کیا پاکستان میں پاک ترک سکول بند ہوجائیں گے؟

PakTurk-Schools

جلاوطن ترک مبلغ فتح اللہ گولن کی دہشت گرد قرار دی جانے والی تنظیم کی پاکستان میں سرگرمیوں پر پابندی سے متعلق ، ترک وزیر خارجہ کا حالیہ دورہ پاکستان کو کامیاب قرار دیا جا رہا ہے۔

ترک وزیر خارجہ نے منگل کو اسلام آباد میں پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ فتح اللہ گولن کی تنظیم کے بارے میں وہ پاکستان کے رد عمل سے مطمئن ہیں۔ انقرہ میں ترک وزارت خارجہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اب پاکستان کے ساتھ صرف یہ طے کرنا باقی ہے کہ گولن تحریک کے اسکولوں کا انتظام کس طرح سے اور کس ترک ادارے کے حوالے کیا جائے۔

ذرائع کے مطابق گولن تحریک کے پاکستان کے مختلف شہروں میں قائم اسکولوں کا کنٹرول ترک حکومت کے زیر انتظام المعارف نامی تنظیم کو سونپے جانے کا امکان ہے۔

ترک دارالحکومت انقرہ میں موجود صحافی حسن عبداللہ کا کہنا ہے کہ ترک سفارتی اور سرکاری حلقے پہلے ہی پر امید تھے کہ پاکستان گولن کی سرگرمیوں کو روکنے میں ترکی کی مدد کرے گا۔

ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے حسن عبداللہ نے کہا، ’’پاکستان نے ترکی کے خدشات کو سنا ہے اور ان کے حل کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مقصد کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے کہ ان اسکولوں میں زیر تعلیم دس ہزار سے زائد پاکستانی طلبا اور ڈیڑھ ہزار سے زائد سٹاف کے ارکان متاثر نہ ہوں۔ ہماری معلومات کے مطابق پاکستان نے بھی صرف اسی بات پر زور دیا ہے کہ وہ اس طرح کی کوئی صورتحال پیدا نہیں ہونے دینا چاہتا‘‘۔

ترک حکومت ملک میں پندرہ جولائی کی ناکام فوجی بغاوت کا ذمے دار امریکا میں مقیم ترک مبلغ فتح اللہ گولن کو قرار دیتی ہے۔ ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ کے بعد صدر رجب طیب ایردوآن نے گولن تحریک سے منسلک ایک ہزار سے زائد اسکول ،بارہ سو فاؤنڈیشنیں، 35 طبی ادارے، 19 یونینیں اور 15 یونیورسٹیاں بند کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

حسن عبداللہ کے مطابق ترکی پاکستان میں گولن تحریک کے اسکولوں کی بندش کے لیے اس حد تک سنجیدہ ہے کہ ترک وزیر خارجہ نے ناکام فوجی بغاوت کے بعد پہلا دورہ پاکستان کا کیا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ترکی گولن کے تعلیمی اداروں کی بندش کے لیے دیگر ممالک کےساتھ بھی رابطے میں ہے لیکن وہ پاکستان سے اس عمل کا آغاز کر کے باقی ممالک خصوصاً اسلامی ممالک کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ بھی پاکستان کی تقلید کریں‘‘۔

ترکی میں پندرہ جولائی کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے اب تک 60 ہزار سے زیادہ افراد کو سرکاری اور نجی ملازمتوں سے برطرف یا معطل کیا جا چکا ہے جبکہ ہزاروں کو باقاعدہ طور پرگرفتار بھی کیا جا چکا ہے یا وہ اب تک حکام کی حراست میں ہیں۔ ان افراد میں سے زیادہ تر کو فتح اللہ گولن کا حامی سمجھا جاتا ہے۔ ترکی کے سکیورٹی اور خفیہ اداروں کے اہلکار ابھی تک ان افراد کی تلاش میں ہیں، جنہوں نے ممکنہ طور پر ناکام فوجی بغاوت میں حصہ لیا تھا۔

دوسری جانب ترکی میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے ناکام فوجی بغاوت کی تو مخالفت کی ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ حکومت اپنی کارروائیاں کرتے ہوئے قانون کے دائرے میں رہے اور گرفتار کیے گئے یا زیر حراست ہر شہری کے انسانی حقوق کا پورا خیال رکھا جائے۔

حکومت کی جانب سے صحافیوں اور صحافتی اداروں کے خلاف کارروائیوں پر بھی یورپ اور مغربی ملکوں سمیت دنیا بھر میں تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

ترک حکومت نے مقامی میڈیا کے ایسے 140 سے زائد ادارے بھی بند کر دیے ہیں، جن پر امریکا میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزارنےوالے ترک مبلغ فتح اللہ گولن کی حمایت کا شبہ تھا۔

DW

Comments are closed.