مائے نی میں کینوں آکھاں درد وچھوڑے دا حال نی

شہزاد عرفان

10984104_844384792273942_7713601678610874115_n (1)

 مجھے یقین ہے  کہ میرے بہت سے دوستوں کے نزدیک قندیل بلوچ کے قتل سے زیادہ اہم سیاسی، اقتصادی، اور بین الاقوامی امور ہیں جنہیں سوشل میڈیا پر پھیلانا اور ان پر بحث کرنا کہیں زیادہ ضروری ہے۔ بھلا سرائیکی علاقے کے غربت ذدہ پسماند سماج سے اُٹھی ایک لڑکی کی داستان اسلامی امّہ کی سلطنتِ عثمانیہمیں حالیہ ناکام بغاوت سے کیونکر اہم ہو سکتی ہے۔

ایسی ہزاروں داستانیں تو آئے روز سرائیکی دھرتی پر جنم لے کر خاموشی سے قتل کر دی جاتیں ہیں جن کا کوئی واویلا یا شوروغل اس لئے نہیں ہوتا کہ ہر لڑکی قندیل کی طرح بہادر نہیں ہوتی مگر یہ بڑی مونچھوں، لمبی داڑھی اور بڑے پیٹ والا معاشرہ اس قدر طاقتور ہے کہ کسی انسان کو قتل کرنے کے لئے صرف اس کا نسواں ہونا ہی مکمل جواز سمجھتا ہے۔

ظاہر ہے اس ملک کی بنیاد پرست مذہبی اور جاگیردارانہ اقدار میں قندیل بلوچ جیسی معصوم لڑکی بھلا کس بھائی کو بہن کی صورت گوارہ ہوسکتی ہے۔ یہاں تو بہنوں کی عزت کے رکھوالے بھائی، جن کو بہنیں بھائی جانکہتی ہیں خود کی مردانہ عزت بچانے کی خاطر بہن کی گالی دے کر اُسی کی جان لے لیتے ہیں۔

 گدھ وہیں منڈلاتے ہیں جہاں کوئی بے یارو مددگار زندگی کی آخری سانسیں گن رہا ہو۔۔۔ غربت زدہ سرائیکی وسیب میں گلی کے ہر دوسرے کونے پر ایک الٹرا ساؤنڈ مشین موجود ہے جو لڑکا ہوگا یا لڑکیکا فال نکالنے کا کام کرتی ہے۔۔۔۔۔ یہ کام اس سے پہلے علاقے کے پیر اور مولوی حضرات کیا کرتے تھے مگر یہ مکروہ دھندہ اب پڑھے لکھے ایم بی بی ایس ڈاکٹرز مافیا کے ہاتھ میں ہے ۔ کیونکہ اب تک مشین کی پیشین گوئی کبھی غلط ثابت نہیں ہوئی لہذا لڑکی کے پیدا ہونے کا تھوڑا سا بھی امکان باقی نہیں رہتا۔

ایک غربت دوسرا بیٹی کا پیدا ہوجانا بھلا ایسے سماج کو کیسے گوارہ ہوسکتا ہے جہاں طاقتور مرد کی عزت اور لاج ایک نسواں کمزور ناتواں کے ہاتھ میں ہو۔

وہ کوئی باقاعدہ گلوکارہ، فنکار ادیب یا دانشور نہیں تھی مگر اس میں کچھ تو ایسا ضرور تھا کہ سب اُس کی بے باک نسوانیت سے ڈرتے تھے۔ اس نے غلامی کی ساری شرائط من وعن پوری کیں تھیں۔ ماں باپ اور بھائیوں کے حُکم کے مطابق اس نے اُس شخص سے شادی کی جو اسکو پسند نہیں تھا۔ شوہر کے ظُلم کا شکار اس ماں کوحُکم ملا کہ اپنا بچہ ظالم باپ کو واپس کردے اور شوہر کے گھر سے نکل جائے ۔۔۔۔ اُس نے حُکم کی تعمیل کی ۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ اپنے قاتل غیرت مند نکمے اوباش بھائیوں کو اپنی کمائی سے موبائل کی دکان اور مہنگے علاقے میں رہنے کے لئے گھر لے کر دیا جو غیرت کے ان متوالے بھائیوں کو ہمیشہ سے قبول تھا ۔

تعلیم سے لے کر سوشل میڈیا پر اپنے کیرئر کی جدوجہد کے دوران وہ  آئینہ بن کر مردوں کی آنکھوں سے اُنکا ننگا پن اُن کو دکھاتی رہی اور خود آگے بڑھتی رہی۔ اس کی زندگی کا کُل تجربہ یہی کہتا تھا کہ یہ معاشرہ عورت کو توہین کے سوا کُچھ نہیں دیتا جہاں وہ مردانہ احکام سے مشروط زندگی گُزارتی ہوئی مرجاتی ہے اور کبھی کوئی بغاوت کرکے اپنی جان بچا بھی لے تو اُس ابھاگن کو یہ سماج ایک کالی دیوار سمجھ کر زندگی بھر قید ِ تنہائی کی سزا دیتا ہے۔

شریف لوگ کالک سمجھتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ کہیں انکی سفید پوشی پر دھبہ نہ لگ جائے ۔اچھا تو یہ بات ہے۔۔۔۔ تو چلو یوں ہی سہی ۔۔۔۔۔ اگر سفید پوشی ایک عورت کی ستر پوشی سے بڑھ کر ہے اور جسے لوگ کالک سمجھ کر ڈرتے ہیں تو کیوں نہ انھیں کالک بن کرہی ڈرایا جائے ۔۔۔۔۔ بس یہی ایک بات اس لڑکی کو سمجھ آئی جو اس نے کر کے دکھا دیا کہ یہ نام نہاد عزت دار معاشرہ دراصل کتنا بونا، چھوٹا اور تنگ نظر ہے جو اس کے میڈیا پر چھوٹے چھوٹے ٹام اینڈ جیری شوز کھیلنے سے ننگ دھڑنگ ہوجاتا ہے تو کیوں نہ اس سے کھیل کر اس کا چہرہ اسے دکھایا جائے۔

 وہ یہ نہ جان سکی کہ یہ بظاہر سفید پوش معزز، مہذب اور اخلاقیات سے بھرپور معاشرہ درحقیقت اندرسے کتنا کھوکھلا اورخوفناک قاتل ہے جو اب تک اس جیسے  کتنی ہی معصوم بچیوں کو عزت اورغیرت کے نام پر سنگسار کر چکا ہے۔

قندیل بلوچ کا تعلق جنوبی پنجاب کے پسماندہ سرائیکی علاقے ڈیرہ غازی خان سے تھا جہاں قبائلی سماج کے سرداروں اور جاگیرداروں کی طاقت کا زور چلتا ہے۔ یہ طاقت ان کو ریاست نے عطا کی ہے جہاں ان کی مرضی کے خلاف پرندہ بھی سانس نہیں لیتا۔ ان کی بغل میں بیٹھا تنخواہ دار مُلاں مدرسوں اور مسجدوں کے ذریعے احکامِ الہٰی کی اپنی اپنی تشریح گھڑ کر خواتین کے حقوق کی پامالی کا درس بیٹھا دے رہا ہے مگر کیا مجال کسی کی کہ کوئی غیرت جاگے۔

الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بیٹھے رنگ رنگیلے اینکرز دن رات انسانی حقوق کی پامالی اور خواتین کے حقوق کی گردانیں کرتے ہوئے یہ کیوں بھول جاتے ہیں جس صوبہ پنجاب کو خوشحال پنجاب، پڑھے لکھا پنجاب، اور ترقی یافتہ پنجاب  کہہ رہ ہیں وہاں کی ستر فیصد سرائیکی آبادی غربت کی بین الاقوامی طے شُدہ خط  سے کہیں نیچے زندگی گُزارنے پر مجبور ہیں ۔

کوئی کہتا ہے کہ یہ زرعی  سماج کی جاگیردارانہ سوچ ہے جس نے وسائل سے مالا مال زرخیز دھرتی پر عام انسانوں کو غیر تعلیم یافتہ، غربت زدہ اور ظلم کی چکی میں پیس کر ایک ایسا سماجی رویہ پیدا کیا جس نے عورتوں کو غلام اور مردوں کو طاقتور بھیڑیا بنا دیا ہے تو کوئی کہتے ہیں کہ نہیں یہ آدھا سچ ہے اگر ان سرائیکی جاگیرداروں وڈیروں کو حُکمران سیاسی پارٹیوں اور فوجی آمروں کا تحفظ  فراہم نہ ہوتا تو یہ قبائلی نظام کا پسماندہ سماجی رویہ کب کا تبدیل ہوچکا ہوتا۔  

ان حالات میں یقیناً جو سب سے زیادہ کمزور ہے وہ اس فسطائیت کا شکار سب سے پہلے ہوگا۔ سرائیکی علاقے کی پسماندگی کا شکار یہاں کی خواتین اور بچے اس درندگی کا شکارسب سے پہلےبنتے ہیں ۔ خواتین جو آئے دن قندیل بلوچ کی طرح قتل ہوتی رہتیں ہیں اور بچے جنہیں غربت زدہ والدین مجبوراً اللہ اور رسول کی راہ میں دان کردیا جاتا ہے جہاں وہ سفاک جنسی مریض ملاؤں کی ہوس اور تشدد کا بدترین نشانہ بننے کے بعد بلآخر خودکش بمبار بن کر سب سے پہلے اپنے ہی گھر کی بہنوں کو خون میں نہلا دیتے ہیں۔

2 Comments