عالمی انتشار، مشرق وسطیٰ و ترکی کا بحران 

میراث زِروانی

1031102853
بین الاقوا می حالات حا ضرہ میں گذشتہ کچھ عر صہ سے سا منے آ نے وا لی تصاد م خیز ،پر تشدد اور پیچیدہ کیفیت نے دنیا کے مستقبل کے با رے میں پا ئی جا نے وا لی غیر یقینی اور تشویش کو پہلے سے کہیں زیا دہ بڑ ھا دیا ہے ،یہ کیفیت ظاہر کر تی ہے کہ دنیا کے تمام معاشرے اور ریا ستیں ایک ایسے بحران میں داخل ہو چکی ہیں جس سے نکلنے کی ہر تد بیر اسے مزید گہرا اور وسیع بنا رہی ہے ،قومی ،علا قا ئی اور سیاسی و فو جی تنازعات کی اشکال میں شدت اختیار کر نے والا یہ بحران درا صل اس سر ما یہ درا نہ و سامرا جی اقتصادی زوال پذیری کا بھیا نک عکس ہے ،جس نظام پر بحران زدہ ریاستوں اور معا شروں کے معا شی و سیاسی اور سما جی ڈھا نچے استوارہیں ، مختلف علا قا ئی و عا لمی طا قتوں کے در میان بڑھتے ہو ئے تضادات جو سمت اختیار کر چکے ہیں اس کا نتیجہ آخر کار جنگ کی صورت میں نکلتا ہے ، چا ہے یہ جنگ برا ہ راست ہو یا پراکسی ، اقتصادی و نفسیا تی ہو یا سرد اور گرم جنگ ، غرض جنگ کی متنوع صورتوں کا ابھار نا گزیر ہے ،جس کا آغاز آج سے کا فی پہلے ہو چکا ہے ۔

تا ہم درج ذیل وا قعات جو علا قا ئی وعالمی تصادم خیز صورتحال کو مزید بے قا بوبنانے کا با عث بن سکتے ہیں حالیہ جنگی ما حول میں شدت پیدا کر نے کے غا لب امکا نات کو نما یاں کر تے ہو ئے دکھا ئی دیتے ہیں ،ان واقعات میں تر کی میں جا ری ریا ستی ، سیاسی و سما جی انتشار اور حا لیہ بغاوت ،فرانس کے سیا حتی مقام پر دا عش کی کارروا ئی میں در جنوں افراد کی ہلا کت ، فلپا ئن کی در خواست پر بحیرہ جنوبی چین کے جزا ئر کی ملکیت کے دعوؤں پر عا لمی عدا لت کا چین کیخلاف فیصلہ ، بر طا نیہ کی بذ ریعہ عوا می ریفرنڈم یورپی یو نین سے علیحد گی ،طور خم سر حدی گیٹ اور کشمیر ایشو پر پا کستان کے افغانستان اور بھا رت کے در میان پا ئی جا نے وا لی کشیدگی میں مزید اضا فہ اور پا کستان و امریکہ کے ما بین بڑھتی ہو ئی سرد مہری قا بل ذکر ہیں ،۔

جبکہ اس خطے اور شام سمیت مشرق وسطیٰ میں جا ری بحران کی نت نئی اشکال جن میں حال ہی میں مسلم امہ کیلئے انتہا ئی عقیدت و احترام رکھنے والے تا ریخی مقام مدینہ منو رہ سمیت سعودی عرب کے مختلف اہم ترین مقا مات پر ہو نے وا لے پے در پے بم دھما کے و خو دکش حملے بھی قا بل ذکر ہیں، جو یہاں حالات کی سنگینی میں مزید اضا فے کا بر ملا اظہار ہیں ، دوسری طرف سامرا جی مغر بی ریاستوں و معا شروں میں جا ری دا خلی ٹوٹ پھو ٹ ، بے چینی اور قو می و طبقا تی تضادات کے گرد بڑھتی ہو ئی کشمکش ایک ایسے پیش منظر کو تشکیل دے رہی ہے جہاں انقلاب اور رد انقلاب دونوں ہم سفر نظر آتے ہیں ، جبکہ امریکہ میں نسلی تضاد شدت اختیار کر تے ہو ئے مسلح تصادم کی طر ف بڑھ رہا ہے ۔

اس تمام تر تنا ظر میں جہاں دنیا بھر کی ریاستوں و معاشروں کا بھاری اکثر یتی حصہ شدید دا خلی و خار جی تنازعات ،انتشار اور سیا سی و معا شی بحرا نوں کا شکار نظر آتا ہے وہاں دنیا کی سیاست و معیشت اور قسمت کا فیصلہ کر نے کا اختیار و طا قت رکھنے وا لی عالمی سامرا جی طاقتیں با ہم دست و گریبان اور ایک دوسرے کے وجود اور با لا دستی کے خاتمے کے در پے دکھا ئی دیتی ہیں ، جو عا لمی سامراج میں پڑ نے وا لی پھو ٹ کا نما یاں مظہر ہے ، یہ پھوٹ غیر متوقع نہیں ہے پھر بھی بعض لو گوں کیلئے یہ حیران کن اور انہونی ہے ،یہ صورتحال ایسے لوگوں کیلئے کسی صدمے سے کم نہیں جو سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجیت کو دائمی استحکام کا حامل خیال کرتے ہوئے سرمایہ دارو سامراج دشمن حریت پسند انقلابی فکروعمل سے تو بہ تائب ہوچکے ہیں ۔

سرمایہ داری اور سامراجیت میں امن و استحکام اور ترقی و خوشحالی کے متلاشی یہ لوگ آج ایک ایسی بند گلی میں نظر آتے ہیں جہاں سامراجیت اپنے انجام کو پہنچ رہی ہے، تاہم اب بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو یا تو نا سمجھی یا پھر مفاداتی طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ حالیہ تصادم خیز حالات نا قابل گرفت نہیں اور سامراجی فارمولوں کے تحت بحرانوں اور تصادموں کی موجودہ دلدل سے با آسانی باہر نکلا جا سکتا ہے ، جس کیلئے قیاس کیا جا رہا ہے کہ ترقی پذیر یا تیسری دنیا کے ان خطوں کی از سر نو جغرافیائی حد بندی کر دی جائے ،جو مسلح تصادموں ،انتشار اور خانہ جنگیوں کا شکار ہیں ،اس ضمن میں مشرق وسطیٰ سمیت مغربی ایشیاء سب سے زیادہ توجہ کا مرکز اور اس تجربے کا اولین تختہ مشق تصور کیا جا رہا ہے ، اس حوالے سے عظیم تر مشرق وسطیٰ کے نام سے ایسے مغربی سامراجی پلان کی باز گشت سنائی دے رہی ہے جس کا مقصد سامراجی مفادات کے تحت خطے کی تقسیم کی سو سالہ پرانی لکیروں کو مٹا کر ایسی نئی لکیروں کو کھینچنا ہے جو سامراجی قوتوں کے مفادات اور موجودہ حالات کے تقاضوں کو بخوبی پورا کر سکے ۔

مشرق وسطیٰ میں شدت اختیار کرنے والے قومی ، مذہبی وفرقہ وارانہ بنیادوں پر خانہ جنگیوں وباہمی تصادموں کے ابھار کا ذمہ دار ایک صدی قبل فرانس اور برطانیہ کے درمیان طے پانے والے اس خفیہ معاہدے کو بھی قرار دیا جاتا ہے ، جس میں پہلی جنگ عظیم کے دوران سلطنت عثمانیہ کو تحلیل کرنے کیلئے دونوں سامراجی طاقتوں کا مشرق وسطیٰ کو تقسیم کرنا مقصود تھا ، یہ خفیہ معاہدہ فرانسیسی سفیر فرالکوئس جورجز پیکوٹ اور برطانوی سیاسی رہنما مارک سائیکس کے درمیان طے پایا جو پیکوٹ سائیکس معاہدے کے طور پر مشہور ہوا، اس معاہدے کے تحت مشرق وسطیٰ کو بلاد الشام اور بلاد الرافدین (میسو پوٹیمیا، عراق کا پرانا نام )کے علاقوں کو فرانس وبرطانیہ کے اثر ورسوخ والے علاقوں میں تقسیم کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ۔

کہا جاتا ہے کہ اس معاہدے کا مقصد مستقبل کی قومی ریاستوں میں ہم آہنگی اور داخلی یگانگت پیدا کرنے کی بجائے یورپی سامراجی طاقتوں کیلئے مشرق میں آسانیاں پیدا کرنا تھا، یہی وہ مقاصد تھے جن کے حصول کیلئے فرانس کی بلاد الشام اور برطانیہ کی بلاد الرافدین یعنی عراقی علاقوں میں مداخلت بڑھ گئی جس کے نتیجے میں خطے میں ایک نئے بگاڑ نے جنم لیا ، جو بدلتے وقت کے ساتھ اس خطے میں پیدا ہونے والے تنازعات اور بحرانوں میں اضافہ کرتا چلا گیا، امریکی سرپرستی میں مغربی سامراجی بلاک نے خطے کو کمیونزم سے محفوظ رکھنے اور یہاں پائے جانے والے اہم ترین مفادات کے حصول کیلئے یہاں شخصی آمرانہ حکومتوں اور بادشاہتوں کی نہ صرف بھر پور پشت پناہی کی بلکہ فوجی و غیر فوجی آمرانہ حکومتوں کے قیام کیلئے بھی کلیدی کردار ادا کیا ۔

چند سامراج نواز حکمران خاندانوں کی آمریت اور قومی جمہوری انقلاب یا تبدیلی کے تقاضوں کو پورا نہ کرنے کے باعث یہ ریاستیں حقیقی طور پر قومی شکل اختیار نہیں کر سکیں اور یہاں کے معاشروں میں پائی جانے والی قومی، مذہبی اور فرقہ وارانہ تقسیم ختم ہونے کی بجائے ہر بحران و انتشار کے دوران شدت آمیز نظر آئی جو آج انتہائی خونریز شکل اختیار کر گئی ہے ، جس سے چھٹکارے کیلئے پرانے اور آزمودہ سامراجی طریقہ کار کو دوبارہ اختیار کیا جا رہا ہے، جن سامراجی مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے مشرق وسطیٰ کی تقسیم کا سوال ابھارا جا رہا ہے، اُسے بعض تجزیہ کار پرانی غلطیوں کو نئے انداز میں دہرانے سے تعبیر کر رہے ہیں ۔ ان حلقوں کے مطابق جس دور میں پیکوٹ سائیکس معاہدہ عمل میں لایا گیا اس وقت عالمی سامراجی طاقتوں کی دنیا بھر کے پسماندہ اور قیمتی وسائل سے مالا مال و وسیع منڈیوں کے حامل خطوں پر نو آبادیاتی قبضہ گیری اپنے عروج پر تھی ، اور یہی وہ دور تھا جب ان استعماری طاقتوں نے دنیا کا بٹوارہ مکمل کر لیا تھا، اور دنیا کا کوئی ایسا خطہ باقی نہیں بچا تھا جو ان استعماری قوتوں کے تسلط یا کنٹرول سے باہر ہو ،۔

اس دوران اور اس کے بعد مقبوضہ نو آبادیاتی خطوں میں سامراجی طاقتوں نے جن قومی ریاستوں کی تشکیل عمل میں لاتے ہوئے جغرافیائی تقسیم کی وہ ان خطوں میں آباد مختلف اقوام اور یکساں تہذیب و تمدن کی حامل انسانی آبادیوں کو چیر پھاڑ کر کے بنائی گئیں ، جس میں ایک قومی خطے کو کئی جغرافیائی ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا ، جس کی عکاسی کرد قومی سر زمین کی عرب و عجم پر مشتمل پانچ ’’قومی ریاستوں ‘‘میں تقسیم کی صورت میں نظر آتی ہے، جبکہ عرب قوم پر مشتمل ایک وسیع تر قومی جمہوری ریاست کے قیام کی بجائے عرب خطے کو مختلف جغرافیائی حصوں میں تقسیم کر دیا گیا اور ان ریاستوں کی حکمرانی کی باگ ڈور مخصوص استعمار کے کاسہ لیس بالادست حکمران خاندانوں کے سپرد کر دی گئی، مغربی اور جنوبی ایشیاء کی مختلف ریاستوں میں تقسیم بلوچستان کے جغرافیہ کو توڑنے میں بھی انہی سامراجی طاقتوں کا بنیادی و کلیدی کردار ہے ۔

دنیا کا یہ بٹوارہ اگرچہ طویل جنگ وجدل اور سامراجی طاقتوں کے مابین مسلسل کشمکش کے دوران عمل میں آیا تاہم اس بندر بانٹ کو عملی صورت بھی اس وقت ملی جب فیصلہ کن عالمی استعماری طاقتیں اس پر چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے باہم متفق ہوئیں ، اس تقسیم کی بین الاقوامی قبولیت ایک عالمگیر سامراجی اتفاق رائے کو ظاہر کرتی ہے ، لیکن آج جغرافیائی تقسیم کیلئے درکار متعلقہ ریاستوں و خطوں میں داخلی و خارجی سطح پر ٹکراؤ ،تصادم ، خانہ جنگی بحران و انتشار اور سماجی ٹوٹ پھوٹ کا عمل تو انتہا کو چھو رہا ہے مگر عالمی و علاقائی طاقتوں میں نئی جغرافیائی تقسیم کیلئے وہ اتفاق رائے تا حال پیدا نہیں ہو سکا ہے ، جو ایک صدی یا چند دہائیوں قبل نظر آتا تھا، بعض تجربہ کار اس کا سبب سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام میں روز بروز بڑھتی ہوئی گراوٹ اور زوال پذیری کے علاوہ ابھرتی ہوئی سامراجی کردار و صلاحیت کی حامل نئی عالمی و علاقائی طاقتوں اور ایک صدی سے زائد عرصہ سے دنیا پر حکمرانی کرنے والی امریکہ سمیت مغربی قوتوں کے مابین بڑھتے ہوئے ناقابل مصالحت تضادات تصور کئے جاتے ہیں ۔جبکہ اسے مزید پیچیدہ بنانے میں مغربی سامراجی بلاک میں جاری داخلی ٹوٹ پھوٹ بھی اہم کردار ادا کر رہی ہے ۔

کہا جاتا ہے کہ امریکہ مشرق وسطیٰ کو نئی جغرافیائی شکل دینے کیلئے سر گرم ہے ، جس میں اسے اپنے روایتی یورپی اتحادیوں کی حمایت و تعاون بھی حاصل ہے ، لیکن یہ نئی نقشہ سازی متعلقہ و متاثرہ اقوام کی حقیقی آزادی اور ان کی خواہشات و امنگوں اور تاریخی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے نہیں بلکہ مخصوص نو آبادیاتی مقاصد کی تکمیل کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کی غرض سے وجود میں لائی جائے گی، ان نقشہ سازوں کی پوری کوششں ہے کہ ایک ایسا نیا مشرق وسطیٰ بنایا جائے جس میں ان کے سامراجی مفادات کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے اور وہ بلا شرکت غیرے اس کی سیاست و معیشت پر غالب وقابض رہیں ، اور مجوزہ نقشہ سازی کے تحت وجود میں آنے والی محدود اقتدار اعلیٰ کی حامل ریاستیں ان طاقتوں کے مفادات کی چوکیداری کا فریضہ تابعداری وفاداری سے ادا کرتی رہیں ۔

یہ وہ عزائم و مقاصد ہیں جو ایک نئے ’’عظیم تر مشرق وسطیٰ‘‘کے قیام کی کوششوں کے پس پردہ کارفرما بیان کئے جاتے ہیں ، لیکن اس منصوبہ بندی پر عملدرآمد کی راہ میں عالمی اور اس مجوزہ تقسیم سے متاثر ہونے والی علاقائی طاقتوں کے درمیان عدم اتفاق ایک ایسی رکاوٹ بن گیا ہے ، جسے عبور کرنا قریب قریب ممکن نظر نہیں آتا ، یہ عدم اتفاق اگر سفارتی سطح تک محدود رہتا تو شاید زیادہ بھیانک نتائج کا حامل نہ ہوتا مگر اس اختلاف نے عداوت کی شکل اختیار کر کے فریقین کو جنگی میدان میں گھیسٹ لیا ہے، جہاں یہ جنگ کی مختلف صورتوں میں ہر طرف تباہی و بربادی پھیلا رہے ہیں ،اس رکاوٹ میں خطے کی ان ریاستوں کے اپنے مغربی سامراجی اتحادیوں سے جنم لینے والے تضادات بھی شامل ہیں جس کے نتیجے میں امریکی و یورپی اتحاد کے ترکی و سعودی عرب سمیت خطے کے دیگر حلیفوں کے ساتھ تعلقات میں وہ گرم جوشی دکھائی نہیں دے رہی ہے جو کبھی ہوا کرتی تھی ، خاص طور پر ترکی اور سعودی عرب خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال میں امریکی کردار سے مطمئن نظر نہیں آتے۔

اس سلسلے میں ترکی صرف مایوس ہی نہیں بلکہ اپنے روایتی امریکی و یورپی اتحادیوں سے شدید نالاں اور تلخ کلامی کا شکار نظر آتا ہے ، صدر طیب اردوان کی قیادت میں ترکی کے رویے میں تلخی وہاں گذشتہ ماہ فوجی بغاوت کی نا کام کوشش کے بعد کھل کے سامنے آگئی ہے ، ترکی نیٹو کی صورت میں امریکی و یورپی فوجی بلاک کا اہم ترین پرانا رکن ہے ، اور سرد جنگ کے دور سے لے کر اب تک امریکی پیروکاری میں پیش پیش رہا ہے ، لہٰذا بعض لوگوں کیلئے وہ لمحات کافی حیران کن تھے جب صدر اردوان ترکی میں ناکام بغاوت کے ڈانڈے اپنے انہی اتحادیوں کی سر زمین سے ملا رہے تھے، اس دوران امریکہ کی طرف بڑے واضح اور کھلے اشارے کئے گئے جس پر امریکہ کو اعلیٰ سرکاری سطح پر اس کی وضاحت اور تردید کرنا پڑی ۔

ابھی امریکہ سے بد اعتمادی ختم نہ ہوئی تھی کہ ناکام بغاوت کے وائرس کے مکمل خاتمے کی مہم پر صدر طیب اردوان اور یورپی یونین کے درمیان شدید مخاصمت شروع ہوگئی ہے ، یورپی یونین نہ صرف ناکام بغاوت میں حصہ لینے والوں کو کڑی ترین سزا دینے کیلئے ترکی میں سزائے موت کی بحالی کے حکومتی بیانات پر شدید ردعمل ظاہر کر چکی ہے ، بلکہ تعلیم و عدلیہ سمیت مختلف ریاستی اداروں میں حکومتی کریک ڈاؤن اور اساتذہ و ججز سمیت ہزاروں افراد کی گرفتاریوں اور ملازمتوں سے بر خاستگی ومعطلی کے اقدامات کی شدید مخالفت کرتے ہوئے اردوان حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے ، اور انسانی حقوق کی پا مالی سے اجتناب برتنے کی تلقین کی گئی ہے، جبکہ خلاف ورزی بر قرار رکھنے کی صورت میں ترکی کویورپی یونین میں شامل نہ کرنے کی دھمکی آمیز تنبیہ بھی کی گئی ہے ، جس پر ترکی کا جواب تھا کہ فرانس اپنے کام سے کام رکھے۔

طیب اردوان کا یہ رویہ ان کے جارحانہ انداز کو ظاہر کرتا ہے ، اور اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ موجودہ ترک حکومت کو اپنے نیٹو اتحادیوں اور ان سے وابستہ اہم ترین داخلی و خارجی سیاسی ، معاشی اور دفاعی مفادات کی کوئی پرواہ نہیں ہے ، ترک خارجہ پالیسی میں اپنے مغربی اتحادیوں کے ساتھ مخاصمت کی کڑیاں صدر اردغان کی حکمرانی کو درپیش داخلی بحران اور اس سے نمٹنے کیلئے اختیار کردہ داخلی پالیسیوں سے بھی ملائی جا رہی ہیں ،جہاں بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ صدر طیب اردوان جمہوریت مخالف اور آمرانہ طرز حکمرانی کی طرف بڑھ رہے ہیں ،یہ آمرانہ روش محض بغاوت کی ناکامی کے بعد ہی پیدا نہیں ہوئی ہے بلکہ اس کے مظاہر کردوں کیخلاف بد ترین فوجی کریک ڈاؤن ، اظہار رائے اور آزادانہ صحافت پر لگائی جانے والی قدغن اور صدر اردغان کی ذات میں حکومتی طاقت و اختیار کے بڑھتے ہوئے ارتکاز کی صورت میں بغاوت سے بہت پہلے نظر آنا شروع ہو گئے تھے۔

طیب اردوان کے اسی طرز حکمرانی کے نتیجے میں ترکی میں داخلی طور پر کرد تنازعے سمیت مختلف سیاسی و اقتصادی مسائل و تضادات کے گرد عدم استحکام اور اندرونی خلفشار کا ایک خوفناک طوفان سر اٹھا رہا ہے ، جبکہ معاشی میدان میں تیزی سے ترقی کرتا ہوا ترکی آج شدید اقتصادی بحران سے دو چار ہے ، جس کی کرنسی کی قدر میں حالیہ دنوں نمایاں کمی آئی ہے ، اس اقتصادی عدم استحکام نے صدر طیب کے گھمنڈ کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا ہے ، اور وہ ماضی میں کئے گئے بلند بانگ دعوؤں کے بر عکس روس سے معافی مانگنے پر مجبور ہو گئے ہیں ،یہ معافی شام میں ترکی کی طرف سے روسی طیارے کو مار گرانے کے سلسلے میں مانگی گئی حالانکہ جب یہ روسی جنگی جہاز ترک سرحد کی خلاف ورزی کے نام پر مار گرایا گیا تھا تب نیٹو صدر اردوان کی معافی نہ مانگنے کے لئے بھر پور پشت پناہی کر رہا تھا، تب صدر اردوان کا دو ٹوک موقف تھا کہ روسی جنگی طیارے کو مار گرانے کا ترک اقدام غلطی نہیں بلکہ قانونی اور درست اقدام تھا جس پر وہ روس سے قطعی معافی نہیں مانگیں گے ، جس کے جواب میں روس نے ترکی سے تمام سیاسی و اقتصادی تعلقات اور تجارتی لین دین بند کر کے اپنے شہریوں کو ترکی جانے سے روک دیا تھا جو لاکھوں کی تعداد میں سیاحت کیلئے وہاں جاتے تھے جس سے بعض اندازوں کے مطابق ترکی کو سالانہ دس ارب ڈالر کی آمد ن ہوتی تھی ۔

اس کے ساتھ خوراک اور دیگر اشیاء و مصنوعات کی تجارت اور بر آمد سے بھی کافی معاشی فائدہ پہنچ رہا تھا ، تاہم اس کلیدی اقتصادی محرک کے باوجود صدر اردغان کی روس سے قربت بڑھانے کی کوششوں میں اس کے امریکہ و یورپ سے پیدا ہونے والے تضادات کا بھی اہم کردار شامل ہو سکتا ہے، کیونکہ اس کے نیٹو اتحادیوں کی خطے میں ایک خود مختار کرد ریاست کے قیام میں دلچسپی کے پیش نظر ترکی کو یہ خدشہ لا حق ہو سکتا ہے کہ کہیں خطے کی نئی جغرافیائی تقسیم میں اندرون خانہ اسے بھی شامل نہ کیا گیا ہو اور ایک صدی قبل عثمانی ترک سلطنت کو تحلیل کرتے ہوئے خطے کی تقسیم کیلئے جس پیکوٹ سائیکس معاہدے نے جنم لیا تھا اس کی تاریخ کو نئے انداز میں دہرایا نہ جائے ۔ترکی کے ان خدشات کو یورپی یونین کی طرف سے کردوں کیخلاف کریک ڈاؤن پر اردوان حکومت سے بڑھتے ہوئے اختلافات تقویت پہنچا رہے ہیں ، جس سے نمٹنے کیلئے اردوان حکومت نیٹو اتحادیوں کو جوابی دباؤ میں لانے کیلئے روس سے بگڑتے ہوئے تعلقات کو سنوارنے کی کوشش کر رہی ہے۔

اس کے علاوہ اہم ترین تبدیلی شام سے ازسر نو تعلقات کی بحالی کے دئے جانے والے اشارے ہیں ۔ مبصرین کے مطابق اردوان حکومت کی خارجہ پالیسی میں نظر آنے والی یہ تبدیلی ظاہر کرتی ہے کہ وہ اس خطرے کو بھانپ چکی ہے جو ترکی کی جغرافیائی و داخلی سالمیت ، یک جہتی اور سیاسی و سماجی امن و استحکام کو لاحق ہو چکا ہے ، تجزیہ کاروں کے خیال میں تنازعے کا درست حل اس وقت تک نہیں نکلے گا جب تک ترکی کے زیر انتظام کرد علاقے کو مجوزہ کرد ریاست کا حصہ نہ بنایا جائے ، جس کی راہ میں حائل ہونے کیلئے ترکی جنگ و جدل سمیت ہر راستہ اختیار کر سکتا ہے ، جو نا گزیر طور پر مشرق وسطیٰ سمیت خطے کی جغرافیائی تقسیم کے سوال پر ترکی کے جارحانہ کردار کو بڑھانے تک محدود نہیں رہے گا بلکہ ترکی اور مغرب کے درمیان اختلافات اور مخاصمت میں اضافہ بھی کرے گا۔

یہ ممکنہ پیش منظر ظاہر کرتا ہے کہ مشرق وسطیٰ سمیت پورے خطے کی بعض سامراجی قوتوں کے مقاصدو مفادات کے تابع جس از سر نو جغرافیائی تقسیم کا مبینہ و مجوزہ پلان تشکیل دیا گیا ہے اس کی نہ تو کامیابی کے امکانات ہیں اور نہ ہی تاریخی جداگانہ قومی شناخت و سر زمین رکھنے والی اقوام کی حقیقی اور مکمل جغرافیائی اور سیاسی و معاشی آزادی تسلیم کئے بغیر خطے میں قومی سوال کا حل ممکن ہو سکے گا ۔ البتہ اس سے خطے پر بالادستی کیلئے مختلف حریف عالمی و علاقائی سامراجی طاقتوں کے درمیان ٹکراؤ مزید بڑھ جائے گا ، اور ان حریف سامراجی طاقتوں کے درمیان دنیا کے مختلف حصوں میں پائے جانے والے شدید تضادات کے گرد جاری کشمکش و کشیدگی اس خطے کو عالمی جنگ کا مستقل یا طویل مدتی جنگی میدان میں بدل دے گی جس کی جھلک آج اس خطے میں جاری سامراجی طاقتوں کے مابین پراکسی جنگ میں نمایاں نظر آتی ہے ، جو زیر نظر تحریر کے آغاز میں پیش کردہ مختلف سامراجی قوتوں کے مابین کشمکش و کشیدگی کے حامل عالمی واقعات اور تغیرو تبدل سے مزید پیچیدہ اور شدت آمیز صورتیں اختیار کر سکتی ہے ، جہاں ہر کوئی اپنے حریفوں کی کمزوریوں اور مجبوریوں کا بھر پور فائدہ اٹھانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

اس کیفیت میں عالمی و علاقائی طاقتوں کا کمزور اور خلفشار وعدم استحکام کا شکار ہونا لازمی ہے ، جس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ اور اس سے متصل و اطراف میں واقع خطوں میں رد انقلابی ابھار کے علاوہ قومی و طبقاتی جبر اور محکومی سے نجات کی حریت پسند انقلابی تحریکات کے ابھرنے اور کامیابی کے بھی مواقع پیدا ہو نگے، اور محکوم اقوام و مظلوم عوام الناس کی انقلابی تحریکات کو قابو کرنا بالادست سامراجی طاقتوں اور ان کی حواری ریاستوں کیلئے آسان نہیں ہو گا ۔ لہٰذا سامراج میں پڑنے والی پھوٹ اور اجاہ داریوں پر قائم سرمایہ دارانہ معاشی و سیاسی نظام کے بڑھتے ہوئے بے قابو بحران کے حالیہ دور میں قومی و طبقاتی آزادی اور انقلاب کیلئے سر گرم تحریکات کو عالمی وعلاقائی سطح پر ایک ایسے وسیع متحدہ پلیٹ فارم کی طرف بڑھنا ہو گا ، جو مشرق وسطیٰ اور اطراف کے خطوں میں نئی قومی حد بندیوں کے سوال کو سامراج کے ہاتھوں سے چھین کر اپنے ہاتھوں میں لے سکے ۔

اس تناظر میں بلوچستان کے تنازعہ کے درست حل اور تحریک کی کامیابی کیلئے بھی بعض تجزیہ کار سامراج دشمن انقلابی راستے کو درست تصور کرتے ہیں ۔ ان حلقوں کے مطابق مشرق وسطیٰ سمیت مغربی ایشیا میں کسی بھی قسم کی جغرافیائی تقسیم اور سیاسی و سماجی خلفشار کے اثرات سے بلوچستان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا ، کیونکہ خطے میں ماضی کی سامراجی جغرافیائی تقسیم کی زد میں بلوچستان بھی آیا تھا، اور اسے جنوبی و مغربی دو ایشیائی خطوں کی ریاستوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا،جس کے باعث بلوچ قومی تنازعے سے پیدا ہونے والا عدم استحکام دونوں خطوں کی سیاست و معیشت کو متاثر کر رہاہے، جسے حل کئے بغیر خطے میں امن و استحکام کا سوال پوری شدت سے موجود رہے گا ۔ 

Comments are closed.