قتل اور ریاست

anbارشد نذیر

ہر قتل دراصل انسان اور انسانیت کا قتل ہوتا ہے۔ قتل کبھی اپنے آپ میں نتیجہ نہیں ہوتا یہ علامت ہوتا ہے۔ قتل درحقیقت سماج اور فرد کے درمیان رواجوں اور روایات پر پھیلنے والی بے چینی کی علامت ہوتا ہے۔ یہ سماج اور ریاست کے درمیان افراد کی تکریم کی شکست و ریخت کی علامت ہوتا ہے۔ یہ سماج کے لئے ریاست کے بنائے گئے اداروں کی غیر تسلی بخش کارکردگی کے خلاف احتجاج بھی ہوتا ہے۔ ہر قتل انصاف کے قتل کی بھی علامت ہوتا ہے۔ قتل فرد، سماج اور ریاست کے درمیان تعلق کو چیلنج کر رہا ہوتا ہے۔

قتل کو بہت سی اقسام اور حصوں میں بانٹ دیا جاتا ہے۔ اس طرح حصوں بخروں اور اقسام میں بٹا یہ قتل انسان کا قتل نہیں رہتا یہ تو قوموں، قبیلوں، نسلوں، مختلف مذہبوں، فرقوں اور تعصبات کی زد میں آئے افراد کا قتل بن جاتا ہے۔ لیکن قتل کی ہر قسم سماجی اجتماعی نفسیات پر بہت بڑا سوال ہوتا ہے۔ یہ ریاست اور سماج کے درمیاں معاہدے پر بھی ایک سوالیہ نشان ہوتا ہے۔

اقسام اور حصوں میں بٹے اس قتل کے علاوہ قتل کی ایک اور قسم بھی ہوتی ہے جس کی طرف سماج کی اجتماعی شعوری توجہ کو مرکوز ہونے ہی نہیں دیا جاتا۔ یہ قتل خود ریاست اور ریاستی مشنری کرتی ہے۔ ریاست اور ریاست کے ادارے اپنی نالائقی، نااہلی، بدعنوانی اور استحصالی کردار کی وجہ سے لوگوں کی بڑے پیمانے پر زندگیاں لینے کا سبب بن جاتے ہیں۔ ریاست، اگر سیلاب، زلزلے اور دیگر قدرتی آفات جن پر جدید ٹیکنالوجی کی روشنی میں خاطرخواہ قابو پا کرانسانی جانوں کے اتلاف کو کم یا بالکل ختم کیا جاسکتا ہے، کو کم کرنے یا ختم کرنے میں اپنا کردار ادا نہیں کرتی تو جانوں کا یہ اتلاف بھی قتل ہی کے زمرے میں آتا ہے۔

ہسپتالوں میں ادویات کی کمی، غذائی قلت کے شکار زچہ و بچہ، بے روزگاری سے پھیلنے والی نفسیاتی اور ذہنی امراض اور اس کے سبب سے ہونے والی اموات یہ سب قتل ہی کے زمرے میں آتے ہیں اور یہ قتل ریاستی قتل ہی ہیں۔ ریاستی مشنری، استحصالی طبقہ اورایسی صورتحال سے مستفید ہونے والے افراد اس قسم کے قتل پر پردہ ڈالنے کے لئے قتل کو حصوں اور ٹکڑوں ہی میں تقسیم کرکے دیکھتے ہیں۔ لیکن قتل کو ٹکڑوں، حصوں اور مختلف اقسام میں بانٹنے سے انسان اور انسانیت کے ساتھ کیا جانے والا یہ ظلم ختم تو نہیں ہو جاتا۔

ریاست کے ناقص انتظامات، صحت صفائی اورصاف ماحول کی عدم دستیابی سے پیدا ہونے والی بیماریاں اور اموات بھی ریاستی قتل ہی ہوتا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی جس پیمانے پر کینسر، پھیپھڑوں کے امراض، دل کے امراض اور دیگر نفسیاتی امراض جن سے اموات بھی واقع ہوتی ہیں اورایک ٹیس ماحول خود بھی قتل و غارت کا سبب بنتا ہے تو اس قسم کے تمام قتلوں کی ذمہ داری ریاست پر ہوتی ہے۔ اوزون لیئر کے پھٹنے اورفضا میں کلوروفلوروکاربن کی زیادتی جس پر ریاست غربت اور بے روزگاری جیسے مسائل کے باوجود کوئی اقدام نہیں اٹھا سکتی۔ ایسی پیچیدگیاں جن اموات اور قتلوں کا باعث بنتی ہیں وہ بھی ریاستی قتل ہی تو ہیں۔ یہ قتل کیسے غیر اہم ہیں اور عام قتلوں کے مقابلے میں کیسے زیادہ توجہ کے مستحق نہیں ہیں؟ آخر ہم قتل کو بھی حصوں اور اقسام میں کیوں بانٹ کے دیکھتے ہیں۔

اس لئے کوئی قتل نہ چھوٹا ہوتا ہے اور نہ ہی بڑا۔ قتل بچے کا ہوتا ہے نہ بوڑھے کا، نہ ہی یہ عورت کا ہوتا اور نہ ہی جوان کا۔ قتل ہوتا ہے فقط انسان کا۔ قتل میں ایسی کوئی تفریق نہیں کی جا سکتی جیسے انسانی خون میں۔ قتل صدمہ بھی ہوتا ہے اور المیہ بھی۔

قتل غیرت کا ہوتا ہے اور نہ ہی بے غیرتی کا۔ اسے بس مختلف حصوں اور اقسام میں تقسیم کردیا جاتا ہے۔ غیرت کے نام پر قتل پر شور زیادہ مچایا جاتا ہے کیونکہ عورت کوانسان کے بجائے عورت ظاہر کرنے میں ریاست اور ریاستی مشنری کا بھی بھلا ہو جاتا ہے اور استحصالی طبقات کی بھی چاندنی ہو جاتی ہے کہ قتل میں عورت کی مظلومیت کو زیادہ کیش کریں گے۔

کیا انسان کو ذبح کرکے اُس کا گوشت بیچنا، بچوں کے ساتھ غلط کاری کرکے انہیں موت کے گھاٹ اتار دینا اور ان کی ننگی فلمیں بناکر مارکیٹ میں لانا، مردہ خواتین کی قبروں میں ان کے ساتھ زنا کرنا، خواتین کو دھوکے فریب سے سمگل کرکے دیارِغیر میں لے جا کر دھندا کرانا اور پھرانہیں قتل کردینا بھی توایسے قتل ہیں جن پر ہماری اجتماعی غیرت پر سوال اٹھایا جانا چاہئے؟ یا پھر یہ کہہ دیں کہ یہ قتل ایسے کسی زمرے میں آتے ہی نہیں ہیں جن پر انسانی یا اجتماعی غیرت کا کوئی سوال اٹھایا جاسکے؟

پھر آخر کیوں قتل کو تقسیم کردیا جاتا ہے۔ آخرایسے قتل کو ہماری اجتماعی غیرت کا قتل بنا کر کیوں نہیں پیش کیا جاتا۔ یا ہمارے ہاں اجتماعی غیرت نامی جیسی کسی چیز کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔ یہ قتل کیسے معمولی ہیں اورغیرت کا قتل کیسے غیر معمولی اور بڑا ہے؟

بلا شبہ قتل کے پیچھے رواجوں اور روایات کو تلاش کیا جا سکتا ہے۔ ان کی منطق بھی تلاش کی جاسکتی ہے۔ خواتین پر ظلم و زیادتی کی وجوہات بھی تلاش کی جاسکتی ہیں۔ لیکن اگر ان رواجوں اور رسومات کے برقرار رکھے جانے اور ان کا قلعہ قمع نہ ہوسکنے اورایسی رسومات اور رواجوں سے مستفید ہونے والے طبقے کو تقویت دینے والےعناصر کا جوازتلاش نہیں کیا جائے اور اس کے علاج میں سماج، ریاست اور فرد کے وظائف کا تعین نہ کیا جائے تو اس سے یہی باور کیا جاسکتا ہے کہ ہم علامات کے علاج کی کوشش کر رہے ہیں لیکن بیماری کی حقیقی جڑ تک پہنچ ہی نہیں پارہے۔

قتل تو مذہب، فرقے اور قومی بنیادوں پر بھی ہو جاتے ہیں۔ وہ بھی تو انسان ہی کا قتل ہوتے ہیں۔ قتل نسلوں کا ہویا قبیلوں کا۔ یہ قتل بھی انسان ہی کا قتل ہے۔ قتل انسان سے قدرت کی ودیعت کردہ زندگی چھننا ہی تو ہے۔ قتل کی اس طرح کی تقسیم اور درجہ بندی کے پیچھے انسانوں کو تقسیم کرنے کی سازش کارفرما ہے۔

ہمیں یوں بتایا جاتا ہے کہ یہ قتل فلاں عورت کا قتل ہے، فلاں قتل غیرت کے نام پر ہے، فلاں قتل شیعہ کا ہے ، فلاں قتل سنی کا ہے، فلاں قتل عیسائی، ہندو، سکھ، احمدی یا لادین کا ہے، فلاں قتل بلوچ کا ہے، فلاں قتل ہزارہ کمیونٹی کے افراد کا ہے، فلاں قتل مہاجر کا ہے۔ نہیں بتایا جاتا تو بس اتنا کہ یہ انسان کا قتل ہے۔ یہ صرف اور صرف انسانیت کا قتل ہے۔ ہمیں یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ یہ انسانی حمیت اوراجتماعی غیرت کا قتل ہے۔

آخرقتل کو یوں حصوں اور اقسام میں بانٹنے کے کوئی معنی تو ہوتے ہوں گے ناں۔ اس کے پیچھے کسی نہ کسی کے کوئی مفادات بھی تو ہوتے ہوں گے۔ ایک معنی تو یہ سمجھ میں آتے ہیں کہ جب قتل کو یوں حصوں اور اقسام میں بانٹ دیا جائے تواس سے قتل در قتل کا جواز تلاش کر لیا جاتا ہے۔ یعنی ایک دوسرے کو مارے کا جواز تراشا جاتا ہے۔ دوسری بات یہ ہوتی ہے کہ قتل کی ایسی تقسیم ریاست کو اپنی ذمہ داری سے مبریٰ ہونے کا موقع اور جواز فراہم کردیتی ہے۔ اس طرح انسان میں تقسیم در تقسیم کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔

قتال پر سیاست کرنے والے اپنی اپنی تاویلیں گھڑلیتے ہیں۔ اس طرح کے قتلوں کے پیچھے جواز اجتماعی صورت میں نہیں تلاش کئے جاتے۔ ایسا کرنے پر ریاست اور سماج کے درمیان ایک فیصلہ کن کشمکش کے شروع ہو جانے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔ سماج ریاست کو تفویض کئے گئے وظائف کی بجاآوری پر براہِ راست سوال اُٹھانا شروع کر دیتا ہے۔ یہ صورتحال نہ حکمران طبقے کے مفاد میں ہےاور نہ ہی ریاست کے۔ نہ ہی اس سے مستفید ہونے والا طبقہ کوئی فائدہ حاصل کرسکتا ہے۔ اس لئے ان تمام فریقین کے لئے یہی بہتر ہوتا ہے کہ وہ قتل پر اٹھائے جانے والے اجتماعی شعوری سوالات کے بجائے فرد اور انسان کے قتل کی بات کریں۔

سیاسی طور پر بھی یہی تقسیم ریاستوں ، حکومتوں اور حکمرانوں کے لئے فائدہ مند ہوتی ہے۔ وہ اسی صورتحال کو مزید ہوا دیتے ہیں اور قوموں، قبیلوں، فرقوں اور مذہبوں میں نفرت کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ حکمران طبقے اور ایسے صورتحال سے مستفید ہونے والے طبقوں کے درمیان ایک گٹھ جوڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ بھی عوام کو تقسیم کئے رکھنا کا ایک حربہ ہے۔

One Comment