صدیوں کا کام نصف صدی میں۔ بابائے اردو کا کارنامہ 

آصف جیلانی 

editor_board_img

یہ تو اردو سے محبت کرنے والوں کو معلوم ہے کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق 1870کو ریاست اتر پردیش کے قصبہ ہاپوڑ میں پیدا ہوئے اور کراچی میں 16 اگست 1961کوکراچی میں اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے۔ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ انہوں نے 1888میں علی گڑھ میں داخلہ لیا اور 1896میں بی اے کیا ، پھر تلاش روزگار کے لئے بمبئی پہنچے جہاں حیدر آباد دکن کے کرنل افسر الملک بہادر کی نگاہ انتخاب ان پر پڑی اور وہ اپنے ساتھ حیدر آباد دکن لے آئے اور مدرسہ آصفیہ کا صدر مقرر کیا ۔1912 میں ،مولوی صاحب نے انجمن ترقی اردو کو جو علی گڑھ میں سسک رہی تھی حیدرآباد دکن لا کر اس میں نئی جان ڈالی اور اسی دوران انہوں نے سر اکبر حیدری اور سر راس مسعود کے ساتھ مل کر بر صغیر میں اردو کی پہلی یونیورسٹی ، عثمانیہ یونیورسٹی کی بنیاد رکھی ۔

میں اس وقت ، اردو کے لئے مولوی عبد الحق صاحب کی نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط خدمات کو نہیں دہراوں گا جس کی وجہ سے وہ بابائے اردو کہلائے جاتے ہیں۔ میں ان کی تہہ دار شخصیت کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔

سنہ 50کے اوائل میں جب میں روزنامہ امروزکراچی سے وابستہ تھا تو روز نہیں تو ہفتہ میں کم ازکم ایک بار اردو کالج کے سامنے کی عمارت کی بالائی منزل پر جہاں ان کا دفتر اوررہائش بھی تھی، مولوی صاحب سے انجمن ترقی اردو کے منصوبوں اور مسائل کے بارے میں خبروں کے سلسلہ میں ، ملاقاتیں رہتی تھیں۔وہ دور ، انجمن کے لئے پر آشوب دور تھا ، انجمن ،دلی کے فسادات میں لٹی پٹی 1949میں کراچی آئی تھی ، لیکن مولوی صاحب جس شوق، لگن اور تن دہی سے انجمن کی تجدید کر رہے تھے اسے دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ وہ طوفان میں گھرے ایک نئے پودے کی آبیاری کر رہے ہیں ۔

ان نا مساعد حالات میں وہ سازشیوں کے نرغے میں گھر گئے تھے ۔ 1957میں مولوی صاحب ان سازشیوں کی وجہ سے سخت پریشان تھے اور عملی طور پر سازشیوں نے انہیں یرغمالی بنا رکھا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ انجمن ترقی اردو ٹھپ پڑ جائے گی اور اس کے ساتھ اردو یونیورسٹی کے بارے میں بابائے اردو کے تمام منصوبے خاک میں مل جائیں گے۔ وہ تو 1958کا مارشل لاء تھا جو بابائے اردو کے لئے نجات دہندہ اورمدد گار ثابت ہوا ، جمیل الدین عالی اور ابن انشاء کی کوششوں کے نتیجہ میں، جنرل ایوب خان نے مارشل لاء کے حکم کے تحت بابائے اردو کو انجمن کا مستقل سربراہ مقرر کیا اور ان کا تیار کردہ آئین نافذ کیا۔

میں ایک روز کسی معاملہ پر بات چیت کے لئے ناشتہ سے پہلے اردو کالج میں بابائے اردو کی رہائش گاہ پر پہنچ گیا۔ پتہ چلا کہ وہ صبح کی سیر کے لئے گئے ہوئے ہیں۔ میں نے دفتر کے عمل داروں سے پوچھا کہ کیا قریب میں کسی پارک میں ٹہلنے گئے ہیں تو پتہ چلا کہ نہیں وہ روز فجر سے پہلے ہی کار میں کلفٹن جا کر ساحل سمندر کی سیر کرتے ہیں۔ سردی ہو گرمی ہو، بارش ہو، آندھی ہو طوفان ہو مولوی صاحب کی صبح کی سیر میں کبھی فرق نہیں آتا۔

ناشتہ کے فوراً بعد وہ اپنے کام میں جٹ جا تے ،دوپہر کو کھانا نہیں کھاتے کہ اس کی وجہ سے قیلولہ کو جی چاہتا ہے اور وقت ضائعہوتا ہے ، سہ پہر کو چار بجے چائے پیتے اور اس کے ساتھ توس مکھن کے علاوہ پاپڑ ضرور کھاتے ہیں ۔ اصل کھانا رات کا ہوتا ہے جس میں بڑا اہتمام ہوتا ہے۔ مجھے کئی بار ابن انشا ء کے ساتھ مولوی صاحب کے رات کے کھانے میں شرکت کا موقع ملا۔لذیذ کھانے نہایت نفاست سے لگائے جاتے تھے اور کھانے پر مہمانوں سے عمدا ماحول میں سنجیدہ امور کے ساتھ ، شگفتہ اور طنزیہ انداز سے گفتگو ہوتی تھی۔

انہیں اس بات کا سخت قلق تھا کہ انگریزوں کی دیکھا دیکھی ہم نے اپنی روایت بدل دی اور کھڑے ہو کر (بفے) کھانے کا عجیب انداز اختیار کر لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے بزرگ ہمیشہ کھڑے ہو کر کھانے سے منع کرتے تھے ۔ لوگ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہمارے ہاں کے کھانے کھڑے ہو کر نہیں کھائے جا سکتے ۔ آپ نوالہ توڑیں یا پلیٹ سنبھالیں ؟ پھر بفے کھانے میں ایسی ہڑ بونگ مچتی ہے اور اس قدر لپا ڈگی ہوتی ہے کہ صحیح طور پرکھانا نہیں کھایا جا سکتا ۔

مشہور یہ ہے کہ بابائے اردو نے کبھی شادی نہیں کی ۔ گو اس بارے میں خود مولوی صاحب نے کبھی کچھ نہیں کہا لیکن ان کے ایک خادم بشیر احمد کا کہنا تھا کہ مولوی صاحب کی شادی ہاپوڑ ہی میں ایک معزز خاندان کی لڑکی سے ان کی والدہ نے طے کر دی تھی ، جب کہ مولوی صاحب کا بالکل ارادہ نہیں تھا، مگر والدہ کی بات کو اس وقت نہ ٹال سکے اور مجبور ہو گئے ، لیکن شادی ہی کے دن گھر سے فرار ہو گئے ، کئی سال تک ان کی بیوی بیٹھی رہیں ، پھر مولوی صاحب نے اپنے والدین کے انتقال کے بعد ایک عزیز کے ہاتھ مہر ادا کر کے طلاق دے دی۔

ان کے رفقاء کہتے ہیں کہ بابائے اردو کا مقصد حیات اردو زبان و ادب کی بقا اور فروغ تھا جس میں وہ نصف صدی سے زیادہ عرصے تک مصروف رہے ۔ اردو ان کی دلہن تھی،اس لئے انہوں نے اذدواجی زندگی کے بارے میں سوچا نہیں۔

مولوی صاحب کے بہت سے رفقاء انہیں اکھڑ اور انتہا پسند کہتے تھے شاید اس بناء پر کہ وہ کوئی بات لگی لپٹی نہیں رکھتے تھے اور فورا اپنی رائے کا اظہار کر دیتے تھے چاہے وہ دوسرے کو بری کیوں نہ لگے۔ انتہا پسندی ان کے لئے طاقت اور ولولہ کے احساس کی مظہر تھی۔

ایک ملاقات میں میں نے اردو میں انگریزی زبان کے الفاظ کی در اندازی کا مسئلہ چھیڑا۔ان کا کہنا تھا میاں صاحب زادے ، زبان کی ترقی کے لئے اس میں غیر ملکی زبانوں کے الفاظ کی شمولیت بہت اہم ہے ۔زبانیں، الفاظ کو خارج یا متروک کرنے یا ان کی تطہیر کرنے سے نہیں بنتیں بلکہ ان کی ترقی الفاظ کے ذخیرہ میں اضافہ کرنے سے ہوتی ہے اور دوسری زبانوں کے ساتھ میل جول سے طرز ادا کی نئی راہیں تراشی جا سکتی ہیں۔ 

بابائے اردو کو کام کا شوق جنون کی حد تک تھا۔ تن آسانی سے انہیں شدید نفرت تھی۔ وہ کہتے تھے کہ کام وبال جان سمجھ کر نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس سے روحانی مسرت حاصل کرنی چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں
نے نصف صدی میں کئی صدیوں کا کام انجام دیا اور آخر وقت تک جب کہ وہ سرطان کے موزی مرض میں مبتلا تھے تحقیق کا کام جاری رکھا۔

بابائے اردو کو اس بات کا سخت افسوس رہا کہ پاکستان میں اردو کو وہ حیثیت نہ مل سکی ، جس کا تحریک پاکستان کے دوران وعدہ کیا گیا تھا۔اس کا دوش وہ تحریک پاکستان کے اولین سیاست دانوں اور مغرب نواز بیوروکریسی کو دیتے تھے ۔ اردو کو سرکاری زبان قرار دینے میں لیت و لعل پر مولوی صاحب کی پہلے وزیر اعظم نواب لیاقت علی خان سے کئی بار تلخی ہو چکی تھی ۔ جو یہی تسلی دیتے تھے کہ ابھی وقت مناسب نہیں ہے ۔ 
ایسا لگتا تھا کہ مولوی صاحب کی شخصیت دو پرتوں میں بٹ گئی تھی ۔ایک طرف اردو کے لئے اپنی پچاس سال سے زیادہ طویل خدمت پر مسرت و انبساط کا احساس ، دوسری جانب پاکستان میں اردو کو اس کی حیثیت دلانے میں ناکامی کا شدید احساس۔ 

بہر حال مولوی عبد الحق صاحب نے اردو کے لئے بڑے معرکے لڑے ہیں اور اس زبان کو اپنی اہمیت کا بھر پور احساس دلایا ہے اور اس میں اتنا اعتماد پیدا کیا ہے کہ وہ فخر سے سر بلند کر کے حالات کا مقابلہ کر سکے۔ اسی کے ساتھ لغت اور تحقیق کا جو گراں قدر کام انہوں نے انجام دیا ہے وہ ان کے نام کو زندہ جاوید رکھے گا۔ 

One Comment