لو ہم نے دامن جھاڑ دیا

dr-Barkat--267x300

ڈاکٹر برکت شاہ کاکڑ  

جب تیس کسان ایک سال محنت کرلیں تو گاوں سے ایک نوجوان شہر پڑھنے جاسکتا ہے۔۔بظاہر یہ مضحکہ خیز بیان لگتا ہے اور اس میں کافی حد تک مبالغے کی آمیزش بھی محسوس ہوتی ہے۔لیکن یہ ایک معقول چینی ضرب المثل ہے اور ایک محتاط  تخمینہ ہے ، جس کا اطلاق قبل از انقلاب کے چائنا پر براہ راست ہوتاہے۔

اس مثال کو اگر موجودہ بلوچستان کے دیہی علاقوں پر منطبق کریں تو آج بھی اس بیان میں صداقت محسوس کی جاسکتی ہے۔ شہر کوئٹہ میں سینہ تان کر چلنے والے کسی بھی پڑھے لکھے نوجوان ،  ڈاکٹر، وکیل، پروفیسر، بیوروکریٹ، سیاسی کارکن ، سیاسی قائدکے پس منظر کو ٹریک کر لیں پتہ چلے گا کہ ایک دہائی پہلے  تک گاوں میں رہتا تھا ۔

گاوں سے شہر آمد اور پھر یہاں پر پڑھنے ، رہنے ، اور اپنی شناخت بنانے کے پیچھے کیا جتن کرنے پڑتے ہیں، یہ تو بس وہی جانیں جن پر گزری ہو۔ مجھ سمیت کم و بیش سب کی ایک ہی کہانی ہے،  ہر ایک کی زندگی کی ناو ایک ہی جیسی پر پیچ اور نوکدار چٹانوں کے درمیان سے  بچتی ہوئی نکلی ہے۔

سائنس کالج اور ڈگری کالج کے ہاسٹلوں  میں برہنہ ناچنے والی فاقہ مستی کیوں کر بھلائی جا سکتی ہے۔یہاں پر مقیم طلبا کو دیکھنے  جب انکے عزیز و اقارب انکی  خیرگیری کرنے ، یا کوئٹہ ہسپتال میں علاج معالجے کی غرض سے آتے تو   انکے لباس ،   پگڑی، اورچپل  سے  مالی حالت  کا صاف پتہ لگ جاتا ۔   گوکہ یہ دوست ۔دشمن کو دکھانے والا لباس ہوتا تھا اور اس میں بس خاص بات  یہی ہوتی تھی کہ پیوند نہ لگے ہوتے تھے۔

مختصر یہ کہ تنگدستی، دربدری، بےبضاعتی ،  شہر ی کلچر سے بیگانگیت،  پولیس  اور جیب کتروں کا  خوف  اور سب سے بڑھ کرسر چھپانے کیلئے جگہ کا نہ ملنا  مشکلات کی وہ عمومی فہرست ہے جو کسی بھی پردیسی کو جھیلنی ہوتی ہیں۔خدا خدا کر کے تعلیم کا سلسلہ مکمل ہوجاتا ہے ۔ روزگار اور پیشہ ورانہ مہارت کیلئے ایک اور دوڑ شروع ہوجاتی ہے، اور کرتے کرتے  آٹھ دس سالوں تک گاوں کے یہ لونڈے شہری بابو بن جاتے ہیں۔

دیہی لونڈے کا شہری بابو بن جانا یقیناًقطرے کا گوہر بن جانا ہوتا ہے ۔ اسی اثنا میں گاوں سے رشتہ اگر چہ کمزور ہو چکا ہوتا ہے لیکن خاندان کے ساتھ رشتہ فعال رہتا ہے، اور خاندان کی کفالت کی ذمے داری ان پر آن پڑتی ہے۔ میں نے اس رشتے کو گذشتہ دو دنوں میں قریب سے دیکھا۔ سانحہ کوئٹہ کے بعد پتہ چلا کہ شمالی بلوچستان کے تقریبا ہر ضلعے میں  وکلا،  دانشوروں، اور انسانی و شہری حقوق کے لئے سرگرم عمل نوجوانوں کی لاشیں گئیں ہیں۔

سانحے کی شدت اتنی تھی کہ شہر کی دیواریں کاٹنے کو دوڑ تی تھیں، ٹی وی چینل بتدریج نمک پاشی کئے جارہے تھے،  شہر ویرانے کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ اسی میں غنیمت جانی کہ فاتحہ خوانی  ہی کی جائے جو کہ  نوحہ خوانی کا  ایک خوبصورت غیر سیاسی مردانہ بہانہ ہے۔چونکہ شہدا کی تدفین اپنے اپنے گاوں میں  کی گئی، اس لئے ہمیں  پشین، قلعہ عبداللہ ،  مسلم باغ، قلع سیف اللہ، اور لورالائی   جانا پڑا۔

ہم نے قریب سے گاوں کی زندگی  کودیکھا جو وہی قبائے مفلس پہنے  اپنی بے سر وسامانی اور تنگدستی کے عیب  و پیوند نہ چھپا سکی۔ دیواریں   سارے راز افشاں کر دیتی ہیں، سب بتا دیتے ہیں کہ آخری دفعہ انکے نحیف وجود کو ڈھانپنے کیلئے گارے کے پیوند کب لگائے  گئے تھے۔فلک کی مانند گاوں کے کج رو اور مٹی سے اٹی ہوئی پر پیچ گلیاں  یہاں پر ان صحرائی پھولوں کے کھلنے کا پتہ دے رہے تھے۔

  ہمیں بار ہا تردد ہوا کہ  کیا اناج کے پکے خوشوں کی مانند  ان خوبصورت اور رومانوی جوانوں نے  ریت و مٹی میں اٹی ہوئی ان گلیوں میں بچپن اور لڑکپن گزارا ہو گا؟۔ پھر پتہ چلا کہ  ان میں سے کوئی بھی کسی نوآبادیاتی  یا پس نوآبادیاتی آمرانہ دور کے نواب، خان   یا ملک کا بیٹا نہ تھا،  اور یہ خودرو صحرائی پھولوں کی طرح  اپنے اپنے گاوں کی خاک  سے اٹی ہوئی گلیوں میں سے ہی پھوٹے تھے۔

ہر ایک کردار کے گرد کہیں کہانیاں لپٹی ہوئی ہوتی ہے،  ہر شہید کے گرد اس کے سگے  حیرت زدہ کھڑے تھے،  رشتے دار،  دوست، پرائمری سکول کے ہم جماعت ساتھی ، ہر ایک کے پاس کئی کئی کہانیاں تھیں ۔ سب کا  بس یہی کہنا ہوتا  کہ سینکڑوں ہم عمروں میں سے گاوں سے روشنی کا بس یہی ایک مینار بلند ہوا تھا  ۔  باقی سارے غربت اور تنگ دستی کے نہینگ (مگرمچھ) کے جبڑوں میں چلے گئے تھے۔

فاتحہ خوانی نےگاوں اور فرد کے اس پرانے غیر تحریری معاہدے کی یاد  دلائی۔ کہ اگر تیس کسان ایک سال تک محنت کریں تو ایک شخص کو ایک سال کیلئے شہر پڑھنے کیلئے بھیج سکتے ہیں، اور پھر ان تیس لوگوں  اور انکے نسل کی شعوری اور تعلیمی ذمے داری اسی ایک شخص پر عائد ہوتی ہے۔

لیکن بلوچستان کے کیس میں ایسا نہیں ہے، کہ اس کا شمار دنیا کے ان منفرد علاقوں میں ہوتا ہے جہاں سے سونا نکلتا ہے اور لوگ برہنہ پیر اور خالی شکم رہتے ہیں،  جو چند نوجوان استثنائی طور پر غربت اور محرومی کے گرداب سے نکل آئے تھے اور اپنی کھوئی ہوئی قومی شناخت اور حقوق کی تلاش میں سرگرداں تھے، انہیں موت کی نیند سلا دیا گیا۔اب یہاں کوئی نہیں بچا ۔

فیض نے بھی شائد اسی طرح کے کسی احساس سےمرعوب ہوکر کہاہو گا

ہم خستہ تنوں سے محتسبو!

کیا مال منال کا پوچھتے ہو

جو عمر سے ہم نے بھر پایا

سب سامنے لائے دیتے ہیں

دامن میں ہے مشت خاک جگر

ساغر میں ہے خون حسرت مے

لو ہم نے دامن جھاڑ دیا

لو جام الٹائے دیتے ہیں


Comments are closed.