افغانستان میں داعش کے سربراہ ہلاک

ساید

خبر رساں ادارے رائٹرز نےامریکی محکمہ دفاع کے حوالے سے بتایا ہے کہ حافظ سعید کی ہلاکت دراصل پاکستان اور افغانستان میں داعش کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ پینٹاگون کے ترجمان نے کہا کہ اس جنگجو رہنما کی ہلاکت کے باعث اس خطے میں اس جہادی گروہ کو وسعت دینے کی کوششیں ضرور متاثر ہوں گی۔

پینٹا گون کے مطابق گزشتہ ماہ جولائی میں ننگرہار صوبے میں کی گئی اس کارروائی میں افغان دستوں کے علاوہ امریکا کی خصوصی فورسز بھی شامل تھیں۔ پینٹا گون کے پریس سیکرٹری نے بتایا کہ ایسے ٹھوس شواہد ملے ہیں کہ اس کارروائی میں حافظ سعید ہلاک ہو گیا تھا۔

قبل ازیں بارہ اگست بروز جمعہ پاکستان میں تعینات افغان سفیر نے حافظ سعید کی ہلاکت کی خبر عام کر دی تھی۔ جس کے بعد امریکا نے بھی اس جہادی کے ہلاک ہو جانے کے بارے میں تصدیق کر دی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ افغانستان میں طالبان اور القاعدہ جیسی دیگر جہادی قوتیں بھی فعال ہیں۔

تاہم داعش کی موجودگی صرف صوبہ ننگرہار میں ہی بتائی جاتی ہے، جو پاکستان کے ساتھ متصل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ داعش میں ایسے جنگجوؤں نے شمولیت اختیار کی ہے، جو طالبان سے الگ ہوئے ہیں۔

یہ امر اہم ہے کہ گزشتہ برس بھی حافظ سعید خان کی ہلاکت کی خبر سرخیوں میں رہی تھی لیکن تب افغان خفیہ اداروں نے اس کی تصدیق نہیں کی تھی۔ تاہم جمعے کے دن پاکستان میں افغان سفیر نے رائٹرز کو بتایا کہ افغان سکیورٹی حکام نے خراسان میں داعش کے رہنما حافظ سعید خان کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔

پینٹاگون کے ترجمان گورڈن ٹروبرج کے مطابق ننگرہار کے ضلع آچین میں کارروائی کے نتیجے میں حافظ سعید ہلاک ہوا تھا۔ وہ ایک طویل عرصے تک طالبان تحریک سے وابستہ تھا، جس نے اکتوبر2014 میں داعش کے رہنما ابوبکر البغدادی سے وفاداری کا اعلان کر دیا تھا۔

افغانستان میں طالبان اور القاعدہ دونوں جنگجو گروہ داعش کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔ ننگرہار میں طالبان اور داعش کے حامی جنگجوؤں کے مابین کئی جھڑپیں بھی ہو چکی ہیں۔ تاہم آج کل یہ دونوں ہی امریکی اور افغان حملوں سے بچنے کی کوششوں میں زیادہ وقت صرف کر رہے ہیں۔

امریکی فوج کے مطابق جنوری تا اگست امریکی جنگی طیارے افغانستان میں داعش کے ایک سو چالیس ٹھکانوں پر بمباری کر چکے ہیں۔ امریکی فورسز کے تعاون سے افغان دستے دو ہفتے قبل تک داعش کے حامی کم از کم تین سو جنگجوؤں کو ہلاک کر چکے تھے۔

DW

Comments are closed.