ایم کیو ایم کا المیہ

aimal-250x300

ایمل خٹک  

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم ) شدید اندرونی بحران کا شکار ہے اور حالیہ چند مہینوں میں یہ بحران کھل کر شدت سے سامنے آنا شروع ہوگیا ہے۔ایم کیو ایم کو سخت ریاستی جبر کا سامنا ہے۔ ریاستی ظلم و جبر ایک طرف لیکن ایم کیو ایم کے اندر عرصے سے پنپنے والی اندرونی خلفشار کو اب باہر آنے کا موقع ملا ہے۔ مشکلات اور آزمائشوں کے ساتھ ساتھ یہ بحران ایم کیو ایم کو خود تنقیدی اور اصلاح احوال کے کئی سنہرے مواقع بھی فراہم کر رہاہے۔ 

ایم کیو ایم ایک سیاسی جماعت سے ایک تشدد پسند جماعت کیسے بن گئی ؟ خالصتاً سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے قائم جماعت مجرمانہ تشدد کی طرف کیوں اور کیسے مائل ہوگئی؟ اور وہ کس حد تک اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہوئی  اور مہاجر قوم کو اس کی کیا قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے؟

کیا ایم کیو ایم اور تشدد لازم و ملزوم ہیں یا اور سیاسی جماعتوں کی طرح وہ بھی اپنے مقاصد کے حصول کیلئے خالصتاً سیاسی اور جمہوری مروجہ طور طریقے اپنا سکتی ہے یا نہیں؟ یہ اور بہت سے ایسے اور سوالات کچھ عرصے سے سیاست کے طالب علموں کے ذہن پر سوار ہیں۔ 

پاکستان کی جاگیردارانہ اور موروثی طرز سیاست میں ایک شہری تعلیم یافتہ مڈل کلاس کی پارٹی کا ظہور اور ملک کی ٹاپ تھری یا فور جماعتوں میں اس کا شمار کوئی معمولی بات نہیں تھی۔  اور یہ پاکستان کی سیاسی اور جمہوری تاریخ میں ایک بہترین کیس سٹڈی کے طور پر موجود ہے۔

 بلا شبہ ایم کیو ایم نے شروع میں اپنی منفرد طرز سیاست کی وجہ سے پاکستانی سیاست میں کچھ نئے اور مثبت رحجانات شامل کئے اور اس میں بھی شک نہیں کی بعد میں سیاست میں تشدد کا رحجان جس بری طرح ایم کیو ایم نے متعارف کرایا اس کی پاکستان میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔  جرائم پیشہ افراد کی سرگرمیوں کی سرپرستی یا اس کو نظر انداز کرتے کرتے ایم کو ایم کے اندر کئی منظم جرائم پیشہ افراد کے ٹولے وجود میں آگئے جو پہلے پہل یا تو وہ جماعت کے کنٹرول میں تھے اور وہ یا تو آہستہ آہستہ اپنی من مانی کرنے پر اتر آئے یا خود سر ہوتے گئے ۔ 

سیاسی تشدد اور مجرمانہ تشدد میں فرق ہوتا ہے ۔ سیاسی تشدد سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے خاص کر اقتدار پر قبضے کیلئے بروئے کار لایا جاتا ہے اور مجرمانہ تشدد کا مقصد ناجائز ذرائع سے طاقت اور پیسے کا حصول ہوتا ہے۔ اور اس کے ذریعے مخالفین کو دبانے اور مجرمانہ سرگرمیوں کی فروغ کیلئے کسی علاقے پر بلا شرکت غیرے کنٹرول  حاصل کرنا ہوتا ہے۔

سیاست سے یکسر مختلف جرائم پیشہ دنیا کے اپنے اصول اور چلن ہوتا ہے ۔ جو بھی اس میں داخل ہوتا ہے وہ اس میں رنگ جاتا ہے۔ گولی کی زبان میں بات کرنے والے صرف گولی کی زبان سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اپنی بات سمجھانے کیلئے عقل اور دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی وہ گولی سے کام چلا لیتے ہے۔ گولی اپنے پرائے میں فرق نہیں کرتی جس کو بات سمجھانی ہو اس کو لگتی ہے چاہے وہ اپنا ہو یا پرایا۔

المیہ یہ ہے کہ ایک سیاسی جماعت ہوتے ہوئے بھی ایم کیو ایم نے سیاست میں قبضہ گیری، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ وغیرہ کے رحجانات کو وسع پیمانے پر رواج دیا۔ اور اس کی دیکھا دیکھی بعض  دیگر مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے بھی آ ہستہ آہستہ اس روش کو اختیار کیا۔  اب صرف ایم کیو ایم ہی نہیں بلکہ دیگر جماعتوں کے کارکنوں کو بھی مجرمانہ تشدد کی لت پڑچکی ہے۔  مگر ابھی تک اس میں متحدہ کا حصہ زیادہ ہے۔

پاکستان رینجرز نے حال ہی میں جاری کردہ جاری کراچی آپریشن کی تین سالہ کاروائیوں کا وائٹ پیپر شائع کیا ہے جس کے مطابق کل 848 ٹارگٹ کلرز گرفتار کیے گئے۔ جس میں 645 کا تعلق ایم کیو ایم سے تھا اور جنہوں نے 5244 افراد کی ٹارگٹ کلنگ کا اعتراف کیا۔ ایم کیو ایم سے منسوب ٹارگٹ کلرز کل ٹارگٹ کلرز کے 77 فیصدی سے زائد جبکہ وہ 81 فیصدی سے زائد ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں ملوث تھے ۔

بدقسمتی سے نہ صرف مجرمانہ سرگرمیوں کی سرپرستی سے اس کی سیاسی شہرت اور ساکھ کو بہت نقصان پہنچا ہے ۔ بلکہ اس کے آزمودہ سیاسی کارکن اور راہنما بھی غیر موثر ہوتے گئے اور مجرمانہ پس منظر کے حامل افراد موثر ہوتے گئے۔ نتیجتاً سیاسی کارکن یا تو آہستہ آہستہ خاموش ہوتے گئے اور یا ان کی جماعتی سرگرمیوں میں شرکت واجبی سی رہ گئی۔ زیادہ بھتہ جمع کرانے والا ، مخالفین کو ڈرانے دھمکانے حتی کہ پھڑکانے والہ معتبر اور سیاسی انداز سیاست کی تبلیغ کرنے والا پس پشت چلاگیا۔

خوف اور دہشت کا ماحول نہ صرف اردگرد ماحول میں چھایا رہا بلکہ اندرون پارٹی بھی چھایا رہا۔ کئی صاحب الرائے کارکن اور راہنما اپنی رائے کا اظہار یا پارٹی کی سیاسی موقف کی مخالفت کی وجہ سے جان سے ہاتھ د ھو بیٹھے۔ اس دوران پارٹی کے اندر ناجائز ذرائع سے کمانے والا ایک طاقتور مفادی ٹولہ بھی ابھرا ہے۔ جو پارٹی کی پالیسیوں اور کام پر اثرانداز ہونے لگاہے۔ بہت سی وجوہات کی بناء پر پارٹی قیادت اپنے جائز آمدن سے زیادہ جائیداد اور بنک بیلنس بنانے والے  اس طبقے کی بدعنوانیوں اور ناجائزذرائع سے دولتمند بننے کے عمل کو نظرانداز کرتی رہی۔ اس سلسلے میں کئی راہنماوں پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔  

جس صورتحال سے ایم کیو ایم کو آج سامنا ہے آگے پیچھے یہی ہونا تھا۔ کیونکہ کوئی بھی ریاست اس قسم کی لاقانونیت اور تشدد برداشت نہیں کرسکتی ۔ ابھی تک ریاست نے بعض کوتاہ اور ناعاقبت اندیش وجوہات اور مصلحتوں کی وجہ سے اسے برداشت کیا تھا ۔ ریاست نے کسی مجبوری یا مصلحت کے تحت اس کو استعمال کیا اور اس کی جرائم پیشہ سرگرمیاں نظرانداز کرتی رہی اس کی پردہ پوشی کرتی رہی ۔ بارہ مئی کا واقعہ ریاستی استعمال کی بد ترین مثال ہے۔

لیکن جب ضرورت نہ رہی یا معاملات کنٹرول سے باہر ہونے لگے تو ریاست نے لگام ڈالنا شروع کیا جس سے معاملات مزید بگڑنا شروع ہوگئے۔ پہلے والے اور موجودہ آپریشن میں کافی فرق ہے۔ اب پہلے کی نسبت متحدہ میں نہ تو وہ اندرونی وحدت ہے اور نہ پہلے جیسا عوامی سپورٹ ۔ اب دیرینہ کارکن سائڈ لائن یا ناراض ہیں اور عوام میں بھی کئی حوالوں سے خفگی اور ناراضگی موجود ہے۔

کراچی میں بدامنی ہر گھر کی دھلیز پر پہنچ چکی ہے ۔ ماسوائے مفادی ٹولے کے جن کا مفاد بدامنی اور دہشت سے جڑا ہوا ہے۔ کراچی کی عوام کی اکثریت اس صورتحال سے پریشان ہے اور وہ اب امن اور سکون کی سانس لینا چاہتے ھیں ۔ ھلڑ بازی اور بزور لوگوں کو گھر سے نکالنے والی مشین یا تو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ھے یا اپنی جان بچانے کی فکر میں روپوش ہیں ۔ 

ایم کیو ایم کو شاید دشمنوں نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا خود اس نے پہنچایا۔ الطاف بھائی کی قائدانہ صلاحیتوں اور کمٹمنٹ سے انکار نہیں مگر گزشتہ کچھ عرصے سے ان کے بیانات نے ایم کیو ایم کی سیاسی ساکھ کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس کی وجہ اس کی خودساختہ جلاوطنی بھی ہو سکتی ہے جس کی وجہ سے وہ ملک سے باہر رہ رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کی موجودہ سیاسی تنہائی کے ذمہ دار اور کوئی نہیں خود ایم کیو ایم کے ذمہ داران ہیں۔ اس کی بعض مجرمانہ متشدد سرگرمیاں ہیں ۔ اس کے علاوہ وہ خود اپنی بہت سی خوش فہمیوں یا غلط فہمیوں کی شکار نظر آتی ہے۔ 

ایم کیو ایم ایک سیاسی حقیقت ہے لیکن اب اسے ایک سیاسی جماعت کے طور پر خالصتاً سیاسی انداز فکر اور سیاسی طور طریقے اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈرو خوف کی فضا میں تو عارضی طور پر کام چلایا جاسکتا ہے مگر زیادہ عرصے کیلئے یہ نہیں چل سکتا۔ دوسرا اگر کوئی اس سے بھی بڑا ڈر وخوف پھیلانے والا آیا تو لوگ اس طرف چلے جاتے ہیں ۔

کراچی سے کشمور تک سرکاری زمینوں اور رفاعی پلاٹوں پر غیر قانونی قائم متحدہ کے دفاتر کو مسمار کرنے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔ کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں مثلاًحیدرآباد وغیرہ میں سرکاری عمارتوں ، چوراہوں اور متحدہ کے دفاتر سے پارٹی اور الطاف حسین کے پورٹریٹ ، پوسٹرز اور بینرز اتارے جا رہے ہیں ۔ صرف کراچی میں تقریباً 67 سرکاری اور رفاعی پلاٹوں پر غیر قانونی قبضہ کرکے مختلف دفاتر قائم کئے گئے تھے جن کو مسمار کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔

 نائن زیرو سمیت سینکڑوں دفاتر سیل کردئیے گئے اور غیر قانونی قبضہ کیے گئے زمینوں پر قائم دفاتر کو گرایا گیا مگر ڈر وخوف کی وجہ سے کسی نے اُف تک نہیں کیا۔ اور اس نفسیاتی فضا کو بنانے میں ایم کیو ایم کا بڑا ھاتھ رہا ہے۔ جو اب خود اس کے گلے پڑ رہا ہے۔ خوف و ڈر کے ماحول کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ عوامی شکایات دب جاتی ہیں اور اکثر لوگ شکایت کرنے یا بات کرنے سے کتراتے ہیں جس کی وجہ سے عوامی مسائل اور مشکلات کھل کر سامنے نہیں آتے اور اندر ہی اندر نفرت اور غم وغصے کا لاوا ابلنے لگتا ہے۔ احتجاجی کالوں میں عوام کی عدم دلچسپی کی ایک وجہ ایم کیو ایم کی بعض اقدامات اور پالیسیوں کی وجہ سے عوام میں پائی جانے والی ناراضگی  اور غم وغصہ بھی ہے۔ 

ایک سیاسی جماعت کے طور پر کسی کو ایم کیو ایم سے اختلاف ہوسکتا ہے مگر اس کے سیاسی وجود کا کوئی بھی سیاسی اور جمہوری ذھن رکھنے والا پاکستانی خلاف نہیں ۔ جو مخالفت ہو رہی ہے یا موجود ہے وہ صرف اس کے متشدد رحجانات کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ حتی کہ اس طرزعمل کی وجہ سے اور تو اور اس حوالے سے سنجیدہ مہاجر حلقوں میں بھی ناپسندیدگی پائی جاتی ہے۔  

حکومت متحدہ کو دیوار سے لگانےکی کوشش کی بجائے اس سے سنجیدہ مذاکرات کرنے چاہییں۔ اب وقت آگیا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کو پارٹی کو جرائم پیشہ افراد سے صاف کرکے اس کی سیاسی ساکھ اور شہرت کو بحال کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ امید ہے کہ ایم کیو ایم خود تنقیدی اور اصلاح احوال کا یہ نادر موقع ضائع نہیں کرے گی ۔

♥ 

One Comment