شہپرِ آتش ۔ عبدالکلام

آصف جیلانی

Inspirational things to learn from Dr. Apj Abdul Kalam


سن ساٹھ کے عشرے کے اوائل میں جب میں دہلی میں ہندوستان کے ممتاز سائنس دان اے پی جے عبدالکلام سے ملا تو دھان پان ایسے شخص کو دیکھ کر جس کے بال شانوں تک بکھرے ہوئے تھے اور جن کے خواب زدہ چہرے پر گھنی بھنویں دو کمانوں کی مانند نظر آتی تھیں، ان پر ایک ممتاز سائنس دان سے زیادہ ، خوابوں میں گم ایک شاعر کا گمان ہوتا تھا۔

اوول پکیر جین العابدین عبدالکلام ( اول فقیر زین العابدین عبدالکلام ) امریکی خلائی تحقیق کے ادارے ناسا میں مختصر تربیتی کورس مکمل کرنے کے بعد امریکا سے وطن لوٹے تھے اور وہ ہندوستان کے پہلے راکٹ کی تیاری میں مصروف تھے۔ 

نہ جانے میں نے سب سے پہلے ان سے یہ کیوں پوچھا کہ آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ ہر روز صبح سویرے قرآن پاک کی تلاوت کرنے کے بعد ، بھگوت گیتا کا مطالعہ کرتے ہیں۔ کیا یہ آپ کے آبائی شہر رامیشورم کا اثر ہے جہاں ہندو مت کاچوتھا بڑا شیو مندر ہے اورجہاں چار دھام کی مشہور یاترا ہوتی ہے؟ 

ایک نہایت دلکش مسکراہٹ کے ساتھ عبدالکلام صاحب کہنے لگے کہ میرے والد ، مقامی مسجد کے امام تھے اور ہر بڑے کام سے پہلے وہ ہم سب کو مسجد لے جاکر وہاں دعا مانگتے تھے۔ میرے والد روزی کشتی بانی سے کماتے تھے اور ہندو یاتریوں کو مندر لے جاتے تھے۔ اس دوران ان ہندو یاتریوں سے ان کے مذہب کے بارے میں تبادلہ خیال کرتے تھے۔ عبدالکلام صاحب نے کہا کہ ہر شام میرے والد، شیو مندر کے پروہت اور گاوں کے گرجا گھر کے پادری ، جو آپس میں گہرے دوست تھے شام کو ساتھ بیٹھ کر چائے پیتے تھے اور مختلف عقائد کے بارے میں تبادلہ خیال کرتے تھے۔ 

rameshwaram temple

ان کی باتیں سن کر میں سوچتا تھا کہ جب یہ سب دوست اتنے پیار سے مل بیٹھ کر دنیا بھر کی باتیں کرتے ہیں تو اس ملک کے دوسرے لوگ کیوں نہیں ایسے پیار سے آپس میں رہ سکتے۔ اسی زمانہ میں پروہت جب بھگوت گیتا کے اشلوک پڑھتے تھے اور ان کے معنی بتاتے تھے ،تو مجھے گیتا پڑھنے کا شوق ہوا جو اب بھی باقی ہے۔ 

مذ ہبی رواداری رامیشورم میں مسلمانوں ہندوؤں اور عیسائیوں کے درمیان گہرے بھائی چارے کی دین تھی۔ عبدالکلام کے ابتدائی اسکول میں تین بڑے پکے دوست تھے ۔ یہ تینوں برہمن گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے ۔ عبدالکلام ٹوپی پہنتے تھے اور ان کے دوست جنیو ۔ 

ایک بار جب رامیشورم کے باہر سے ان کے اسکول میں پڑھانے کے لیے ایک نئے استاد آئے تو انہوں نے جماعت میں سب سے آگے برہمن بچوں کے ساتھ اس مسلمان بچے کودیکھا تو کہا کہ یہ ملیچھ بچہ برہمنوں کے ساتھ کیوں بیٹھا ہے اور اسے سب سے پیچھے بیٹھنے کا حکم دیا۔ زین العابدین کے دوست پروہت کو جب اس کا علم ہوا تو انہوں نے استاد کو بلابھیجا اور کہا کہ عبد الکلام اپنے دوستوں کے ساتھ آگے بیٹھے گا اور اگر انہیں یہ بات پسند نہیں تو وہ اسکول چھوڑ دیں۔ استاد کو آخرکار سرِ تسلیم خم کرنا پڑا اور پھر ایک زمانے کے بعد ان کے شاگرد عبدالکلام کی شہرت نے اس استاد کا سر فخر سے بلند کردیا۔

عبد الکلام صاحب سے میں نے پوچھا کہ کیا آپ بچپن ہی سے سائنس دان بننا چاہتے تھے؟ انہوں نے ، دور آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے کہا کہ مدراس کے انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے ایروناٹکس انجینرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد میں، لڑاکا ہوا باز بننا چاہتا تھا اور میں نے ایرفورس میں ہوا باز بننے کے لئے امتحان بھی دیا تھا لیکن میری ۹ ویں پوزیشن آئی اور چونکہ ۸ ویں پوزیشن والوں کو ایرفورس میں ہواباز کے طور پر بھرتی کیا جاتا تھا لہذا میں بس ایک پوزیشن سے رہ گیا۔ 

عبدالکلام صاحب کا کہنا تھا کہ جب وہ ناسا میں تربیت حاصل کر رہے تھے تو انہوں نے ناسا کے استقبالیہ میں ،ایک بڑی پینٹنگ آویزا ں دیکھی جس میں ٹیپو سلطان کی سپاہ اور انگریزوں کی فوج کے درمیان معرکہ دکھایا گیا تھا ۔ ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے دیکھا کہ اس تصویر میں ٹیپو کی سپاہ کو راکٹ داغتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ عبدالکلام صاحب کا کہنا تھا کہ بس اس لمحہ ان کے دل و دماغ میں شعلہ کی مانند ایک خواب نے جنم لیا کہ ڈیڑھ سو سال قبل جب ٹیپو سلطان کی فوج راکٹ تیار کر سکتی تھی تو آج کا ہندوستان اپنے وسائل سے راکٹ اور میزائل کیوں نہیں تیار کر سکتا؟

ٹیپو کی شہادت کے بعد انگریز اس کے اسلحہ خانہ سے سات سو راکٹ انگلستان لائے تھے اور کہا جاتا ہے یہاں ان کے تجزیہ کے بعد انگلستان میں انجیئرنگ نے ایک نیا انقلابی رخ اختیار کیا۔

ٹیپو سلطان کی سپاہ کے معرکہ کی اس تصویر نے عبدالکلام کو بھی ایک نئی راہ پر گامزن کیا اور ان کے دل میں ایک ایسے خواب کی جوت جگائی جس نے تامل ناڈو کے ایک دور افتادہ جزیرے کے ایک غریب کشتی بان زین العابدین کے سب سے چھوٹے بیٹے عبدالکلام کوجو اپنی ماں کے قدموں میں بیٹھ کر کیلے کے پتے پر چاول اور سانبر ایسے کھاتا تھا کہ دنیا کے تمام لذیذ کھانے اس کے سامنے ہیچ ہوں، اور جو اسکول جانےسے پہلے اخبار تقسیم کرتا تھا اور جو اسکول کے بعد اپنے بھائی کی پرچون کی دکان کی دیکھ بھال کرتا تھا، ہندوستان کا ممتاز جوہری اور میزائل سائنس دان بنا دیا ۔

سن تریسٹھ میں جب انہوں نے ہندوستان کے پہلے راکٹ کا تجربہ کیا ،تو ان کے نزدیک یہ ٹیپو سلطان کے خواب کی تجدید کا عمل تھا اس کے بعد عبدالکلام کی کوششوں سے ہندوستان نے اپنا پہلا مصنوعی سیارہ روھنی چھوڑا اور انہوں نے ملک کو اگنی، آکاش، پرتھوی، ترشول اور ناگ میزائل کے تحفے دیے۔

ہندوستان کے میزائلوں میں اگنی (آگ)پہلا تھا ۔ اس کے نام سے عبدالکلام کے فلسفہِ حیات سے قریبی مناسبت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم سب اپنے اندر ایک آتشِ ربانی لیے پیدا ہوئے ہیں اور ہماری کوشش اس آگ کو پر دینے اور اس سے دنیا کو خیر اور اچھائی کی روشنی سے منور کرنے کی ہونی چاہیے ۔ اپنی آپ بیتی کا عنوان بھی انہوں نے ونگز آف فائر یعنی شہپرآتش رکھا تھا۔ 

مصنوعی سیارہ اور میزائلوں کی تیاری کے کارناموں کے اعتراف میں ملک نے انہیں پہلے پدم بھوشن پھر پدم وبھوشن اور آخر کار سب سے بڑا اعزاز بھارت رتنا دیا اور 2002 میں انہیں ملک کا صدر منتخب کیا۔ عبدالکلام صاحب کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے ان کا نام صدارت کے عہدہ کے لئے پیش کیا اور حزب مخالف کانگریس نے اس کی تائید کی۔ 2012میں دوبارہ صدارت کے لئے ان کا نام پیش کیا گیا لیکن اس پر سیاسی تنازعہ کے با عث ، عبدالکلام صاحب نے خود معذرت کر لی اور اپنا نام واپس لے لیا کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ اور صدر کا عہدہ سیاسی تنازعہ میں الجھے۔ 

عبدالکلام کی شخصیت مذہب سائنس اور شاعری کے ایک حسین امتزاج سے عبارت تھی ۔ تباہ کن میزائل کی تیاری کے منصوبوں کے ساتھ وہ تامل شاعری میں اپنے نرمل جذبات کا اظہار کرتے تھے اور وینا بجاتے تھے۔ 
شادی انہوں نے نہیں کی تھی لیکن وہ ان بے شمار طلباء کو اپنے بچے سمجھتے تھے جن کی تعلیم کے لئے وہ باقاعدگی سے مالی مد د کرتے تھے اور وظیفے دیتے تھے ۔ صدر کے عہدہ پر فائز ہونے سے پہلے اور بعد میں وہ کتابوں کے انبار سے اٹے ہوئے ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتے تھے ۔

صدر کے عہدہ سے فارغ ہونے کے بعد عبد الکلام صاحب نے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور۲۷ جولائی 2015کو شیلانگ ، آسام میں اسی ادارے کے ایک لکچر کے دوران ان پر دل کا شدید دورہ پڑا اور ہسپتال پہنچنے سے پہلے وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ 

One Comment