بدعنوانی کا خاتمہ اور مثالی معاشرے کا قیام 

Chohanپروفیسر محمد حسین چوہان 


قومی و سرکاری اختیارات اور وسائل کا اپنے ذ اتی فائدے کے لئے استعمال کو عمومی طور پر بدعنوانی یا کرپشن کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے،جس میں صاحب اختیار کا تعلق کسی بھی ادارے یا انجمن سے ہو سکتا ہے۔اس میں سربراہ مملکت سے لے کر محکمے کے کسی ادنیٗ ملازم کو بھی شمار کیا جاتا ہے،لیکن عموماً کرپشن کرنے میں ملک کی ایلیٹ کلاس یعنی سیاسی اشرافیہ پیش پیش ہوتے ہیں،باقی اعلیٰ سرکاری اہلکار ان کی معیت میں اپنے ہا تھ رنگ رہے ہوتے ہیں،اس طرح ایک بدعنوان معاشرے کا قیام عمل میں آتا ہے جس میں رشوت،سفارش کو من دلی سے ہر عام و خاص قبول کر لیتا ہے،اور اس بہتی گنگا میں حسب توفیق سب اپنے اپنے ہا تھ دھونے لگتے ہیں۔

وقتی فا ئدے اور نفسانی تسکین کے لئے عوامی مزاج بدعنوانی کے منحوس دائرے میں مستقل طور پر پھنس جاتا ہے۔رشوت لینے اور دینے کو عار نہیں سمجھا جاتا،اور اس کو قبول عام کا شرف حاصل ہو جاتا ہے،جس کی بنا پر ایک کرپٹ سیاسی و سماجی نمائندے،سرکاری اہلکار اور دیگر معتبر شخصیات کی مذمت کے بر عکس ان کے احترام اور مرتبے میں اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے،اور پروٹو کول لینے اور دینے کا سلسلہ بدستور جاری رہتا ہے۔پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ اقوام کرپشن کے اس مذموم فعل کی مذمت اور سد باب کرنے کے بر عکس انہی کرپٹ عناصر کو بار بار انتخابات میں چنتی ہیں اور دائمی غربت،جہالت،انتشا ر،بے یقینی اور تاریک مستقبل کا اپنے لئے انتخاب کرتی ہیں۔

معاشرے کی بہت سی برائیوں میں سب سے بڑی برائی بدعنوانی ہے،جو غربت اور ہر طرح کے مسائل پیدا کرتی ہے،اس کو تمام معاشرتی برائیوں کی ماں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔کیونکہ انسان کے وجود کا تعین اس کے سماجی وجود سے متعین ہوتا ہے،اور سماجی وجود اور مقام کو قائم رکھنے کے لئے ہر شہری کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس کی بنیادی ضروریات پوری ہوں،تاکہ وہ آگے بڑھ کر سماج کے لئے کچھ تخلیق کر سکے۔مگر کرپشن ایک ایسی سماجی برائی ہے،جو معاشرتی ترقی اور انسان کی روحانی و جسمانی نشو نما کو روک دیتی ہے،اور عوامی وسائل اور فنڈز سے ایک ہی کلاس مستفید ہو تی ہے،جس سے بڑے بڑے طبقات پیدا ہو تے ہیں،اور باقی مڈل کلاس،لوئر مڈل کلاس اور محروم طبقے میں وسیع خلیج حائل ہو جاتی ہے۔

غیر طبقاتی سماج میں کرپشن بالکل ختم ہو جا تی ہے اور طبقات میں اگر وسیع خلیج قائم نہ ہو ،تو کرپشن نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے پھر جب طبقات میں توازن قائم نہ رہے اور معاشی ناہمواری بڑھتی جائے،تو اعلیٰ اقدار انصاف،مساوات احترام آدمیت اورانسان دوستی کو فروغ ملنا بند ہو جاتا ہے۔ عام فرد اپنے آپ کو سیارے پر بے مقصد پھینکا ہوا انسان سمجھتا ہے غربت اور بے روزگاری میں اضافے سے چوری،قتل،ڈاکے دہشت گردی ،جارحانہ رویوں ا ور اخلاق سوز سر گرمیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔کرپشن کی وجہ سے عام آدمی کی قوت خرید کم ہو جاتی ہے، صحت عامہ خراب ہو جاتی ہے۔امن و امان داؤ پر لگ جا تا ہے رشوت کی وجہ سے صحت مند مقابلہ کا رجحان ختم ہو جاتا ہے علم و اہلیت کا قتل ہوتا ہے ،نا اہل اور بد دیانت افراد چھوٹے اور بڑے عہدوں پر فائز ہو جاتے ہیں۔عام شہری اور دیگر طبقات میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت،حسد، اورکینہ کی فضا پیدا ہوتی ہے۔نفسیاتی طور پر کرپشن ایک مایوس معاشرے کو جنم دیتی ہے،جہاں کے عام شہری تو کیا ان کے حکمران بھی دوسری ترقی یافتہ اقوام کے سامنے بے تو قیر اور بے وقار ہوتے ہیں۔

کرپشن ایک ہمہ جہت سماجی برائی ہے،اس کی ان گنت شکلیں اور صورتیں ہیں،ہر برائی اور بیماری میں اس کا حصہ ہے ۔اسی طرح اس کے معاشرے پر برے اثرات بھی ہیں۔مگر اس کی سب سے بد تر صورت سیاسی اکا برین اور والئی ریاست کا ملوث ہونا ہے،جو اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے عوامی فنڈز کا استعمال ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لئے کرتے ہیں،پھر ان کی پیروی میں کرپشن کا یہ سلسلہ تمام اداروں تک پھیل جا تا ہے،اور اداروں کی کار کردگی متاثر ہوتی ہے اور عوام کا ان پر اعتماد اٹھ جا تا ہے۔

سروس کی فراہمی میں تاخیر ، اہلکاروں کی نا اہلی اور کم اسٹاف ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے،جس سے وہ کسی بھی بحرانی صورتحال کا مقابلہ نہیں کر سکتے،کیونکہ پبلک فنڈز میں خورد برد ہر طرح کے مسائل پیدا کرتا ہے،کرپشن کا یہ سلسلہ ہمیشہ بالائی حکومتی ڈھانچے سے شروع ہوتا ہے اور ا نچلے اداروں تک پھیل جاتا ہے،اگر ریاست کا بالاائی سیاسی ڈھانچہ درست ہو تو نچلی سطح پر کرپشن کے اکا دکا واقعات سزا و جزا کے عمل سے بہ آسانی ختم کئے جا سکتے ہیں۔

سماجی برائیوں کے سدباب کے لئے اکیلے فلسفے اور تجاویز کام نہیں آتیں،اس کے لئے سیاسی پلیٹ فارم کی ضرورت ہوتی ہے،جو ایکشن اور عوامی قوت کے ذریعے اداروں پر اصلاحات کا اطلاق کرتی ہے یا کرواتی ہے،اس کے بغیر معیاری تبدیلی واقع نہیں ہو سکتی۔پھر دیگر سماجی ،فلاحی اور مذہبی تنظیمیں بھی اس میں موثر کردار ادا کر سکتی ہیں۔

قانون پر عملدر آمد تو اس سلسلے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے،مگر مذہب و اخلاق اعلیٰ اقدار کو قائم رکھنے میں بھی موثر کردار ادا کرتے ہیں، جہاں فلسفہ و مذہب او ر روحانیات عوام کو برائی سے نفرت اور نیکی سے محبت کا درس دے کر روحانی تسکین حاصل کرنے کی تعلیم دیتے ہیں،جیسے حا ل ہی میں جنید جمشید نے کراچی میں کچرا اٹھانے میں بذ ات خود اپنے ہا تھوں سے صفائی مہم کا آغاز کیا اور حکومتی مشینری کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی ترغیب دی ،جہاں نیکی کی ترغیب اور کردار سازی سے فرد کی شخصیت کے اندر انسانی خدمت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

تعلیمی نظام کو سائنسی طرز فکر اور طرز عمل پر ڈھالنے سے سوال اور احتساب کی علمی فضا قائم ہوتی ہے،جہاں عقیدت اور جہالت کے بر عکس تجربے اور عقلیت کا علمی ماحول پیدا ہوتا ہے اور کرپشن و بد عنوانی کا خود بخود خاتمہ ہو جاتاہے۔ شکایات سیل قائم کرنے اورسو شل میڈیا ، عوامی اجتماعات اور انجمنوں کے ذ اتی پیجز پر اداروں کی کرپشن، اہلکاروں کی نا اہلی،کام چوری اور بد انتظامی کی خبریں اور رپورٹ شائع کرنے اور بہترین دیانتدار ا ملازمین کی بھی حسن کارکردگی بیان کرنے کا سلسلہ شروع ہو جائے تو اصلاح و احوال کی صورت پیدا ہو سکتی ہے۔

جیسے ناروے کے شہری اکھٹے ہو کر سیاستدانوں اور ملازمین کی کار کردگی اور پبلک فنڈز کے استعمال پر جائزہ لیتے ہیں،اور ان کا احتساب کرتے ہیں۔اگر ملازمین کے عہدوں کی ترقی اور تنخواہ میں اضافہ کو ان کی حسن کارکردگی اور ریٹنگ سے منسلک کر دیا جائے، اور اداروں کے سر براہوں کی تعیناتی اور پروموشن میرٹ اور کار کردگی کی بنیادوں پر کی جائے تو بہترین نتائج پیدا ہو سکتے ہیں اورہر ادارے کے سربراہ کو سیاسی مداخلت کے بغیر ایک مثالی ادارہ بنا نے کا ٹا سک بھی د یا جائے۔

ٹیکس اور ریونیو کے نظام کو موثر بنانے اور بالخصوص پولیس اور ٹیکس ڈیپارٹمنٹ پر کڑی نظر رکھنے سے معاشرے میں بہت زیادہ محرومیوں کا ازالہ کیا جا سکتا ہے،اوردولت کی ری ڈسٹری بیوشن سے آبادی کے تناسب اور مسائل کو پیش نظر رکھ کر بد عنوانی کا سد باب کیا جا سکتا ہے۔ 

Comments are closed.