حلال و حرام کھانوں کا مسئلہ

km

کامران صدیقی

مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے حلال و حرام کھانوں کا مسئلہ ان کی روزمرہ زندگی کا ایک لازمی عنصر بن گیا ہے۔ مخصوص حلالدکانوں سے گوشت خریدنا، خاص حلال مارکہ ریسٹورانوں میں ہی کھانا، ہر پیکٹ میں بند کھانے کی چیز کے اجزاء کی فہرست کو غور سے پڑھنا ان مسلمانوں کی زندگی کا ایک مستقل حصہ بن چکے ہیں۔

اگر آپ ان میں سے کسی بھی مسلمان سے پوچھیں کہ وہ کھانے کی اشیاء کے بارے میں اتنے محتاط کیوں ہے تو وہ فوراہی اسکا جواب یہ دے گا کہ اسلام میں کھانے کی اشیاء سے متعلق سخت احکامات ہیں اور ہم صرف وہی اشیاء کھا سکتے ہیں جن کو شریعت نے حلال قرار دیا ہے۔

شریعت میں جن بنیادی اشیاء کو حرام ‍ قرار دیا گیا ہے وہ ہیں (1) مردار جانور (2) خون اور خون سے بنی اشیاء (3) سور کا گوشت اور سور کے اجزاء سے بنی اشیاء (4) وہ جانور جو اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو (5) شراب اور شراب سے بنی اشیاء (6) حلال جانور جو شرعی طریقہ کے مطابق ذبح نہ کیا گیا ہو (7) ناخنوں والے جانور بشمول شکاری پرندے (8) بغیر کان کے جانورجن میں رینگنے والے جانور اور کیڑے مکوڑے شامل ہیں (9) ہر وہ کھانے کی شے جس میں مندرجہ بالا اشیاء میں سے کسی کی بھی ملاوٹ ہو جائے۔

شریعت میں صرف حرام اور حلال کھانوں ہی کی فہرست نہیں بلکہ مکروہات کی بھی فہرست موجود ہے جو شرعی طور پر حرام نہیں لیکن ان کو کھانا شریعت میں ناپسندیدہ عمل ہے۔ ان مکروہات میں جھینگے اور کیکڑے شامل ہیں۔ موجودہ دور میں کھانے کی مصنوعات میں جدت کے ساتھ شرعی حرام اشیاء کی فہرست میں بھی اضافہ ہو گیا ہے اوروہ تمام کیمیائی اور حیاتیاتی اجزاء اور جراثیم جو کسی بھی جانور سے حاصل کئے گئے ہوں شامل ہو گئے ہیں۔ یعنی کوئی بھی کھانے کی چیز جس میں ان میں سے کوئی ایک جز بھی شامل ہو جائے حرام ہے۔

اگر آپ کسی مسلمان سے سوال کریں کہ یہ اشیاء کیوں حرام ہیں تو جواب یہ ملے گا کہ ان کو اللہ اور اسکے رسول نے حرام قرار دیا ہے۔ بس اتنا جاننا ہی ہمارے لئے کافی ہے اور مزید کسی تفصیل میں جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پھر مزید ان سے اگر پوچھیں کہ ان حرام اشیاء کے بارے میں انہیں کس نے بتایا تو جواب ملے گا کہ والدین، مسجد کے امام، مذہبی کتابوں اور ٹی وی یا ریڈیو کے مذہبی پروگراموں وغیرہ سے پتہ چلا۔ چند مسلم عالموں نے بعض حرام چیزوں جیسے خون اور سور کے گوشت کی حرمت کو طبی طور پر ثابت کرنے کی کوشش کی مگر ابھی تک وہ اس بات کی کوئی عقلی دلیل نہیں مہیا کو سکے کہ کیوں ابھی تک ان کروڑوں انسانوں میں جن کی پچھلی نسلیں صدیوں سے سور کا گوشت کھا رہی ہیں کسی ایسی مہلک بیماری نے جنم نہیں لیا جس کی بنیاد سور کا گوشت ہو۔ مسلم عالموں کے پاس اس بات کا بھی کوئی مدلل جواب نہیں ہے کہ ناخن والے اور رینگنے والے جانور، کیڑے مکوڑے اور جانوروں سے کشید شدہ حیاتیاتی اجزاء کیوں حرام ہیں۔

مولوی حضرات یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ شریعت میں درج حرام اشیاء کو اللہ اور اسکے رسول نے حرام قرار دیا ہے اور مسلم عوام اس دعوے کو بلا کسی تحقیق کے مستند مانتے ہیں۔ حالانکہ بحیثیت مسلمان ان پر لازم ہے کہ وہ اس دعوے کی تصدیق کریں کیونکہ اس کا اثر ان کی روزمرہ کی زندگی پر براہ راست پڑ رہا ہے۔ ایک سوال جو ان سب کے لئے بہت اہم ہے وہ یہ کہ کیا واقعی شریعت میں درج تمام حرام اشیاء کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے یا اس فہرست کا بیشتر حصہ انسانی خود ساختہ ہے۔

قرآن خدا کی نازل کردہ کتاب ہے اور خدا کی طرف سے عطا ہر حکم و ہدایت اس میں محفوظ ہے۔ قرآن بے شمار امور پر راہنمائی فراہم کرتا ہے اور کئی امور پر حدود کا تعین کرتا ہے۔ بہت تھوڑے سے ایسے امور ہیں جن پر قرآن میں واضح اور غیر مبہم ہدایات موجود ہیں جن میں سے ایک حرام و حلال کھانوں کا مسئلہ ہے۔ چار اقسام کی اشیاء کو قرآن نے حرام قرار دیا ہے۔ وہ ہیں (1) مردار جانور (2) خون (3) خنزیر کا گوشت (4) ہر کھانے کی چیز جو اللہ کے سوا کسی اور کی طرف منسوب ہو۔

اے ایمان والوں، کھاؤ ان خوشگوار چیزوں کو جو ہم نے تمہیں مہیا کی ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرواگر تم اس کی عبدیت کرتے ہو۔ تم پر حرام ہے (1) مردار جانور (2) خون (3) خنزیر کا گوشت (4) ہر کھانے کی چیز جو اللہ کے سوا کسی اور کی طرف منسوب ہو۔ پھر جو مجبور ہو جائے اور وہ حد سے نکلنے والا اور زیادتی کرنے والا نہ ہو، اس پر کوئی گناہ نہیں ہے (البقرہ ۔ 172-173)۔

صرف چار! اللہ نے صرف چاراقسام کی اشیاء کو کھانا حرام قرار دیا ہے۔ لیکن مولوی حضرات نے اپنی شرعی فہرست کو مستند قرار دینے کے جواز میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ قرآن نے جن کو حرام قرار دیا ہے وہ بنیادی اشیاء ہیں اور ان کے علاوہ جو دوسری اشیاء ہیں ان کو احادیث کی رو سے حرام قرار دیا گیا ہے یعنی بقول ان کے رسول اللہ نے ان کو حرام قرار دیا ہے۔

یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا اللہ کے رسول کسی ایسی چیز کو حرام قرار دے سکتے ہیں جس کو اللہ نے حرام قرار نہیں دیا ہو؟ قرآن اس بارے میں بالکل واضح ہے۔ اس نے کھلے الفاظ میں یہ اعلان کر دیا ہے کہ اللہ نے کسی دوسرے کو یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ کسی ایسی شے کو حرام قرار دے جسے اللہ نے حرام قرار نہ دیا ہو۔

کہہ دو وہ کون ہے جو زینت کی چیزوں کو جو اللہ نے اپنے بندوں کے لئے نکالی ہیں اور کھانے کی خوشگوار چیزوں کو حرام قرار دے؟ کہہ دو کہ یہ چیزیں مومنوں کے لئے ہیں اس دنیا میں خالص قیامت کا دن۔ اس طرح ہم آیات کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لئے جو علم رکھتے ہیں (الاعراف – 32)۔

خدا نے تو رسول اللہ کو کسی ایسی چیز کو اپنی ذات پر بھی حرام کرنے کی اجازت نہیں دی جسے اس نے حرام قرار نہ دیا ہو۔

اے نبی! کیوں آپ اسے حرام کرتے ہیں جسے اللہ نے آپ کے لئے حلال کیا ہے؟ (التحریم ۔ 1)۔

جیسا کہ اوپر کی آیات سے واضح ہے، اللہ نے کسی دوسرے کو یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ کسی ایسی شے کو حرام قرار دے جسے اللہ نے حرام قرار نہ دیا ہو۔ حقیقتاً قرآن نے خود رسول اللہ کی زبانی یہ کہلوایا ہے کہ اللہ نے صرف ان ہی چار اشیاء کو حرام قرار دیا ہے۔

کہہ دو! جو میری طرف وحی کیا گیا ہے میں اس میں کھانے والوں کے لئے کوئی چیز حرام نہیں پاتا بجز مردار جانور یا بہتا ہوا خون یا خنزیر کا گوشت کیونکہ یہ ناپاک ہے یا وہ چیز جو اللہ کے سوا کسی اور کی طرف منسوب ہو جو سرکشی ہے۔ پھر جو مجبور ہو جائے اور وہ حد سے نکلنے والا اور ذیادتی کرنے والا نہ ہو، تو بیشک اللہ غفور اور رحیم ہے (الانعام ۔ 145)۔

کوئی ابہام نہیں، کسی غلط فہمی کی گنجائش نہیں۔ بہت ہی صاف اور واضح الفاظ میں بیان کر دیا کہ صرف چار کھانے کی اشیاء کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اور رسول کی زبانی اسکی تصدیق بھی کر دی۔ ان چار کے علاوہ کوئی کھانے کی چیز حرام نہیں ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ پر لازم ہے کہ آپ ہر وہ چیز کھائیں جو حرام نہیں ہے۔ ہر شخص کی کھانے کے معاملےمیں پسند اور ناپسند ہوتی ہے اور اس چیز کو خدا سے بہتر اور کون سمجھ سکتا ہے۔ اسی لئے خدا نے ہمیں کھلی آزادی دی ہے کہ ہم ان تمام چیزوں میں سے جو حرام نہیں ہیں اپنی پسند کی کوئی بھی چیز کھا سکتے ہیں۔

کھاؤ ان خوشگوار چیزوں کو جو ہم نے تمہں مہیا کی ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرواگر تم اس کی عبدیت کرتے ہو(البقرہ – 172)۔

یہ تم سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لئے کیا حلال ہے۔ کہہ دو کہ تمہارے لئے خوشگوار چیزیں حلال ہیں (المائدہ – 4)۔

آج تمہارے لئے خوشگوار چیزیں حلال کردی گئیں ہیں اور اہل کتاب کا کھانا تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لئے حلال ہے (المائدہ – 5)۔

اور کھاؤ جو کچھ حلال اور خوشگوار رزق اللہ نے عطا کیا ہے اور اللہ کی نعمتوں کا شکر کرو اگر تم اس کی عبدیت کرتے ہو۔ تم پر صرف حرام ہے مردار جانور اور خون اور خنزیر کا گوشت اور وہ چیز جو اللہ کے سوا کسی اور کی طرف منسوب ہو۔ پھر جو مجبور ہو جائے اور وہ حد سے نکلنے والا اور ذیادتی کرنے والا نہ ہو، تو بیشک اللہ غفور اور رحیم ہے (النحل – 114-115)۔

آخری دو آیات پر خاص توجہ کی ضرورت ہے۔ المائدہ کی آیت اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ تمام اہل کتاب کا کھانا حلال ہے۔ کو‏ئی تخصیص نہیں ان کے کھانوں میں جس کا مطلب یہ کہ بجز ان چار اشیاء کے ان کا کوئی کھانا کھایا جا سکتا ہے۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اہل کتاب میں ہر وہ قوم شامل ہے جس کی طرف کتاب نازل کی گئی اور یہ حکم صرف یہودیوں اور عیسائیوں تک محدود نہیں۔ النحل کی آیت یہ واضح کرتی ہے کہ بجز ان چار اشیاء کے جنہیں اللہ نے حرام قرار دیا ہے، ہر کھانے کی چیز جو اس نے مہیاء کی ہے وہ حلال ہے اور ان میں سے کو‏ئی بھی کھانے کی چیز جو آپ کو پسند ہو وہ کھا سکتے ہیں۔ ایک اہم بات جو قابل غور ہے وہ یہ کہ اللہ نے حلال اشیاء کی تفصیل نہیں دی بلکہ حرام اشیاء کی تفصیل دی ہے۔ یعنی بنیادی طور پر اللہ نے حرام اشیاء کی فہرست مہیا کردی اور جو بھی چیز اس فہرست میں نہیں وہ کھانے کے لئے حلال ہے۔

اس حرام اشیاء کی فہرست کے علاوہ قرآن نے جانوروں سے مطالق کچھ تفصیلی ہدایات دی ہیں۔

تم پر حرام ہے مردار جانور اور خون اور خنزیر کا گوشت اور وہ چیز جو اللہ کے سوا کسی اور کی طرف منسوب ہو اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو اور جو ضرب سے مرا ہو اور جو اونچی جگہ سے گر کر مرا ہو اور جو کسی کے سینگ سے مرا ہو اور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو بجز اس کے جسے تم صاف کر لو اور جو آستانوں پر ذبح کئے جائیں اور فال گیری کرو۔ یہ سب حدود شکنی ہے (المائدہ – 3)۔

یہ تم سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لئے کیا حلال ہے۔ کہہ دو کہ تمہارے لئے خوشگوار چیزیں حلال ہیں۔ اور جن شکاری جانوروں کو تم نے سدھا رکھا ہے اس علم کی بنیاد پر جو اللہ نے تمہیں دیا۔ پس جس شکار کو وہ پکڑ کر لائے اسے کھا لو اور اس پر اللہ کا نام لو (المائدہ – 4)۔

تمہارے لئے چوپائے حلال کر دیئے گئے بجز ان کے جو تم کو پڑھ کر سنا دیئے (الحج – 30)۔

اللہ کو پتہ تھا کہ پچھلے مذاہب میں مذہبی پیشوائیت نے حلال و حرام کا اختیار اپنے ہاتھ لے لیا تھا اسی لئے اللہ نے قرآن میں اس کی سختی سے مذمت کی اور اس بات کا واضح الفاظ میں اعلان کر دیا کہ جو اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں کھانے کی اشیاء کو حرام قرار دینے کا اختیار ہے وہ جھوٹے اور غلط کار ہیں۔

تم پر حرام ہے مردار جانور اور خون اور خنزیر کا گوشت اور وہ چیز جو اللہ کے سوا کسی اور کی طرف منسوب ہو۔ پھر جو مجبور ہو جائے اور وہ حد سے نکلنے والا اور ذیادتی کرنے والا نہ ہو، تو بیشک اللہ غفور اور رحیم ہے۔ اور اپنی زبان سے یہ جھوٹ مت کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ پر جھوٹ گڑھ لوجو لوگ اللہ پر جھوٹ گڑھ لیں وہ کبھی کامیاب نہیں نہیں ہوں گے (النحل – 115:116)۔

کہو! کیا تم نے دیکھا ہے جو اللہ نے تمہارے لئے رزق میں سے نازل کیا ہے اور پھر تم اس میں سے حلال اور حرام بنا لیتے ہو۔ کہو! کیا اللہ نے تم کو اس کی اجازت دی یا تم نے اللہ پر جھوٹ گڑھ لیا؟ (یونس – 59)۔

نقصان میں ہیں وہ لوگ جو اپنی اولاد کو حماقت میں قتل کرتے ہیں لاعلمی میں اور اللہ کے رزق کو حرام قرار دیتے ہیں اللہ پر جھوٹ گڑھتے ہیں۔ یہ لوگ گمراہی میں ہیں اور ہدایت یافتہ لوگوں میں نہیں (الانعام – 140)۔

جیسا کہ ہم نے قرآنی آیات میں دیکھا، اللہ نے صاف اور واضح انداز میں کھانے کی حرام اشیاء کو بیان کردیا ہے اور کسی کو بھی اس کا اختیار نہیں دیا کہ وہ کسی بھی شے کو جسے اللہ نے حرام نہ ٹھہرایا ہو، حرام قرار دے۔ یہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ جو چار حرام اشیاء کی فہرست قرآن نے دی ہے وہ حتمی اور مستقل ہے اور اس میں کسی تبدیلی یا افرات و تفریق کی قطعا ًاجازت نہیں۔

اس فہرست میں پہلی تین اشیاء تو واضح ہیں لیکن چوتھی حرام شے یعنی ہر وہ چیز جو اللہ کے سوا کسی اور کی طرف منسوب ہو، کچھ مبہم ہے۔ اسی ابہام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مولوی حضرات نے حلال گوشت کی اصطلاح گھڑی اور حرام کھانوں کی فہرست میں دخل اندازی شروع کر دی۔ انہوں نے اس چوتھی شے کی تشریح یوں کی کہ کو‏ئی بھی جانور جو اللہ کا نام لئے بغیر ذبح کیا جائے وہ حرام ہے۔ وہ پھر ایک اور آیت کو اپنی دلیل ثابت کرنے کے لئے پیش کرتے ہیں۔

ان کو مت کھاؤ جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو، یہ حدود شکنی ہے (الانعام – 121)۔

یہ اس آیت کا ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ کسی ایسے جانور کو مت کھاؤ جو بغیر اللہ کا نام لئے ذبح کیا گیا ہو اور اسی بنیاد پر بازار میں بکنے والےعام گوشت کو حرام قرار دیتے ہیں کیونکہ مذبحہ خانوں میں ان کے ذبح کے وقت ان پر اللہ کا نام نہیں لیا جاتا ہے۔

آئیے اس مسئلہ کا تفصیلی جائزہ لیں یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ کس طرح مولوی حضرات نے قرآنی آیات کی تشریح میں توڑ مڑوڑ کر پیش کیا ہے۔ حرام اشیاء کی غیر متبدل فہرست کو تبدیل کرنے کے لئے تاکہ حرام و حلال اشیاء کی فہرست پر اپنا اختیار ثابت کر سکیں برخلاف اس کے جو اللہ نے واضح طور پر قران میں ارشاد فرمایا۔ چوتھی حرام شہ کے اصلی قرانی الفاظ یہ ہیں

11

اس کا لفظ بلفظ ترجمہ یہ ہے۔ اور ہر وہ چیز جو غیر اللہ کی طرف منسوب ہو۔ اصلی عربی متن میں کوئی بھی ایسا لفظ نہیں جس کے معنی جانور یا گوشت ہوں۔ یہ حرمت کی شرط ہر کھانے کی چیز پر لاگو ہے جو غیر اللہ کی طرف منسوب ہو۔ چاہے وہ گوشت ہو یا سبزی یا اناج۔ قرآن کی جن آیات میں یہ حرمت بیان ہوئی ہے ان میں کہیں بھی ایسا لفظ نہیں آیا جو اسے گوشت یا کسی اور خاص شے کے لئے مخصوص کرتا ہو۔ لیکن مولوی حضرات نے دانستہ طور پر جانور کا لفظ اس کی تفسیر یا تشریح میں شامل کردیا اور اس چوتھی حرمت کو صرف جانور کے لئے مخصوص کر دیا جو صراصر حدود شکنی اور بد دیانتی ہے۔ یہی توڑ موڑ مندرجہ بالا سورۃ انعام کی آیت 121 کے ترجمے میں نظر آئے گا۔ اس آیت کا قرانی متن ہے

12

اس آیت کے بھی اصلی عربی متن میں کو‏ئی بھی ایسا لفظ نہیں جس کے معنی جانور یا گوشت ہوں۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا ہے، یہ حرمت کی شرط ہر کھانے کی چیز پر لاگو ہے جو غیر اللہ کی طرف منسوب ہو۔ چاہے وہ گوشت ہو یا سبزی یا اناج۔ اسی طرح ایک اور آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ ایسی چیزوں کو کھاؤ جن پر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔

سو کھاؤ ان چیزوں کو جن پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اگر تم اس کی آیتوں پر یقین رکھتے ہو (الانعام – 118)۔

اور آخر کیوں تم ان چیزوں کو نہیں کھاتے جن پر اللہ کا نام لیا گیا ہو حالانکہ اس نے تمہیں تفصیل سے بتا دیا ہے کہ تمہارے لئے کیا حرام ہے بجز اس کے کہ تم مجبور ہو۔ اور بیشک اکثر لوگ بغیر علم کے، محض اپنے خیالات پر چلنے سے گمراہ ہوتے ہیں (الانعام – 119)۔

وہی دلیل ان آیات پر بھی لاگو ہوتی ہے یعنی ان آیات میں کہیں بھی جانور یا گوشت کا ذکر نہیں ہے۔ آپ قرآن کا کوئی بھی ترجمہ اٹھا کر دیکھ لیں۔ ان آیات کے ترجمے میں جانور کا لفظ اضافی طور پر اکثر بریکٹ میں نظر آئے گا۔ یہ اللہ کے اس حکم کی صریح خلاف ورزی ہے کہ کھانے کی کسی بھی ایسی چیز کو حرام مت قرار دو جسے اللہ نے حرام نہیں ٹھہرایا۔ مگر مسلمانوں نے مولویوں کی بات کو بلا قرآن سے تحقیق کئے تسلیم کر لیا۔ اللہ نے واضح طور پر چار کھانے کی اشیاء کو حرام قرار دیا اور اس کے علاوہ کوئی بھی چیز جو آپ کو خوشگوار لگے کھانے کے لئے حلال ہے۔ ان حرام اشیاء کی فہرست میں کوئی رد و بدل محض گھڑا ہوا جھوٹ ہے اور ان حدود کو توڑنا ہے جو خدا نے مقرر کی ہیں۔

مگر ہم مسلمان، مولویوں کی بنائی ہوئی حرام اشیاء کی فہرست کی اندھی تقلید کرتے ہوئے ان کے خدا کے خلاف گڑھے ہوئے جھوٹ کی عملاً تائید کر رہے ہیں نادانستہ طور پر۔ جیسا کہ سورۃ انعام کی مندرجہ بالا آیت 119 کے آخر میں واضح طور پر بتا دیا کہ بلا کسی علم کے اندھی تقلید میں کھانے کی چیزوں کو حرام سمجھتے ہوئے ان سے پرہیز کرنا گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔

جیسا کہ اوپر کی آیات میں ہم نے دیکھا، کھانے کی اشیاء پر اللہ کے نام کی بڑی اہمیت آئی ہے اور اسے حرام و حلال کھانوں کے لئے ایک بنیادی میعار قرار دیا ہے۔ اس میعار کے مطابق:۔

۔1۔ کوئی بھی ایسی چیز کھائی جا سکتی ہے جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو

۔2۔ ایسی کوئی بھی چیز نہ کھائی جائے جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو

۔3۔ ایسی کوئی بھی چیز جو اللہ کے سوا کسی اور کی طرف منسوب ہو، اسے کھانا مطلق حرام ہے

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کھانے کی چیزوں پر اللہ کا نام لینے کی کیا اہمیت ہے اور اس کا ہمارے اوپر کیا اثر پڑتا ہے؟ کھانے کی کسی بھی شے پر اللہ کا نام لینے یا نہ لینے سے اس کے کیمیائی اجزا پر کوئی اثر نہیں پڑتا لہذا اس کھانے کا ہمارے طبعی جسم پر اثر وہی رہتا ہے چاہے ہم اس کھانے پر اللہ کا نام لیں یا نہ لیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ کا نام لینے یا نہ لینے کا ہمارے اوپر نفسیاتی اثر پڑتا ہے۔ آئیے اس کا تفصیل سے جائزہ لیں۔

اللہ نے ‍ قرآن میں یہ اعلان کیا ہے کہ اس زمین پر رہنے والے ہر جاندار کو رزق پہنچانا اس کی ذمہ داری ہے۔

اس زمین میں رہنے والے جتنے جاندار ہیں ان کا رزق مہیا کرنا اللہ پر ہے (ھود – 6)۔

اور بہت سے ایسے جاندار ہیں جو اپنا رزق نہیں اٹھاتے۔ اللہ ان کو بھی رزق مہیا کرتا ہے اور تم کو بھی (العنکبوت – 60)۔

یہ اس بات کا اعلان ہے کہ دوسرے جانداروں کی طرح، ہر انسان کا بھی یہ پیدائشی حق ہے کہ اسے بنیادی رزق فراہم ہو۔ رزق کے تمام وسائل چاہے وہ زمین یا پانی میں اگتے یا نکلتے ہوں یا زمین میں چلتے ہوں، اللہ نے فراہم کئے ہیں۔ اللہ کے سوا کوئی بھی ان وسائل کا مالک نہیں۔ اللہ نے یہ وسائل بلا کسی تفریق کے تمام جانداروں کی نشونما کے لئے عطا کئے ہیں۔ اس حقیقت کو کن خوبصورت الفاظ میں اللہ نے بیان کیا ہے۔

کیا تم نے دیکھا جو تم بوتے ہو؟ اسے تم اگاتے ہو یا ہم اگانے والے ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو اسے ریزہ ریزہ کر کے ملبہ بنا دیں اور تم حیران رہ جاؤ (الواقعہ – 63-65)۔

کیا تم نے پانی کو دیکھا ہے جو تم پیتے ہو؟ اسے تم آسمانوں سے برساتے ہو یا ہم برساتے ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو اسے کڑوا کر دیں۔ تو پھر تم کیوں شکرگزاری نہیں کرتے؟ (الواقعہ – 68-70)۔

حیوانی دنیا کے برخلاف جہاں ہر جانور اپنی انفرادی زندگی گزارتا ہے، انسان ایک معاشرے میں زندگی گزارتا ہے اور اس معاشرے میں بسنے والے افراد معاشرتی اور اخلاقی طور پر ایک دوسرے کی ضروریات کو پورا کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے ہر فرد کے کچھ حقوق و فرائض ہوتے ہیں۔ عام طور پر گھر کا سربراہ گھر کے تمام افراد کو رزق فراہم کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ لیکن یہ رزق کی فراہمی اس کی ذمہ داری ہے، گھر والوں پر احسان نہیں۔

بحیثیت انسان رزق حاصل کرنا گھر کے ہر فرد کا بنیادی حق ہے اور گھر کے سربراہ کا یہ فرض ہے کہ وہ ان کے اس حق کی تکمیل کرے۔ اسی طرح امیر لوگوں کا فرض ہے غریب اور ضرورتمند افراد کی روٹی کا انتظام کرنا، ان پر احسان نہیں۔ لہذا کوئی غریب اسے امیر کا احسان نہ سمجھے بلکہ اپنا حق سمجھے ایک انسان ہونے کے ناطے۔ کسی بھی انسان میں اس احساس کا پیدا ہونا اور پروان چڑھنا کہ وہ روٹی کے لئے کسی دوسرے انسان کا محتاج ہے، اس کی خوداری اور عزت نفس کو کچل دیتا ہے جو انسانیت کے اوپر ایک کلنک ہے۔

یہ اللہ کے اس بنیادی اعلان کے خلاف ہے کہ ہر انسان (چاہے کسی بھی رنگ، نسل یا مذھب سے ہو) برابری طور پر قابل عزت ہے۔

یقیناہم نے بنی آدم کو تکریم دی (بنی اسرائیل – 70)۔

لہذا اپنی زیر کفالت افراد یا ضرورت مندوں کے کھانے کا انتظام کرنا ایک فرض ہے جو دراصل اللہ کی ہمارے سپرد اس ذمہ داری کو پورا کرنا ہے کہ ہر جاندار تک رزق پہنچے۔ یہ فرض اور ذمہ داری انسانی حقوق کا ایک بنیادی ستون ہے۔

عربی لفظ اسمجس کا عام ترجمہ نامکیا جاتا ہے، اس کے دراصل بنیادی معنی خصوصیت اور خوبی کے ہیں۔ اللہ کے نظام کی ایک خصوصیت یا خوبی ہر جاندار کا رزق حاصل کرنے کا حق ہے جو کہ اوپر کی آیات سے واضح ہے۔ لہذا کسی بھی کھانے پر اللہ کا نام لینا یا پکارنا دراصل اس بات کا اعلان کرنا ہے کہ یہ کھانا اللہ نے مہیا کیا ہے اور کھانے والا اسکو بطور حق لے رہا ہے بطور احسان نہیں۔

مندرجہ بالا آیات اور ان کی تشریح کی بنیاد پر حلال و حرام کھانوں میعار یوں بیان کیا جا سکتا ہے:۔

۔1۔ جو بھی کھانا آپ کھائیں (بجز مردار، خون اور خنزیر کے گوشت کے جو کہ مطلق حرام ہیں)، اس کو کھانے سے پہلے یہ اعلان کریں (بلند یا خفی آواز میں یا دل میں) کہ یہ کھانا مجھے اللہ نے مہیا کیا ہے میرے بنیادی حق کے طور پر اور یہ کسی دوسرے کا مجھ پر احسان نہیں ہے۔

۔2۔ ایسی کوئی بھی چیز مت کھائیں جس کو آپ اللہ کا فراہم کردہ رزق قرار نہ دیں۔

۔3۔ ایسی چیز کھانا مطلق حرام ہے جو آپ کو اس اعلان یا اقرار کے ساتھ دی جائے کہ اس کی فراہمی کسی اور کے طفیل ہے، کیونکہ یہ عالمگیر رزاقیت کے بنیادی اعلان کی خلاف ورزی ہے۔ ہر شخص کسی بھی ایسی چیز کو کھانے سے انکار کردے جو اس کی عزت نفس اور خود داری کو کچل دے۔

جیسا کہ اوپر کی آیات میں دیکھا، اللہ نے ایسی کوئی شرط نہیں لگائی کہ جانور کو ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام لیا جائے۔ کوئی بھی مخصوص حلالگوشت نہیں ہے۔ کوئی بھی عام گوشت (بجز خنزیر کے گوشت کے) کھایا جا سکتا ہے۔ شرط صرف اتنی ہے کہ کسی بھی چیز کو کھانے سے پہلے یہ اعلان کر دیں کہ یہ اللہ نے فراہم کی ہے بطور حق۔ اس بات کو بھی ذ ہن میں رکھیں کہ قرآن کے مطابق حالت مجبوری میں جب جان پر بن آئے تو جان بچانے کے لئے کسی بھی حرام چیز کے کھانے کی کوئی قید نہیں۔

جیسا کہ اس مضمون میں بتایا گیا اسلام میں سادہ اور واضح کھانے کی پابندیاں ہیں جو مسلمانوں کے لئے کسی بھی قسم کی دشواریاں کھانے کے لئے پیدا نہیں کرتیں۔ مولویوں نے ان سادہ پابندیوں کو پیچیدہ بنا دیا صرف اپنی حاکمیت قائم کرنے کے لئے۔ اب یہ قارئین کی مرضی پر ہے کہ وہ کس پابندی پر چلتے ہیں: وہ جو اللہ نے قرار دی یا وہ جو مذہبی پیشوائیت نے قائم کی۔

انگلش میں پڑھنے کے لیے

The Issue of Halal and Haraam Food