بین الاقوامی تعلّقات میں لابنگ فرمز کا کردار

Asif Javaid4

  آصف جاوید

بین الاقوامی تعلّقات میں کامیابی کا انحصار لابنگ فرم کی فعالیت پر نہیں ہوتا

پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی، بڑھتی ہوئی عالمی تنہائی کے باعث ہونے والی نکتہ چینیوں اور جگ ہنسائی کے جواب میں وزیر اعظم کے مشیر برائے امورِ خارجہ سرتاج عزیز نے پچھلے دنوں قومی اسمبلی میں بڑا مضحکہ خیز بیان دیا کہ امریکہ میں پاکستان کے ایک سابق سفارت کار کی وجہ سے دنیا میں پاکستان کو لابنگ کرنے میں دشواریاں پیش آرہی ہیں۔ انہوں سابق سفارتکار (جناب حسین حقّانی ) کا نام لیے بغیر کہا کہ وہ پاکستان مخالف لابی کے ساتھ مل کر ملک دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کرر ہے ہیں۔

مشیرِ خارجہ کے اِس بیان کے جواب میں ا مریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ

۔”ملک میں ہونے والی تنقید پر سے توجہ ہٹانے کے لیے کسی کو قربانی کا بکرا نہیں بنانا چاہیے۔

میں امریکی اداروں و جامعات میں بین الاقوامی تعلقّات کے شعبے کا ایک سکالر ہوں، نہ کہ کسی لابنگ فرم کا نمائندہ ، اگر ایک سکالر کی حیثیت سے میری رائے امریکی پالیسی پر اتنا وزن رکھتی ہے کہ وہ اس پر اثر انداز ہو رہی ہے تو پاکستانی دفتر خارجہ کو چاہئے کہ وہ میری رائے کو اہمیت دے، اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے، نہ کہ میرے ساتھ اچھوت جیسا سلوک کیا جائے اور پاکستانی میڈیا میں میرے خلاف جھوٹے الزامات لگائے جائیں۔ پاکستان کے امریکہ سے تعلقات میں مشکلات کی وجہ اس کی برسوں سے جہادیوں کی حمایت اور تذویراتی اثاثوں کی حفاظت ہے۔ پاکستان کے امریکی امداد پر انحصارکی وجہ سے پاکستان کے بارے میں امریکی قومی مزاج اور رویے کے احساس میں تبدیلی آئی ہے۔ حسین حقانی نے مزید کہا کہ’ انھوں نے نہ تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نیٹ ورک قائم کیا تھا، اور نہ ہی افغانستان میں امریکی فوجیوں کو ہلاک کرنے والے طالبان کی حمایت کی تھی۔ اور نہ ہی اقوام متحدہ کی جانب سے قرار دیے جانے والے دہشت گرد گروپوں کو کھلے عام سرگرمیوں کی اجازت دی تھی، تو اس میں ایسا کوئی نکتہ نہیں کہ مجھے ان پالیسیوں کی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے اور نہ ہی میں یا دوسرا کوئی سفیر اسامہ بن لادن کے واقعے کا ذمہ دار ہے۔ حسین حقّانی نے آخر میں مشیر خارجہ کو مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ میں موجود ایک سکالر کے خلاف اسلام آباد میں بیٹھ کر صرف شور مچانے سے واشنگٹن میں چیزیں نہیں بدلیں گی۔

حسین حقّانی کے اس جواب پر مجھے یہاں منیر نیازی کے دو اشعار یاد آگئے کہ

شہر میں وہ معتبر میری گواہی سے ہوا

پھر مجھے اس شہر میں نامعتبر اُس نے کیا

شہر کو برباد کرکے رکھ دیا اس نے منیر

شہر پر یہ ظلم میرے نام پر اس نے کیا

یہ ایک اوپن سیکرٹ ہے کہ پاکستان میں خارجہ پالیسی کے معاملات سیکیوٹی اسٹیبلشمنٹ تشکیل دیتی ہے۔ خارجہ امور کی پالیسی بناتے وقت بین الاقوامی تعلقات کو سکیورٹی تناظر میں دیکھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے خارجہ پالیسی پر فوج کی بالادستی قائم رہتی ہے۔

صرف بھٹو کے دور میں ہماری خارجہ خارجہ پالیسی کسی حد تک دفترِ خارجہ میں بنتی تھی۔ تھنک ٹینکس بھی ہوتے تھے۔ بیوروکریٹ بھی اپنی رائے دیتے تھے۔ مگر سپروائزری کنٹرول سیکیورٹی اسٹبلشمنٹ کا ہی ہوتا تھا۔ دفترِ خارجہ آج بھی موجود ہے، تھنک ٹینکس آج بھی ہوتے ہیں، مگر ان تھنک ٹینکس میں سابق سفارتکاروں، بین الاقوامی تعلّقات کے ماہرین، دانشور سطح کے بیوروکریٹس کی بجائے کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ کے وردی پوش دانشور بیٹھے ہوتے ہیں۔

کیونکہ فوج کا خیال یہ ہے کہ وہ قومی مفادات کے نگراں ہیں اور خارجہ پالیسی کو سکیورٹی کے تناظر میں بنانے میں ہی پاکستان کی سلامتی پوشیدہ ہے ۔ لہذا اب عملی طور پر وزارتِ خارجہ کا دفتر سوِل سیکرٹریٹ اسلام آباد کی بجائے راولپنڈی اور آب پارہ میں قائم ہے۔ چین جس سے پاکستان کا صرف سات سو کلومیڑ کا بارڈر ملا ہوا ہے، ہمارا عظیم ترین دوست ہے اور چین –پاکستان کی دوستی ہمالیہ سے بھی بلندتر ہے۔

جبکہ بھارت، ایران اور افغانستان، جس سے ہماری سات ہزار کلومیٹر کے قریب سرحد ملتی ہے۔ ہمارے دشمن ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اصل مرکز عالمی برداری سے دہشت گردی ختم کرنے کے نام پر بے تحاشہ امداد کی وصولی ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی کا نقطہِ ماسکہ انڈیا سے ازلی دشمنی ہے، مسئلہ کشمیر حل ہوئے بغیر ہم انڈیا سے نہ تو جامع مذاکرات کر سکتے ہیں، اور نہ ہی کسی قسم کے تجارتی ، معاشی اور سماجی روابط قائم کر سکتے ہیں۔

ہم افغانستان میں ایسی حکومت چاہتے ہیں جو ہمارے مفادات کا تابع ہو، ہم کابل کو اسلام آباد کی کٹھ پتلی دیکھنا چاہتے ہیں۔ عربوں کی ایرانیوں سے نسلی دشمنی کی سزا کے طور پر ہم ایران کو بھی اپنا سچّا اور پکّا دوست نہیں بنا سکتے، ایران سے سستی گیس، بجلی ، تیل اور دیگر معدنیات کبھی بھی حاصل نہیں کرسکتے کیونکہ ایران سے دوستی کی قیمت پر سعودی آقائوں کو ناراض نہیں کیا جاسکتا۔

امریکا سے ہمارا یہ شکوہ ہے کہ امریکہ ہمارا نا قابلِ اعتبار دوست ہے۔ امریکہ مطلب پرست ہے، جب اس کو ہماری ضرورت ہو تو آجاتا ہے۔ کام نکل جانے پر ہمیں پوچھتا تک نہیں۔ ڈرون حملے کرکے پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری کی شدید خلاف ورزی کرتا ہے۔ مسلم امّہ سے تعلّق کا یہ عالم ہے کہ سعودی عرب اور متّحدہ عرب امارات نے یمن میں فوج نہ بھیجنے کے فیصلے کے بعد پاکستان کو سبق سکھانے کے لئے بڑی عجلت میں انڈیا سے مودی کو بلا کر تجارتی، معاشی اور ثقافتی معاہدے کئے ہیں۔

پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کے سبب پوری دنیا میں شرمندگی اور عالمی تنہائی کا سامنا ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی کوئی سمت متعیّن نہیں ہے۔ پاکستان میدانِ جنگ میں اختیار کی جانے والی دفاعی فوجی حکمت عملی کے اصولوں کے تحت اپنی خارجہ پالیسی کو چلا رہا ہے۔ پوری دنیا اور خطّے میں ہونے والے واقعات اور حالات پر صرف اپنا ردّعمل دے رہا ہے۔ کوئی فعال اور منظّم خارجہ پالیسی، پاکستان کی ترجیحات میں شامل نہیں۔

خطّے میں واقع پڑوسی ممالک سے نفرت اور جنگی سازوسامان میں عددی برتری کی دوڑ میں سبقت ہماری پالیسیوں کا مرکز و محور بن چکی ہے۔ اس صورتحال میں کہ جب مسلم امّہ کے چوہدریوں سمیت سارے پڑوسی اور اسٹرٹیجک پارٹنر امریکہ بھی ہم سے نالاں ہے، ہم کس بنیاد پر اپنی ناکامیوں کی ذمّہ داری ایک سابق سفارت کار پر ڈال رہے ہیں۔ کیا پورا ڈپلومیٹک آپریشن اور پوری کی پوری ریاست ایک سابق سفارتکار کے آگے بے بس ہوچکی ہے؟۔

ہم دنیا میں لابنگ کیا خاک کریں گے، ہم تو اپنے ملک میں اتّفاق رائے پیدا نہیں کرسکے۔ بلوچستان ہاتھ سے نکلا جارہا ہے، کراچی بدامنی کی آگ میں جل رہا ہے، سوِل سوسائٹی ، لبرل اور سیکولر طبقہ ، مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں مسلسل ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن رہا ہے۔

ہم تو دنیا بھر میں مقیم پاکستانیوں میں سے دانشوروں کا ایسا طبقہ پیدا نہیں کرسکے جو سمندر پار ہمارے قومی مفاد ات کو حاصل کرنے کے لئے بین الاقوامی پالیسی سازوں، سٹیک ہولڈرز اور قانون سازوں سے تعلّقات اور روابط قائم کر سکے۔ انکے ساتھ موثّر لابنگ کرسکے۔ ایرانی تھنک ٹینک اور پسِ پردہ ڈپلومیٹس نے بیک ڈور چینلز کے ذریعے 20 سال کی کوششوں کے بعد امریکہ سے تعلّقات بحال کروالئے، پابندیاں ختم کرالیں، منجمد اثاثے بحال کرالئے۔

انڈیا نے سمندر پار انڈین پروفیشنلز کے امریکی پالیسی سازوں، سٹیک ہولڈرز اور قانون سازوں سے تعلّقات اور امریکی معاشرے میں انکے روابط کا فائدہ اٹھا کر نیوکلیئر سپلائی گروپ میں شمولیت کی راہ ہموار کرلی، میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول ریجیم پر دستخط کر کے میزائل ٹیکنالوجی کی برآمد پر کنٹرول رکھنے والے ممالک کے گروپ میں شمولیت اختیار کرلی، امریکہ سے چھ ’نیوکلیئر پاور ری ایکٹرز‘ کے قیام کی منظوری لے لی ۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اصلاحات اور اس میں مستقل رکنیت کے معاملے پر بھی عالمی حمایت بھی حاصل کرلی۔ اس نقطے کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بین الاقوامی تعلّقات میں کامیابی کا دارومدار لابنگ فرم کی فعالیت پر نہیں ہوتا ، بلکہ متوازن ، منظّم اور موثّر خارجہ پالیسی کے مسلسل اطلاق پر ہوتا ہے۔

Comments are closed.