کیا معافی کے بعد پاکستان دہشت گردی کا منبع نہیں رہے گا

0,23450حسن مجتبیٰ۔ نیویارک

سولہویں صدی کے روم اور آج کے اٹلی میں ایک عظیم ریاضی ،دان طبیعا دان اور فلاسفر گلیلیو گذارا ہے جسے فلکیاتی دریافت کا باوا آدم مانا جاتا ہے ۔ گلیلیو نے روم کے چر چ اور پادریوں میں اس وقت زبردست تہلکہ برپا کر دیا تھا جب اس نے دریافت کیا تھا کہ زمین سورج کے گرد چکر لگاتی ہے ۔ اس پر گویا کہ روم کے پاپائے اعظم اور چرچ کے کرتا دھرتاؤں کے پیروں سے گلیلیو کی ایسی بات کرنے سے زمین سرک گئی تھی۔

گلیلیو کے خلاف تمام روم کے پادری جو اصل ریاستی طاقت بھی رکھتے تھے سراپا غضب بن گئے تھے اور چرچ نے اسے سخت سے سخت سزا دینے کا فیصلہ صادر کیا تھا۔ اس سائنس دان اور فلسفی کی زندگی جہنم بنا دی گئی تھی۔ توہین مذہب کے فتوے صادر ہو گئے تھے ۔ پورا روم ایک طرف اور گلیلیو ایک طرف تھاکیونکہ اس وقت کے پڑھے لکھے لوگ بھی ارسطو کے اس نظریے پر یقین رکھنے والے تھے کہ تمام تر آسمانی چیزیں زمین کے گرد چکر لگاتی ہیں اور چرچ کا بھی مذہبی عقیدہ یہی تھا ۔ بس پھر کیا تھا ایک طوفان بدتمیزی گلیلیو کے خلاف برپا کر دیا گیا تھا۔ گویا کہ دوزخ کے دروازے اسے جہنم رسید کرنے کو کھول دیئے گئے تھے۔

لیکن آخر میں گلیلیو سے کہا گیا کہ وہ اپنی اس بات پر کہ زمین سورج کے گرد چکر لگاتی ہے چرچ سے معافی مانگ لے۔ گلیلیو کو مجبور کر دیا گیا ۔ اس عظیم سائنس دان نے چرچ سے معافی مانگتے ہوئے پھر بھی یہ کہا تھا کہ معافی تو مانگ رہا ہوں لیکن پھر بھی زمین سورج کے گرد چکر لگاتی رہے گی اور اس طرح کائنات کا نظام چلتا رہے گا۔

یہ مجھے اس وقت یاد آیا جب کل متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم) کے بانی الطاف حسین کو ان کی کراچی پریس کلب کے سامنے بیٹھے ان کے کارکنوں کے بھوک ہڑتالی کیمپ میں سینکڑوں لوگوں سے ’’ ممنوعہ ‘‘ خطاب پر پاکستان کے اصلی تے وڈے چودھری یعنی جرنیل یا نام نہاد ایسٹیبلشمنٹ اور ان کے حاشیہ بردار الیکٹرانک میڈیا ان کی اس بات پر غضب در غضب میں آگئے کہ ’’ پاکستان دنیا میں دہشت گردی کا بھونچالی مرکز یا ایپی سنٹر ہے۔ ایک رستا ہوا ناسور ہے اور یہ کہ پاکستان مردہ باد‘‘۔

ان کی ایسی بات نے نہ صرف جرنیلوں ، جاسوسی کے اداروں ، فوج رینجرز حتیٰ کہ ان کے کئی ساتھیوں کے پیروں سے بھی گویا زمین کھسکا دی۔ پھر وہی ہوا کہ چوبیس گھنٹوں سے بھی کم وقت میں بھائی صاحب کو ’’ شدید ذہنی دباؤ‘‘ میں ہونے کے عذر پر جرنیلوں سے معافی مانگنا پڑی۔

لیکن مسئلہ اور مشکل یہ ہے کہ الطاف حسین سے معافی منگوائے جانے کے باوجود بھی پاکستان دہشت گردی کا منبع رہے گا۔ دنیا کے لیے رستا ہوا ناسور اس وقت تک رہے گا جب تک اس کے کرتا دھرتا اسے ٹھیک نہیں کرتے۔ اسے ٹھیک کرنے کی سیاسی نیت نہیں رکھتے۔ اپنے ہی عوام کوہر وقت فتح کرنے کے زعم اور اپنے نیو کلئیر تعصبات سے باہر نہیں آتے۔ عوام کی مرضی اور اس کے اقتدار اعلیٰ کے حق اور ملک کی آبادی کے حساب سے چھوٹی قومیتوں اور لسانی اکائیوں کے حقوق اور شہریوں کے انسانی حقوق کا احترام نہیں کرتے۔ ریاستی طاقت سے ہر تحریر اور اٹھنے والے سر یا آواز کو دبانے کی پالیسی ترک نہیں کرتے لیکن ایسا شاید ہی ہماری اور آپ کی زندگیوں میں ممکن ہو سکے۔

یہ بہت ہی تشویش کی بات ہے کہ الطاف حسین نے ایسی بات اور نعرہ بقول ان کے پاکستان بنانے والوں کی اولاد کے سامنے لگایا۔ اس پر ملک کے بنے ہوئے ماموں کو سوچنا چاہیے تھا کہ ان کی ایسی پالیسیوں سے اب کراچی سمیت سندھ اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ پاکستان بنانے والوں کی اولادیں اس طرح کی بات کر رہی ہیں ۔ اس طرح کا نعرہ لگا رہی ہیں۔ لیکن پاکستان بنانے والوں کی اولاد کا جو حشر پاکستان بنانے والوں سے اس ریاست نے کیا جو اب اسلامی ری پبلک آف پاکستان نہیں انٹیلی جنس ری پبلک آف غائبستان بن چکی ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں بلکہ تاریخ کا حصہ ہے ۔

دور کیوں جاتے ہو خود اپنے ہی ہمسایوں اور اڑوس پڑوس میں پھلتے پھولتے بنگالی بھائیوں کو دیکھو وہ جو کل تک آپ کے ہم وطن تھے کلمہ گو بھائی تھے لیکن ان سے جو حشر آپ نے کیا تھا اس سے اب وہ ایک آزاد ملک بنگلہ دیش کے باشندے اور پیدائشی ہیں۔جن سے آپ نے وہی سلوک کیا تھا جو کراچی سمیت سندھ سے کر رہے ہو۔ اردو بولنے والوں اور سندھیوں سے کر رہے ہو۔ بلوچوں سے کر رہے ہو، پختونوں سے کر رہے ہو اور خود آپ کی پالیسیوں سے اتفاق نہ کرنے وال ہزاروں پنجابیوں سے کر رہے ہو۔

پاکستان بنانے والوں کی اولاد کیا بیچتی ہے اس کے ملک کے ماموں اور ملاؤں نے یعنی ملا ملٹری اتحاد نے جو سلوک جی ایم سید سے کیا، خان عبدالغفار خان باچا خان سے کیا، عبدالصمد اچکزئی اور اس کے غائب بیٹے سے کر رہے ہو۔ ملک جیلانی اور ان کی بیٹیوں سے کر رہے ہو جو شیخ مجیب سے کیا تھا وہ حشر آپ الطاف حسین اور اس کے حمایتی عوام سے کر رہے ہو۔ جن کو آج بھی تم ہندوستانی مانتے ہو۔ جی ایم سید اس ملک کے بنانے والوں میں شامل تھے بلکہ جناح صاحب کو کراچی سمیت آج کے سندھ میں متعارف کروانے والے تھے۔ عوامی سطح پر انہیں غدار قرار دیا اور تمام عمر جیلوں میں ڈال رکھا گیا۔

پاکستانی سیاست میں پچاس ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں جو بات جی ایم سید اور غفار خان، مری مینگل کیا کرتے تھے وہ بات آج الطاف حسین کر رہے ہیں۔ کیا پاکستان واقعی دہشت گردی کا منبع نہیں ہے۔ جنوبی ایشیا ئی اور دنیا کے امن کے لیے رستا ناسور نہیں ہے، دہشت گردوں کو پالنے کے حوالے سے ۔

یہی بات بات جب سابقہ سوویت یونین کے صدر میخائل گوربا چوف نے سرد جنگ کے زمانے میں کہی تھی تو ان کے خلاف بھی حکمران کمیونسٹ پارٹی اور ایسٹیبلشمنٹ متحرک ہو گئی تھی۔ جب انہوں نے کہا تھا کہ سوویت یونین افغانستان کے حوالے سے ناسور بن گیا ہے۔ گوربا چوف زیر عتاب تو آیا مگر سوویت یونین کو ٹوٹنا تھا ٹوٹ گیا کہ چھوٹی ریاستوں کے قومی حقوق دبائے بیٹھا تھا ، تحریر و تقریر پر قدغن لگائے بیٹھا تھا۔آج کے سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ کے دور میں پاکستان میں الطاف حسین کی تصاویر اور ان کی تقریروں پر بندش ہے۔

الطاف حسین سے میرے لاکھ اختلافات سہی ، ان کی مہاجر حقوق سے زیادہ مہاجر صہونیت پر مبنی ان کی کئی پالیسیاں قابل مذمت سہی لیکن جو سلوک ان سے کیا جارہا ہے اس میں ایسا لگتا ہے کہ ان سے وہی سلوک پاکستان کی ریاست کر رہی ہے جو شیخ مجیب سے روا رکھا گیا تھا۔ الطاف حسین کاوہ خطاب جو انہوں نے کراچی پریس کلب کے باہر اپنے حامی ہجوم سے کیا تھا وہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ سے غائب کر دیا گیا ہے جس طرح پاکستان میں بندے غائب کیے جارہے ہیں ۔ غائبستانی ریاست اور اس کی اسلامی دنیا میں نیو کلئیر طاقت کے نشے میں چور فوج اس کی تقریر سے خائف ہے ، تصویر سے خائف ہے؟

اس فسطائیت کا مظاہر اس وقت دیکھنے میں آیا جو سلوک رینجرز کے بیسویں گریڈ کے افسر اور باقی کارندوں نے منتخب رکن اسمبلی ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ کراچی پریس کلب میں گھس کر کیا۔ 
یہ ایک نادر شاہی چڑھائی تھی۔ کراچی پریس کلب جو کہ ضیاء الحق کے لیے اس کی آمریت کے دنو ں میں ’’ نو گو ایریا‘‘ بنا ہوا تھا وہاں ایک رینجرز کا عمل دار اپنے کارندوں اور باوردی اہلکاروں کے ساتھ آیا اور اردو بولنے والوں کے منتخب نمائندوں کو دھکے دے کر گرفتار کر کے لے گیا۔

کراچی پریس کلب والے صحافیوں کو جیسے سانپ سونگھ گیا کسی نے احتجاج تو کیا چوں چراں تک نہ کی ویسے تو وہ کسی کے راہ بھولنے پر بھی اپنی بھنویں تان لیتے ہیں کہ اس شخص نے کراچی پریس کلب کا رخ کرنے کی جرات کیسے کی؟ اور اسی الطاف حسین کو بھی 1980کی دہائی میں اپنی ہونڈا ففٹی پر اپنا پریس ریلیز باہر کے گیٹ پر دینا پڑتا تھا۔

اور جس طرح ڈاکٹر فاروق ستار کو چند گھنٹوں میں رینجرز اور خفیہ ایجنسیوں کے زیر تحویل مشرف بہ ایسٹیبلشمنٹ کیا گیا ہے وہ بھی ایسے ہی ہے کہ بقول شخصے اپنی پریس کانفرنس میں جے آئی ٹی پڑھ رہے ہوں۔ اب تو واقعی ایسا لگتا ہے کہ الطاف حسین کے اکثر ساتھی ایجنسیوں سے ملے ہوئے ہیں بلکہ سب ملے ہوے ہیں سوائے الطاف حسین کے۔

کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے؟ یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہو گا۔

کیا واقعی اس سے ملک ٹوٹنے سے بچ سکتا ہے؟ فوجی اور سول ایسٹیبلشمنٹ کی موجود پالیسیوں کی وجہ سے ۔ کاش اردو بولنے والے اور ملک کے سندھی ، بلوچ ، پختون، سرائیکی اور پنجابی سب ایسی پالیسیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں ملک کوبچانے کے لیے۔ وگرنہ کوئی طاقت معافی منگوانے سے ملک کو بچا نہیں سکتی۔ بلوچ آپ کے خلاف ، پختون ، سندھی اور سرائیکی آپ کے خلاف تو پھر اینٹ سے اینٹ بجنا کہ بقول شخصے اینٹ ، اینٹ کا اس دیوار برلن کے گرنے سے پہلے صاف سنائی نہیں دے رہا ہے؟

Comments are closed.