چلکاٹ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ عراق پر برطانیہ اور امریکا کی قابض حکومت کے پہلے سال میں 60فی صد برطانوی کمپنیاں عراق میں کام کررہی تھیں جنہیں دو ارب ساٹھ کروڑ ڈالر کی مالیت کے ٹھیکے دئے گئے تھے ۔ اسی دوران 8ارب ڈالر کی مالیت کی عراقی تیل کی دولت کا پتہ نہیں چلا کہ کہاں غا ئب ہوگئی۔ قابض حکومت نے اپنے مفادات کی خاطر عراق کے تیل کی صنعت کا ڈھانچہ یکسر تبدیل کردیا۔ چلکاٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گو عراق پر قبضہ رسمی طور پر 2004میں ختم ہوگیا تھا لیکن برطانوی فوجیں عراق میں مزید پانچ سال تک تعینات رہیں۔ سرکاری طور پر یہ کہا گیا کہ برطانوی فوجیں ، خود مختار عراقی حکومتوں کے دعوت پر وہاں تعینات رہیں، لیکن یہ عراقی حکومتیں دراصل برطانیہ اور امریکا کی طرف سے مقرر کی جاتی تھیں۔

چلکاٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صدام حسین کو تختہ الٹنے کے بعد عراق کے تیل پر کنٹرول کے لئے امریکا اور برطانیہ کے درمیان سخت تلخ معرکہ آرائی ہوئی تھی ۔ جنگ سے پہلے ۹دسمبر 2002کو ٹونی بلیر کے امور خارجہ کے مشیر ، سر ڈیوڈ مننگ نے امریکا کی وزیر خارجہ کونڈو لیزا رائیس کو لکھا تھا کہ برطانیہ ، جنگ کے بعد عراق کے تیل میں زیادہ سے زیادہ حصہ طلب کرے گا اور ہم چاہیں گے کہ برطانیہ کی تیل کمپنیوں کو تیل کے چشموں اور دوسرے شعبوں میں زیادہ حصے دئے جائیں۔ جنگ سے دو مہینے پہلے برطانوی حکام نے برٹش پیٹرولیم کے ماہرین کو یہ معلوم کرنے کے لئے طلب کیا تھا کہ عراق کے انرجی شعبہ میں کیا مواقع ہیں۔ جنگ کے بعد برطانوی تیل کمپنی کو دنیا میں تیل کے دوسرے بڑے تیل کے چشمے رومیلا فیلڈ میں تیل کی پیداوار بڑھانے کو ٹھیکہ دیا گیا۔

اکتیس مارچ 2003کو ٹونی بلیر نے صدر بش سے ملاقات میں زور دیا تھا کہ ہمیں اس تاثر کو ختم کرنے کی منظم طور پر کوشش کرنی چاہئے کہ ہم نے عراق کے تیل پر قبضہ کرنے کے لئے جنگ کی ہے۔ امریکا اور برطانیہ نے یہ حقیقت بھی چھپانے کی کوشش کی کہ عراق کی جنگ سے اسرائیل کا کیا مفاد وابستہ تھا ،اور عراق پر قبضہ کے بعد اسرائیل نے عراق میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے کیا حربے استعمال کئے۔ چلکاٹ رپورٹ میں بھی ایسا لگتا ہے کہ عمد اً اس پہلو کو نظر انداز کردیا گیا۔ بہت سے مبصروں کا خیال ہے کہ چلکاٹ انکوائری میں سر لارنس ڈیوڈ فریڈ مین اور سر مارٹن گلبرٹ مانے ہوئے اسرائیل حامی اراکین تھے اور غالباً اسی وجہ سے عراق کی جنگ کے بارے میں برطانوی حکومت کے ساتھ اسرائیلی روابط کا قطعی کوئی ذکر نہیں۔

یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اسرائیل ، عراق کو اپنے خلاف بڑا مضبوط محاذ تصور کرتا تھا اور خلیج کی پہلی جنگ کے دوران اسرائیل پر عراق کے اسکڈ مزایل کے حملے بھی ہوئے تھے۔اسرائیل کو جب بھی موقع ملا اس نے عراق کی فوجی قوت اور خاص طور پر اس کے جوہری پروگرام کو تباہ کرنے کے لئے کاروائی کی۔ اسرائیل کے لئے یہ بات طمانیت کا باعث تھی کہ عراق پر امریکا اور برطانیہ کے قبضہ کے بعد اسرائیل کے خلاف یہ محاذ مسمار ہوگیا۔

اس بات کے ٹھوس شواہد ہیں کہ عراق پر قبضہ کے بعد جب امریکا اور برطانیہ کو عراقیوں کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تو اس مزاحمت کے خاتمہ کے لئے اسرائیلی فوجی ماہرین نے شیعہ اور سنی فرقوں کے درمیان جنگ بھڑکانے کا مشورہ دیا اور امریکی فوجوں نے شیعہ برادری کو مشتعل کرنے کے لئے چوری چھپے ان کے علاقوں پر حملے کئے تاکہ ان حملوں کا الزام سنیوں پر لگایا جاسکے ۔ نتیجہ یہ کہ دونوں فرقوں میں جو ایک زمانہ سے ساتھ ساتھ زندگی گذاررہے تھے نفرت کی خونریز آگ بھڑک اٹھی اور یہ آگ اب بھی لگی ہوئی ہے ۔

برطانوی سیاست دانوں اور حکام کو تشویش ہے کہ چلکاٹ رپورٹ کے تحت ٹونی بلیر کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ ٹونی بلیر اور ان کے وزیر خارجہ جیک اسٹرا کو علم تھا کہ وہ جنیوا کنونشن اورہیگ کے قواعد کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور اس بارے میں سرکاری وکلاء نے انہیں خبردار بھی کیا تھا۔آئینی ماہرین کی رائے ہے کہ ٹونی بلیر کے خلاف بین الاقومی جرائم کی عدالت میں مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا کیونکہ جس قانون کے تحت قائم کی گئی ہے اس میں جارحیت کا ذکر نہیں۔

البتہ ان کے خلاف جنیوا اور ہیگ کنونشن کے تحت مقدمہ چلایا جا سکتا ہے ۔ آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان قواعد کے تحت قابض قوتوں کو کسی ملک کی معیشت اور سیاسی نظام کو بدلنے کا اختیار نہیں ہے۔ اور در اصل عراق میں یہی ہوا۔ عراق پر قبضہ کے بعد امریکا اور برطانیہ کی اتحادی حکومت نے عراق کی معیشت میں بنیادی تبدیلی کی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لئے ملک کے دروازے کھول دئے ۔ اسی کے ساتھ عراق کا سیاسی نظام تبدیل کردیا گیا اور فرقہ وارانہ بنیاد پر حکومت کا ڈھانچہ قائم کیا گیا جس کے نتیجہ میں خونریزی کا سلسلہ برابر جاری ہے۔

 ٹونی بلیر کی جان اس وقت ، یورپی یونین کے بارے میں ریفرنڈم کے بعد پیدا ہونے والے بحرانی حالات کی وجہ سے بچی ہوئی ہے کہ سیاست دان اور عوام ریفرنڈم کے نتایج کے مضمرات کے جال میں الجھے ہوئے ہیں، لیکن اس سال کے آخر میں ٹونی بلیئر کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمہ کے مطالبہ کی تحریک اٹھنے کا امکان ہے۔

Comments are closed.