صدر طیب اردگان اور جمہوری ادارے

محمد شعیب عادل

06rdv-turkey-tmagArticle

یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ ترکی کے عوام نے فوجی بغاوت کو ناکام بنا دیاہے۔طیب اردگان کی سیاست اور گورننس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر اس بات کی حمایت نہیں کی جا سکتی کہ فوج ایک جمہوری حکومت کو چلتا کرے۔کسی نے سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصرہ کیا کہ بینر تو پاکستان میں لگے تھے مگر فوج ترکی میں آگئی۔

مبصرین کے نزدیک یہ فوجی بغاوت نہیں تھی بلکہ فوج میں ایک دھڑے نے بغاوت کی تھی جس کی وجہ سے سویلین حکومت نےباغیوں پر قابو پالیا ۔ اگر تو یہ فیصلہ پوری فوج کا ہوتا تو پھر سویلین حکومت بغاوت پر قابو نہ پاسکتی۔

ترکی بہرحال پاکستان کی بہ نسبت ترقی یافتہ ملک ہے اور وہاں کے عوام نسبتاً زیادہ باشعور ہیں۔ پاکستان میں معاملہ البتہ الٹ ہے۔ یہاں میڈیا اوراس کے سرکاری دانشوروں نے ہمیشہ جمہوری حکومت کے خلاف سازشوں میں عملی کردار ادا کیا ہے اور مسلسل کر رہے ہیں۔ ان کی شدید خواہش ہے کہ جنرل راحیل شریف اقتدار پر قبضہ کریں۔بہرحال ترکی میں ناکام فوجی بغاوت سے پاکستان کی فوجی ایسٹیشبلمنٹ کو دھچکا ضرور پہنچا ہے۔

مسلمان اور جمہوریت دو متضاد نظریہ فکر ہیں۔یہ شریعہ کو جمہوریت پر ترجیح دیتے ہیں۔ اسلامی یا مذہبی جماعتیں جمہوریت کو صرف اقتدارمیں آنے کے لیے استعمال کرتی ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد آئین کو شریعت کے مطابق ڈھالنے میں لگ جاتی ہیں۔جمہوریت اپنی اصل میں ایک سیکولر نظام ہے جس میں ہر شہری چاہے وہ کسی رنگ ونسل یا مذہب سے تعلق رکھتا ہو کو برابرسمجھاجاتا ہے اور اس کو تمام شعبہ ہائے زندگی میں کسی قسم کے امتیاز کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

مصر کی مثال ہمارے سامنے ہے جب انتخابات کے بعد اخوان المسلمون اقتدارمیں آئی تو شریعہ پر مبنی نئے آئین کی تیار ی میں مصروف ہو گئے ۔ حکومت کے اس اقدام کے خلاف ایک بار پھر ہنگاموں کا سلسلہ شروع ہوگیا جس کا فائدہ مصری فوج نے اٹھایا۔مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت کو کم ازکم پنسٹھ فیصد سے زیادہ اکثریت تھی لیکن باقی 35 فیصد کو شریعت قبول نہیں تھی۔شاید اسی قسم کی صورتحال کا ترکی کو بھی سامنا ہے۔یہ طیب اردگان کا ہی قول ہے کہ جمہوریت ایک ایسی ٹرین ہے جب آپ کا مطلوبہ اسٹیشن آجائے تو آپ اتر جائیں۔

صدرطیب اردگان جمہوریت کے ذریعے اقتدار میں تو آگئے مگر آئین کو بتدریج شریعہ کے ماتحت لانے کےاقدامات کرنے شروع کردیے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے دائیں بازو کے لوگ بھی ترکی میں جمہوریت کی حمایت کررہے ہیں۔ اگر ترکی میں کسی سیکولر جماعت کی حکومت کو خطرہ ہوتا تو یہ حضرات خاموش رہتے ۔پاکستان میں بھی دائیں بازو کے لوگوں نے ہمیشہ جمہوریت کی مخالفت کی ہے اور ان کے ایک چھوٹے سے گروہ کو1999 میں جمہوریت کی تھوڑی بہت سمجھ آئی جب نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹاگیا تھا۔

صدر اردگان اپنی پارٹی کی انتخابی کامیابی کے نتیجے میں پہلی مرتبہ 2003 میں وزیر اعظم بنے تھے۔ دو دفعہ وزیر اعظم رہنے کے بعد وہ مزید وزارت عظمیٰ کا الیکشن نہیں لڑ سکتے تھے لہذا اقتدار میں رہنے کے لیے انہوں نے صدارت کا الیکشن لڑا ۔

نچلی سطح سے آغاز کرنے والے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان، اتاترک کے بعد ترکی کے مضبوط ترین سیاستدان بن چکے ہیں۔ تاہم ایک دہائی سے زائد عرصے سے اقتدار میں موجود اردگان اس وقت متنازعہ شخصیت بن چکے ہیں۔ انہوں نے اپنا سفر جمہوریت سے شروع کیا لیکن مذہب کی آڑ لے کر اب وہ آمریت کی طرف جارہے ہیں اور ایسے اقدامات کر رہے ہیں کہ وہ تاحیات اقتدار میں رہ سکیں۔ جس سے ان کی مخالفت میں اضافہ ہو رہاہے۔

دو ٹرم سے زیادہ اقتدار میں رہنے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ برسراقتدار گروہ کرپشن میں بری طرح ملوث ہوجاتا ہے اور دوسرا اپنے اختیارات میں اضافہ کرنا شروع کر دیتا ہے تاکہ جواب دہی کے عمل سے بچا جائے ۔طیب اردگان کو اسی صورتحال کا سامناہے۔ اپوزیشن کی جانب سے صدر اردگان اور ان کی فیملی اور قریبی ساتھیوں پر سنجیدہ نوعیت کے کرپشن کے الزامات ہیں اور وہ اپنے عہدوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے مالی مفادات حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

ان کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اردگان اب قدامت پسندانہ اسلامی اقدار کو لاگو کر نے کے ساتھ ساتھ اپنے مخالفین اور میڈیا کو کنٹرول کر کے سیکولر جمہوریت کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔صدر اردگان کئی اخبارات اور صحافیوں پر پابندیاں عائد کر چکے ہیں۔ اور اپنے مخالفین پر گھیرا بھی تنگ کیا ہے۔ اردگان کے حامی انہیں ایک کرشماتی شخصیت قرار دیتے ہیں جنہوں نے ترکی کو جدید بنایا ہے، تاہم ان کے مخالفیں انہیں ایک ایسا رہنما قرار دیتے ہیں جو اپنی شخصیت اور اپنے عہدے کو طاقتور سے طاقتور بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔

چند ماہ پہلے ہونے والے ریفرنڈم کے دوران پولیس نے حزب مخالف سے تعلق رکھنے والے ٹیلی وژن اسٹیشنوں کو بند کر دیا۔ان ٹی وی اسٹیشنوں کے خلاف چھاپوں کے بعد ہونے والے مظاہروں کے دوران ایک پلے کارڈ پر اردگان کو ’’ آخری آمر‘‘ قرار دیاگیا۔ امریکا میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنے والے انتہا پسند مذہبی رہنما فتح اللہ گْلن، جو پہلے اردگان کے ہی اتحادی تھے، پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اردگان کے قریبی لوگوں کی بدعنوانی کوبے نقاب کراتے ہوئے ان کے اقتدار کو ختم کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ایک کوسٹ گارڈ کے بیٹے رجب طیب اردگان نے بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ وہ 1994ء میں استبول کے میئر منتخب ہوئے اور انہوں نے 15 ملین کی آبادی والے اس میگا سٹی میں ٹریفک اور فضائی آلودگی جیسے مسائل پر قابو پانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی مذہبی سیاسی جماعت کو جب کالعدم قرار دے دیا گیا تو مظاہروں میں شرکت پر انہیں چار ماہ کی جیل بھی کاٹنا پڑی۔

اردگان اور ان کے طویل عرصے کے ساتھی عبداللہ گْل نے 2001ء میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ اے کے پی )کی بنیاد رکھی۔ یہ سیاسی جماعت 2002ء کے بعد سے ہر انتخاب میں کامیابی حاصل کرتی رہی ہے۔ ابتداء میں ان کے مجرمانہ ریکارڈ کے باعث مشکلات کا سامنا رہا تاہم 2003ء میں ملکی پارلیمان کی طرف سے نئی اصلاحات منظور کیے جانے کے بعد وہ ملک کے وزیراعظم بنے۔

Comments are closed.