آزاد خیالی

01 mubarik aliڈاکٹر مبارک علی

فرانسیسی انقلاب نے جہاں سیاسی اور سماجی تبدیلیاں کیں وہیں اس نے نظریات و افکار کو بھی جنم دیا۔ فرانس کی نیشنل اسمبلی میں جو اراکین دائیں جانب بیٹھے ہوتے تھے وہ قدامت پسند نظریات کے حامل تھے جبکہ بائیں جانب بیٹھنے والے اراکین انقلابی اور ریڈیکل نظریات کے حامی تھے۔ اس وجہ سے دائیں اور بائیں بازو کی اصطلاحات ان دو نظریات کا اظہار ہیں۔ ان دونوں جماعتوں میں قدامت پرستی اور ترقی پسندانہ نقطہ ہائے نظر کا فرق تھا۔

ان دو نظریات کے ساتھ ساتھ ایک تیسرا نظریہ حالات کی مطابقت سے پیدا ہوا۔ جو آزاد خیالی ( لبرل ازم )کہلاتا ہے۔ لبرل خیالات سے تعلق رکھنے والے دائیں اور بائیں بازو سے علیحدہ ہو کر سیاست میں ایک متبادل راستہ اختیار کرتے تھے۔ یہ انقلاب کے حامی تو نہیں تھے اور نہ ہی ماضی کی تمام روایات یا اداروں کو ختم کرنا چاہتے تھے مگر ان کا نظریہ تھا کہ معاشرے کی ترقی میں اگر کوئی ادارہ یا روایت حائل ہو تو اس رکاوٹ کو دور کر دینا چاہئے۔ یہ ایک طرح سے ماضی سے رشتہ بھی رکھنا چاہتے تھے مگر مستقبل میں ترقی کے حامی تھے۔

دوسری جانب یہ معاشرے کو انقلابی طور پر تبدیل کرنا نہیں چاہتے تھے لیکن معاشرے کی ترقی اور فرد کی آزادی کے لئے ان کا مطالبہ تھا کہ معاشرے میں مکمل آزادئ رائے ہو تاکہ ایک فرد اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کر سکے۔ اس کی راہ میں کسی بھی قسم کی سیاسی یا سماجی رکاوٹیں نہ ہوں۔ یہ سماج میں بنیادی انسانی حقوق کے قائل تھے۔

انگلستان میں انیسویں صدی میں افادیت پرستی کی تحریک ابھری جس نے لبرل خیالات کو فروغ دیا۔ اس تحریک کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اصلاحات کے ذریعہ معاشرے کو تبدیل کیا جائے اور ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ جس میں زیادہ سے زیادہ لوگ خوشی اور مسرت حاصل کر سکیں۔ اس تحریک کے خیال میں وہ روایات جو کہ فرسودہ ہو چکی ہیں انہیں ختم کر کے نئی روایات کی بنیاد ڈالنی چاہئے تاکہ معاشرہ ترقی کر سکے۔ اس تحریک کا سب سے زیادہ زور قانونی اصلاحات پر تھا۔ وہ قانون کو معاشرے کی اصلاح اور تبدیلی کے لئے ضروری خیال کرتے تھے جو انسانی ذہن کو بدلنے میں مددگار ہوتا ہے۔

اس کے مقابلے میں فرانس میں آزاد خیالی کی تحریک نے اس وقت مقبولیت حاصل کی جب انقلاب کے بعد وہاں دوبارہ سے بادشاہت کا نظام قائم ہوا۔ لبرل یا آزاد خیال لوگ بادشاہت کے نظام میں تبدیلی چاہتے تھے۔ وہ مطلق العنان بادشاہ کے خلاف تھے اور بادشاہت کو دستور کا پابند کرنا چاہتے تھے تاکہ اس کے اختیارات کو قانون کا پابند کردیا جائے۔

لبرلزم یا آزاد خیالی کی اس تحریک نے یورپ کے سماج میں ایک اور اہم تبدیلی کی، اس نے عورتوں کو جو اب تک تمام حقوق سے محروم تھیں ان میں بیداری کی لہر پیدا کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا کہ عورتوں کو بھی مردوں کی طرح برابر کے حقوق دئیے جائیں۔ اس نے یورپ میں فیمنزم کی تحریک کو جنم دیا۔

لبرلزم کے نظریات کو اس وقت اور زیادہ تقویت ملی جب جان سٹیورٹ مل نے اپنی کتاب (اون لبرٹی ) یا آزادی میں اس کو فلسفیانہ شکل دی۔ اس کے نزدیک سماج میں دو قسم کی آمریت ہوتی ہیں، ایک اوپر والی جس میں ریاست اس کے ادارے اور حکمراں طبقے پابندیاں عائد کر کے فرد کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھرنے نہیں دیتے ہیں، مثلاً ایسے قوانین بنائے جاتے ہیں کہ جو اہم شخصیتوں یا اداروں پر تنقید نہیں کرنے دیتے۔ دوسری جانب معاشرے میں اکثریت کی آمریت ہوتی ہے۔ جس میں اکثریت اپنے نظریات کے خلاف کسی تنقید کو برداشت نہیں کرتے ہیں اور آزادئ رائے کو خوف اور دہشت کے ذریعہ ختم کردیتے ہیں۔

مل کا خیال تھا کہ جب تک فرد ان دونوں آمریتوں سے آزاد نہیں ہو گا اس وقت تک اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ وہ اس کا بھی حامی تھا کہ تعلیم کو ریاست سے آزاد کرایا جائے کیونکہ ریاست تعلیم کے ذریعہ نوجوان نسلوں پر اپنے خیالات مسلط کرتی ہے۔ وہ ایسا نصاب تیار کرتی ہے جو حکمراں طبقوں کے مفادات میں ہوتا ہے۔ یہ آنے والی نسلوں کو ذہنی طور پر مفلوج بنا دیتا ہے۔

پاکستان میں آزاد خیالی کے نظریہ کو منفی معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ قدامت پرست طبقے اس اصلاح کو بطورِ طنز استعمال کرتے ہیں مثلاً اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ بڑے آزاد خیال انسان ہیں جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ معاشرے کی روایات سے منکر ہیں اور ان سے بغاوت کر کے حالات کے مطابق نئی روایات کی داغ بیل ڈالنا چاہتے ہیں۔ عورتوں کو آزاد خیال کہہ کر یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے روایتی مقام سے انحراف کر رہی ہیں جو معاشرے کے لئے برائی کا سبب ہے۔

دوسری جانب لبرل یا آزاد خیال لوگوں کو پاکستان کے معاشرے میں ریاست کی آمریت اور معاشرے کی اکثریتی آمریت دونوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں تخلیقی کاموں کا فقدان ہے۔ سماجی علوم کے ماہرین، آرٹسٹ، ادیب، شاعر اور فنکار ان پابندیوں کی وجہ سے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار نہیں کر سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں نئے نظریات و افکار کی گنجائش نہیں ہے اور معاشرہ قدامت پرستی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔

پاکستانی معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ اس میں اکثریتی آمریت ریاستی آمریت سے زیادہ طاقت ور ہے۔ ریاستی آمریت کا تعلق قوانین سے ہوتا ہے کہ جن کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے مگر اکثریتی آمریت کا تعلق جذبات سے ہوتا ہے اس لئے جب وہ کسی تحریر یا تقریر کو اپنے خیالات کے منافی سمجھتی ہے تو خوف اور دہشت کا سہارا لے کر اسے ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس لئے اکثریتی آمریت معاشرے کے لئے زیادہ خطرناک اور نقصان دہ ہے کیونکہ یہ نہ تو کسی تنقید کو برداشت کرتی ہے اور نہ ہی کسی نئی فکر اور نظریہ کو۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ذہنی طور پر پس ماندگی کا شکار ہے اور دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں سے بیگانہ ہو کر تنہائی کی حالت میں زندگی گزارنا چاہتا ہے۔