امام مسجد کے قاتل کی گرفتاری میں مدد دینے پرانعام کا اعلان

0,,19474976_401,00

مغربی ممالک میں مسلمانوں کی طرف سے دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی کاروائیوں کی وجہ سے ان ممالک میں دائیں بازو کی انتہا پسند تنظیمیں مقبولیت حاصل کر رہیں۔ جرمنی اور سویڈن میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بھی بنایا جارہا ہے ۔

پچھلے ہفتے امریکی شہر نیویارک میں ایک امام مسجد اور ان کے ساتھی کو نامعلوم حملہ آور نے گولیاں مار کر ہلاک کردیا جس پر مسلمان کمیونٹی سراپا احتجاج ہے۔

نیویارک کی پولیس کے مطابق پچپن سالہ امام مسجد مولانا اخون جی اور چونسٹھ سالہ نائب امام طہار الدین کو الفرقان جامع مسجد کے نزدیک اس وقت ہلاک کیا گیا جب وہ ہفتے کے روز روایتی مذہبی لباس میں ظہر کی نماز کی ادائیگی کے لیے نکلے تھے۔ اخون جی کے اکیس سالہ بیٹے نعیم اخون جی نے کہا،’’وہ ہمیشہ امن کی بات کرتے تھے۔ سمجھ نہیں آتا کہ میرے والد کو کیوں مار دیا گیا‘‘۔

مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ ابھی تک اس بات کا تعین نہیں ہو سکا کہ قتل کی اس واردات کے پیچھے کیا مقصد کار فرما تھا تاہم اس مسجد میں نماز پڑھنے والی بنگلہ دیشی کمیونٹی میں سے چند کا موقف یہ ہے کہ اس کے پیچھے مذہبی منافرت کا ہاتھ ہے۔

انہی میں سے ایک منیر چوہدری ہیں، جو الفرقان جامع مسجد میں اپنے تین سالہ بیٹے کے ساتھ باقاعدگی سے آتے ہیں۔ انہوں نے نیوز ایجنسی اے پی کو بتایا،’’ایک بار جب میں چہل قدمی کرتا ہوا اپنے بیٹے کے ساتھ مسجد کی طرف جا رہا تھا، ایک شخص مجھے ’اسامہ‘ کہتا ہوا گزر گیا۔ اس کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ اب گاڑی کے ذریعے مسجد جانا زیادہ محفوظ رہے گا۔

منیر چوہدری کے مطابق کئی پڑوسیوں نے انہیں منع کیا کہ وہ اپنے چھوٹے بیٹے کو ساتھ لے کر نہ جایا کریں کیونکہ لوگ نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ دوسری جانب نیویارک کی پولیس نے پیر کے روز بتایا کہ جامع مسجد کے امام اخون جی اور نائب امام کے قتل کے حوالے سے ایک شخص سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔

پولیس کے ایک ترجمان کے مطابق اس شخص کو اُس کی غیر معمولی حالت کی وجہ سے حراست میں لیا گیا ہے اور اس پر قتل کا الزام عائد نہیں کیا گیا۔ اس سے قبل این بی سی نیوز اور نیو یارک ڈیلی نیوز سمیت مقامی میڈیا نے نامعلوم پولیس ذرائع کے حوالے سے کہا تھا کہ اس شخص پر ہلاکتوں میں ملوث ہونے کا شبہ ہے۔

گزشتہ روز نیویارک کی پولیس نے مشتبہ مسلح شخص کا خاکہ بھی جاری کیا تھا۔ خاکے کے مطابق یہ ایک کالے بالو‌ں اور داڑھی والا شخص ہے، جس نے عینک لگا رکھی ہے۔ اتوار ہی کے روز نیویارک کے میئر کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ان ہلاکتوں کو پورے نیو یارک میں محسوس کیا گیا ہے۔

دوسری طرف امریکہ میں ایک مسلم ایڈووکیسی گروپ کونسل برائے امریکی اسلامی تعلقات( کئیر) نے پیر کے روز حملہ آور کے بارے میں اطلاعات فراہم کرنے والے کے لیے دس ہزار امریکی ڈالر کے انعام کا اعلان کیا ہے۔

جب کہ کچھ مبصرین نے کئیر کے اس اقدام کو بھی انتہا پسندانہ قراردیا ہے اور کہا ہے کہ جب حکومت تفتیش کررہی ہے تو ایک نجی ادارےکو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ قاتل کے سر کی قیمت رکھے اس سے مسلمانوں کے خلاف جذبات میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔

Comments are closed.