خواتین کی حکمرانی کا نیا سنگ میل

asaf jilani

آصف جیلانی 

تین سو سال پہلے کی بات ہے کہ برطانیہ میں خواتین کا نیلام عام تھا جب کہ مالداروں کے علاوہ کم حیثیت کے شوہروں کے لئے طلاق عملی طور پر نا ممکن تھی ۔لہذا ایسے شوہروں نے ازدواجی بندھن سے آزاد ہونے کے لئے اپنی بیویوں کو نیلام کر نے کی راہ اختیار کر لی تھی۔ یہ ریت اٹھارویں صدی کے آخر تک جاری رہی۔

پھر 1918تک برطانیہ میں خواتین کو ووٹ کا حق حاصل نہیں تھا، جس کے لئے خواتین نے ایک عرصہ تک جدوجہد کی اور کامیاب رہیں ۔ بلا شبہ گذشتہ ایک سو سال میں برطانیہ میں خواتین نے معاشرہ میں مساوات اور سیاسی حقوق کے حصول کا نشیب و فراز سے بھرپور طویل سفر طے کیا ہے۔

سنہ1979میں برطانیہ میں اس وقت ایک سیاسی انقلاب آیا جب تاریخ میں پہلی بارایک خاتون وزیر اعظم کے عہدہ پر منتخب ہوئیں۔ بلا شبہ وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر کا انداز حکمرانی دوسرے وزراء اعظم سے مختلف تھا اور ان کے دور میں ملک نے سرمایہ داری کا مکروہ چہرہ دیکھا ، جب کہ ریلوے، گیس، بجلی، پانی اورٹرانسپورٹ سے لے کر کاونسل کے مکانات تک ، تمام قومی اداروں اور صنعتوں کو نج کاری کے نام سے سرمایہ داروں کے ہاتھ میں فروخت کردیا گیا، جس کے تلخ نتائج اب بھی عوام بھگت رہے ہیں۔ 

گو اس زمانہ میں ٹوری خواتین اراکین پارلیمنٹ کی تعداد 21تک پہنچ گئی تھی لیکن مارگریٹ تھیچر کی کابینہ میں کوئی خاتوں اہم عہدہ پر فائز نہیں تھیں۔ اس زمانہ میں ایک خاتون وزیر اعظم کے خواتین کے ساتھ اس رویہ کے بارے میں مختلف زاویوں سے توجیحات پیش کی جاتی تھیں۔

بہر حال اب ایک ربع صدی کے بعد پھر ایک خاتوں وزارت اعظمی کے عہدہ پر فائز ہونے والی ہیں۔ برطانیہ میں یورپی یونین کی رکنیت کے بارے میں ریفرنڈم میں ٹوری وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی شکست اور استعفی کے بعد ٹوری پارٹی کی قیادت کے انتخاب کے عمل میں اب پانچ امیدواروں میں سے صرف دو امیدوار رہ گئے ہیں ۔ یہ دونوں خواتین ہیں ۔ ایک وزیر داخلہ ٹریسا مے اور دوسری انرجی کی وزیر اینڈریہ لیڈسم ۔ غرض یہ بات یقینی ہے کہ برطانیہ کی اگلی وزیر اعظم ایک خاتون ہوں گی۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مارگریٹ تھیچر کے دور کے تلخ تجربے کے بعد بہت سے قدامت پسند لوگ اور یہ تعجب کی بات ہے خود خواتین کی بڑی تعداد پھرایک خاتون وزیر اعظم سے خائف نظر آتی ہے۔ بہر حال ۹ ستمبر کو یہ طے ہو جائے گا کہ نئی وزیر اعظم ٹریسا مے منتخب ہوتی ہیں یا اینڈریہ لیڈسم ؟

نئی خاتون وزیر اعظم کے انتخاب کے بعد برطانیہ میں دو اہم عہدوں پر خواتین فائز ہوں گی۔ اسکاٹ لینڈ میں پہلے ہی پچھلے انتخابات کے بعد ایک خاتون نکولا اسٹرجن اول وزیر یعنی وزیر اعلیٰ ہیں۔ جنہیں اس وقت برطانیہ کی سب سے طاقت ور خاتون کہا جاتا ہے۔ یورپی یونین کے ریفرنڈم میں اسکاٹ لینڈ نے یورپی یونین میں شمولیت کے حق میں واضح فیصلہ دیا ہے جس کے بعد نکولا اسٹر جن نے صاف صاف کہا ہے کہ اگر برطانیہ نے یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کر لی تو اسکاٹ لینڈ آزادی کے دوسرے ریفرنڈم کا مطالبہ کرے گا اور برطانیہ سے علیحدہ ہوکر یورپ سے ناطہ جوڑے گا۔

البتہ امریکا میں نومبر تک انتظار کرنا پڑے گا یہ جاننے کے لئے کہ ،آیا وہاں بھی ایک خاتون صدر منتخب ہو پاتی ہیں؟ قوی امکانات تو یہ ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ ہلری کلنٹن فتح مند رہیں گی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہلری کلنٹن کو امور حکومت کا تجربہ نہیں۔ وہ ایک عرصہ تک صدر اوباما کی وزیر خارجہ رہی ہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ امریکا کی نوجوان خواتین ووٹر ان کو پسند نہیں کرتیں بلکہ انہیں مسترد کرتی ہیں ۔ یہ نوجوان خواتین ہلری کلنٹن کو خواتین کے حقوق اور ان کی تمناوں کی علم بردار تصور نہیں کرتیں بلکہ انہیں اسٹبلشمنٹ کی آلہ کار اوردلال سمجھتی ہیں۔اس امر کے پیش نظر یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ ہلری کلنٹن کے صدر منتخب ہونے کے بعد امریکا میں جنسی مساوات کے میدان میں کوئی نمایاں تبدیلی رو نما ہوتی نظر نہیں آتی۔

جرمنی میں چانسلر انگلا مرکل نے پچھلے گیارہ سال میں تین بار انتخاب جیت کر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اس وقت یورپ کی سب سے زیادہ طاقت ور خاتون سربراہ ہیں۔ شام کے پناہ گزینوں کے سیلاب کے مسئلہ پر انہوں نے انسان دوستی کی بنیاد پر جس ثابت قدمی سے موقف اختیار کیا ہے اسے تعریف و توصیف کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ گو سیاسی طور پر انگلا مرکل مضبوط ہیں لیکن جرمنی میں دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کے پیش نظر خطرہ ہے کہ انہیں اگلے سال وفاقی حکومت کے انتخابات میں سخت آزمایش کا سامنا کرنا پڑے گا۔

عام خیال ہے کہ اگلے سال جب برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدگی کے بارے میں مذاکرات ہوں گے تو بڑی حد تک فیصلہ دو خواتین کریں گی ایک طرف برطانیہ کی خاتوں وزیر اعظم اور یورپ سے جرمن چانسلر انگلا مرکل مذاکرات میں رہنمائی کا رول ادا کریں گی۔

ادھر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے عہدہ کے لئے اسی سال دسمبر سے پہلے انتخاب ہوگا۔ اب تک گیارہ امیدوار نامزد ہو چکے ہیں جن میں سے آٹھ کا تعلق مشرقی یورپ کے ملکوں سے ہے اور بہت سوں کا ٰخیال ہے کہ چونکہ اب تک مشرقی یورپ سے کوئی سیکرٹری جنرل منتخب نہیں ہوا ہے اس لئے اس علاقہ کے امیدوار کے قوی امکانات ہونے چاہیں لیکن اس وقت روس اور اس علاقہ کے درمیان جو کشیدگی ہے اس کے پیش نظر اس کے زیادہ امکانات نہیں ہیں۔ البتہ اس وقت کہا جاتا ہے کہ قوی امکان نیوزی لینڈ کی سابق وزیر اعظم ہیلن کلارک کے انتخاب کا ہے جو پہلی خاتوں ہوں گی جو اس عہدہ پر فائز ہوں گی۔ 

غرض عالمی پیمانہ پر جنسی مساوات اور خواتین کی حکمرانی کا ایک نیا سنگ میل ابھرتا نظر آتا ہے۔ 

Comments are closed.