بھارت اور پاکستان کے یومِ آزادی

Asif-Javaid4

آصف جاوید

پچھلے دنوں پاکستان اور انڈیا کے یومِ آزادی کی تقریبات کے حوالے سے کینیڈا کے ممتاز انگریزی اخبار ہفنگٹن پوسٹ میں کینیڈین تھنکرز فورم کے روحِ رواں اور ممتاز دانشور و صحافی جناب طاہر اسلم گورا کا ایک کالم نظر سے گزرا، مضمون کے مندرجات نے اس خیال کو مہمیز دی کی اس موضوع پر گورا صاحب سے بالمشافہ گفتگو کی جائے۔

اپنے قارئین کی دلچسپی کے لئے ،اپنے قارئین کی خدمت میں ہم گورا صاحب کے انگریزی مضمون اور بالمشافہ گفتگو میں ہونے والے تبادلہ خیال کی تلخیص اس امید کے ساتھ اردو میڈیا میں پیش کررہے ہیں کہ شاید ہمارا یہ مضمون کینیڈا میں مقیم ان صاحبانِ فکر و دانش اور اربابِ اقتدار کے وقائع نگاروں کی نظر سے بھی گزر جائے جو پاکستان کے اندرونی و بیرونی حالات اور پاکستان کے اپنے پڑوسی ملکوں سے تعلّقات کو ریاستی اسٹیبلشمنٹ کی نظر سے دیکھنے کے عادی ہیں اور ان کو ہر وہ آواز بری لگتی ہے جو پاکستانی اسٹیبلشنٹ کی راگنی سے ہم آہنگ نہیں ہوتی، ایسی ہر آواز کو وہ ملک کا غدّار اور انڈیا کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں۔

گورا صاحب کے مطابق : پاکستانی محبِّ وطن صرف وہی نہیں ہیں جو اپنی تنخواہیں اور اعزازئیے اسٹیبلشمنٹ کے پے رول سے وصول کرتے ہیں۔ اور پاکستان کے محبِّ وطن صرف وہ بھی نہیں ہیں جو ایک خود مختار مدافعتی نظام کے تحت ، ہمیشہ حالتِ انکار میں رہتے ہوئے تاریخی اور زمینی حقائق کو جھٹلاتے ہیں۔ درحقیقت عام پاکستانی اور خصوصاوہ پاکستانی جو تاریخی و زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے ریاستِ پاکستان کی جانب سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمّت کرتے ہیں ، اور ریاستی سرپرستی میں ہونے والی جہادی گروپوں کی سرگرمیوں کو جو خطّے کا امن تباہ کرتی ہیں تشویش اور رنج کی حالت میں دیکھتے ہیں، زیادہ محبّ، وطن اور وفادار ہیں۔

چودہ  14 اور 15 اگست کو جنوبی ایشیاء کے دو بڑے ممالک ، انڈیا اور پاکستان کا یومِ آزادی منایا جاتا ہے۔ تقریبادس لاکھ سے زیادہ تعداد میں ساوتھ ایشئین ، گریٹر ٹورونٹو ایریا میں آباد ہیں۔ جن کی نمایاں تعداد انڈیا اور پاکستان کے باشندوں پر مشتمل ہے۔ ایک طرف تو یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ محبّت، بھائی چارہ اور رواداری ، اور حسنِ سلوک کا بہترین برتائو کرتے ہیں۔ مگر دوسری طرف ان کے درمیان اپنے اپنے ممالک کے حوالے سے کچھ حسّاس نوعیت کے اختلافات اور تحفّظات بھی ہیں۔

میرے وہ دوست جن کا تعلّق میرے مادر وطن پاکستان سے ہے، اور جو ریاستی بیانئے کے مطابق جناح صاحب کے پیش کردہ دوقومی نظرئیے سے زیادہ متاثّر رہتے ہیں، اپنے شناختی بحران میں زیادہ مبتلا ہیں۔ وہ مہلک اور جان لیوا دو قومی نظریہ جس کے تحت ہندو اور مسلمان دو علیحدہ علیحدہ قومیں قرار پائیں ، جس کی بنیاد زمینی حقائق کے برخلاف سیاسی نوعیت کی تھی اور جس کی بنیاد پر پاکستان معرضِ وجود میں آیا تھا ، 1947 میں قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی اس وقت باطل ثابت ہوگیا، جب برِّ صغیر کی آدھی سے زیادہ مسلمان آبادی نے پاکستان ہجرت کرنے کی بجائے انڈیا ہی میں رہنے کو ترجیح دی۔ برِّ صغیر کے تمام بڑے مسلمان سیاسی لیڈروں اور دانشوروں نے دو قومی نظرئیےکی بنیاد پر تقسیمِ ہند کی مخالفت کی تھی۔

دو قومی نظریہ 1971 میں دوبارہ اس وقت باطل ثابت ہوا جب مشرقی پاکستان کے بنگالی مسلمانوں نے مغربی پاکستان کے غیر بنگالی مسلمانوں کے امتیازی سلوک ، حق تلفیوں، محرومیوں اور بدترین غلامی ، اور افواجِ پاکستان کے ہاتھوں بنگالی خواتین کی بے حرمتی، نوجوانوں اور دانشوروں کے اجتماعی قتل سے تنگ آکر پاکستان سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا ۔

بالکل اس ہی طرح طویل عرصہ سے بلوچ علیحدگی پسند اپنی آزادی کے لئے ریاست پاکستان سے نبرد آزما ہیں، کیونکہ ان کا دعویہے کہ افوجِ پاکستان نے 1948 میں تمام بین الاقوامی قوانین کو پامال کرتے ہوئے آزاد بلوچستان پر قبضہ کرلیا تھا۔

یہ کوئی مخفی حقائق نہیں ہیں ، ترقّی پسند دانشوروں اور ادیبوں کی جانب سے ان موضوعات پر ہزاروں کی تعداد میں آرٹیکلز اور کتابیں پاکستان اور بیرونِ ملک شائع ہوچکی ہیں، جن میں اُس دور کے تاریخی اور زمینی حقائق کو بیان کیا گیا ہے۔ مگر پاکستان کی ریاستی مشینری اور اس کا خود ساختہ محبِّ وطن میڈیا ، اور ایسے تمام رائٹرز اور صحافی جو ایک خاص ذہنیت کے ساتھ پروردہ ہوئے ہیں، ان تمام حقائق سے انکار کرتے ہیں، نتیجے کے طور پر عام پاکستانی کینیڈین خواتین و حضرات جن کو تاریخی اور زمینی حقائق کا مکمّل ادراک نہیں ہوتا، وہ بھی ریاستی پروپیگنڈہ سے متاثّر ہوکر اصل حقائق سے انکار کرتے ہیں، انہیں تسلیم ہی نہیں کرتے۔

اس حالت انکار کی بنیاد پر یہاں کینیڈا کے پر امن ماحول میں ساوتھ ایشئین کمیونٹی میں بھی بہت زیادہ تناو ہے۔ ماضی میں پاکستان کے سابقہ قائم مقام قونصلر جنرل کینیڈا میں بیٹھ کر انڈین کینیڈین کو دہشت گرد قرار دے چکے ہیں۔

ایک حسّاس تنازعہ ، مسئلہِ کشمیر بھی ہے۔ کشمیر کا مسئلہ دونوں ممالک (انڈیا اور پاکستان) کے درمیان سب سے زیادہ حسّاس نوعیّت کا تنازعہ ہے۔ مسئلہ کشمیر افواجِ پاکستان اور پوری دنیا میں قائم پاکستان کے ڈپلومیٹ دفاتر (بشمول کینیڈا) کا خاص ایجنڈا ہے۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کینیڈا جیسے پرامن ملک میں بھی تنازعہ کشمیر کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ایک پروپیگنڈا ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہے۔

پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کینیڈا میں مسئلہ کشمیر کا استعمال ، پاکستانی کینیڈین اور انڈین کینیڈین کے درمیان چپقلش کا سبب بنے گا، جو کسی بھی طور پر قابلِ تحسین نہیں ہے۔ کیونکہ نتیجے کے طور پر تمام ترقّی پسند پاکستانی کینیڈین، کشمیر کے معاملے پر اسٹیبلشمنٹ کی ہمنوائی نہ کرنے کے جرم میں راندہِ درگاہ اور ملعون و مطعون قرار پائیں گے، اور غدّارانِ پاکستان ٹھہرائے جائیں گے۔

پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ اقلّیتوں کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے۔ خاص طور پر مسیحی عبادت گاہوں پر حملے اور مسیحی آبادیوں کا جلاو گھیراو۔ کینیڈا میں مسیحی برادری اپنی آرگنائزیشن ، انٹر نیشنل کرسچن وائس کے تحت ہر سال 11 اگست کو پاکستان میں اقلّیتوں کا قومی دن کے طور پر مناتی ہے۔ اس آرگنائزیشن کے سربراہ جناب پیٹر بھٹّی صاحب نے اس سال بھی 11 اگست کو برامپٹن کینیڈا میں یہ دن منایا۔

ممبر پارلیمنٹ جناب راج گریوال اور قونصلر جنرل پاکستان برائے ٹورونٹو عمران صدّیقی بھی مقرّرین میں شامل تھے، مگر دونوں نے اقلّیتوں کے حقوق کے بارے میں رسمی اظہار خیال کیا۔

لیکن کچھ ترقّی پسند پاکستانی دانشور مقرّرین نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستانی محبِّ وطن صرف وہی نہیں ہیں جو اپنی تنخواہیں اور اعزازئیے اسٹیبلشمنٹ کے پے رول سے وصول کرتے ہیں۔ اور پاکستان کے محبِّ وطن صرف وہ بھی نہیں ہیں جو ایک خود مختار مدافعتی نظام کے تحت ، ہمیشہ حالتِ انکار میں رہتے ہوئے تاریخی اور زمینی حقائق کو جھٹلاتے ہیں۔

درحقیقت عام پاکستانی اور خصوصاوہ پاکستانی جو تاریخی و زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے ریاستِ پاکستان کی جانب سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمّت کرتے ہیں ، اور ریاستی سرپرستی میں ہونے والی جہادی گروپوں کی سرگرمیوں کو جو خطّے کا امن تباہ کرتی ہیں تشویش اور رنج کی حالت میں دیکھتے ہیں، زیادہ محبّ، وطن اور وفادار ہیں۔

One Comment