ذاتی اورکتابی علم و عقل

qazi-310x387فرحت قاضی

حکایت ہے:’’ایک بادشاہ کے دو بیٹے تھے ایک آزاد منش اور آوارہ طبعیت اور دوسرا کتابیں مطالعہ کرنے میں مستغرق رہتا تھا۔
آزاد منش نے ایک روز زاد راہ لیا رخت سفر باندھا اور ملک ملک گھومنے نکل گیا زندگی کے کئی سال اسی آوارہ گردی میں گزار کر واپس آگیا دربار میں بیٹھا ہوتا کوئی مسئلہ درپیش ہوتا بادشاہ درباریوں سے حل پوچھتا۔
تو کتاب پرست کتابیں کھولتا اور ان میں حل تلاش کرنے لگتا اور وہ ابھی اپنی اس کوشش میں لگا ہوتا کہ آوارہ منش شہزادہ جواب بتا دیتا۔
تودرباری عش عش کر اٹھتے‘‘۔
ایک زمانہ تھا جب ہم ہر انسان پر بلاسوچے سمجھے اور جلد اعتبار کرلیتے تھے جبکہ اب یہ صورت حال ہے کہ اپنے عزیز ترین پر بھی کرنے سے کتراتے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گوکہ پہلے بھی دھوکے اور فراڈ ہوتے تھے مگر اب تو قدم قدم پر کھاتے ہیں اور اسی نے ہمیں ہوشیار بنادیا ہے۔
کہاوت ہے:۔
۔’’ سانپ کا ڈسارسی سے بھی ڈرتا ہے‘‘۔
ایک آدمی کی عقل میں اس کے ذاتی تجربات اور تحقیق وجستجو کی بناء پر اضافہ ہوتا رہتا ہے مثال کے طور پرمیراہاتھ کسی گرم شے سے چھو گیا ہے اور جلن ہوئی تو اس چیز اور میرے درمیان ایک رشتہ قائم ہوگیا ہے یہ کہ فلاں چیز کو چھونے سے ہاتھ جلتا ہے اور جب ہاتھ جلتا ہے تو تکلیف پہنچتی ہے لہٰذا میں آئندہ اس چیز کو ہاتھ لگانے سے گریز کروں گا۔
اسی طرح جب ہم کسی ساتھی کے ساتھ شراکت اورساجھے کا کاروبار کرتے ہیں اوروہ ہمیں دھوکہ دے جاتا ہے تو مستقبل میں ہم اس کا اعادہ نہیں کرتے اور جب بار بار دھوکے کھالیتے ہیں تو پھرکسی پر اندھا اعتبار نہیں کرتے ہیں چنانچہ یہ ٹھوکریں ہمیں چوکنااورہوشیار بنانے کا باعث بنتی ہیں ۔
انسان کی سوجھ بوجھ میں دوسروں کے تجربوں سے بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے میری یہ کتاب میرے ذاتی مشاہدات، تجربات اور مطالعہ پر مبنی ہے اس میں وہ کچھ ہے جس سے مجھے روزمرہ زندگی میں واسطہ پڑا میرے ساتھ دھوکے اور فریب ہوئے اوران افراد نے بھی دئیے جن کومیں نے دل وجان سے بھی زیادہ عزیز رکھا میری یہ کتاب میرے ذاتی تجربے ہیں تاہم قاری کے لئے یہ کسی دوسرے شخص کے تجربے ہیں لہٰذا ہمارا کچھ علم ذاتی اور تجرباتی ہوتا ہے یہ ہمیں براہ راست حاصل ہوتا ہے اور کچھ ہمیں دوسروں کے تجربات سے حاصل ہوتا ہے۔ 
اسی طرح کتابوں میں لکھی ہوئی تحریریں ضروری نہیں کہ مصنف کے ذاتی تجربات ہوں یہ دوسرے انسانوں کے تجربات بھی ہوسکتے ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ انسان اپنے تجربات سے زیادہ دوسروں کے تجربات اور مشاہدات سے سیکھتا ہے اس ضمن میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تجربات انفرادی اور اجتماعی نوعیت کے ہوتے ہیں البتہ انفرادی تجربات اور مشاہدات کا دائرہ تنگ اور محدود ہوتا ہے جبکہ اجتماعی تجربات اور مشاہدات کا دائرہ وسیع ہوتا ہے اور اس میں سیکھنے سکھانے کا عمل بھی تیز تر ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مشہور مصنفین نے جو کتابیں تحریر کی ہیں ان میں بسا اوقات مختلف شخصیات کے مشاہدات، تجربات اور علمیت کی جھلکیاں صاف نظر آتی ہیں ۔
کتاب میں لکھی باتوں کا ہمیں براہ راست تجربہ نہیں ہوتا بلکہ یہ مصنف کے تجربات اس کی تحقیق اور مشاہدات ہوتے ہیں جو ہمیں بتاتا ہے کہ اس نے کیا دیکھا کیا محسوس کیا اور اس پر اس کا کیا ردعمل مرتب ہوا کتابیں مختلف النوع ہوتی ہیں یہ کئی موضوعات پر ہوتی ہیں چونکہ کتاب ایک انسان لکھتا ہے اور انسانیت طبقات میں بٹی ہوئی ہے اس لئے یہ ضروری نہیں کہ کتاب آپ کو کچھ بتانے یا سکھانے کے بارے میں ہو بلکہ کتاب کا مقصد کچھ چھپانا بھی ہوسکتا ہے جس طرح ایک آدمی جھوٹ بولتا اور حقیقت چھپاتا ہے یہی حال ایک کتاب کا بھی ہوسکتا ہے کتاب میں جو کچھ لکھا ہے وہ سچ ہے یا جھوٹ اس کا علم آپ کو اپنے تجربہ سے ہوتا ہے ۔
ایک مصنف اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :۔
۔’’دنیا میں کام کرنے کے لئے جتنی قابلیتوں کی ضرورت ہے وہ سب انسان کو دی گئی ہیں جسمانی قوت، عقل، سمجھ، گویائی اور ایسی ہی بہت سی قابلیتیں تھوڑی یا بہت ہر انسان میں موجود ہیں لیکن یہاں اللہ تعالیٰ نے عجیب انتظام کیا ہے ساری قابلیتیں انسانوں کو یکساں نہیں دیں اگر ایسا ہوتا تو کوئی کسی کا محتاج نہ ہوتا نہ کوئی کسی کی پرواہ کرتا اس لئے اللہ نے تمام انسانوں کی مجموعی ضرورتوں کے لحاظ سے سب قابلیتیں پیدا تو انسانوں ہی میں کیں مگر اس طرح کہ کسی کو ایک قابلیت زیادہ دے دی اور دوسرے کو دوسری قابلیت تم دیکھتے ہو کہ بعض لوگ جسمانی محنت کی قوتیں دوسروں سے زیادہ لے کر آتے ہیں بعض لوگوں میں کسی خاص ہنر یا پیشہ کی پیدائشی قابلیت ہوتی ہے جس سے دوسرے محروم ہوتے ہیں اور بعض لوگوں میں ذہانت اور عقل کی قوت دوسروں سے زیادہ ہوتی ہے بعض پیدائشی سپہ سالار ہوتے ہیں بعض میں حکمرانی کی خاص قابلیت ہوتی ہے بعض تقریر کی غیر معمولی قوت لے کر پیدا ہوتے ہیں بعض میں انشاء پردازی کا فطری ملکہ ہوتا ہے کوئی ایسا شخص پیدا ہوتا ہے کہ اس کا دماغ ریاضی میں خوب لڑتا ہے حتیٰ کہ اس فن کے بڑے بڑے پیچیدہ سوالات اس طرح حل کردیتا ہے کہ دوسروں کے ذہن وہاں تک نہیں پہنچتے ایک دوسرا شخص ایسا ہوتا ہے جو عجیب چیزیں ایجاد کرتا ہے اور اس کی ایجادوں کو دیکھ کر دنیا دنگ رہ جاتی ہے ایک اور شخص ایسا بے نظیر قانونی دماغ لے کر آتا ہے کہ قانون کے جونکتے برسوں غور کرنے کے بعد بھی دوسروں کی سمجھ میں نہیں آتے اس کی نظر خود بخود ان تک پہنچ جاتی ہے یہ خدا کی دین ہے کوئی شخص اپنے اندر خود یہ قابلیتیں پیدا نہیں کرسکتا نہ تعلیم وتربیت سے یہ چیزیں پیدا ہوتی ہیں دراصل یہ پیدائشی قابلیتیں ہیں اور خدا اپنی حکمت سے جس کو جو قابلیت چاہتا ہے عطا کردیتا ہے،، ۔
مصنف ان دلائل کے ذریعے قاری کو بالواسطہ قائل کرانا چاہتا ہے:۔
بعض لوگ حکمرانی کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔
بعض سپہ سالار بننے کیلئے پیدا کئے گئے ہیں۔
بعض محنت مزدوری کے لئے دنیا میں بھیجے گئے ہیں۔
بعض لوگ قابلیت اور ذہانت لیکر پیدا ہوئے ہیں اسے خداداد صلاحیت اور قابلیت کا نام دیا گیا ہے پھر نتیجہ یا جہاں ہمیں لے جانا چاہتا ہے وہ یہ کہ کوئی شخص اپنے اندر یہ قابلیتیں پیدا نہیں کرسکتا تعلیم وتربیت سے بھی یہ خوبیاں پیدا نہیں کی جاسکتی ہیں یہی نقطہ نظر ہندوؤں کا بھی تھا انہوں نے انسان کو ذات پات میں تقسیم کیا ہوا تھا۔
اگر ہم مصنف کا یہ تصور تسلیم کرلیں کہ تعلیم وتربیت سے یہ صلاحیتیں پیدا نہیں کی جاسکتی ہیں توایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مصنف اپنے ان دلائل سے ہمیںیہ نہیں بتا رہے ہیں کہ تمام تعلیمی ادارے اور تربیت گاہیں وقت کا ضیاع اور پیسے کی بربادی بھی ہے بقول ان کے یہ خصوصیات پیدا نہیں کی جاسکتی ہیں یہ تو انسان اپنے ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے گویاوہ ہمیں یہ نصیحت کررہے ہیں کہ اپنا وقت ان سوچوں میں برباد مت کرو جس حال میں ہو اسی میں مگن اور خوش رہو اور تربیت کے ذریعے آگے بڑھنے کا خیال دل سے نکال باہر کرو کیونکہ بقول ان کے ’’کوئی شخص اپنے اندر خود یہ قابلیتیں پیدا نہیں کرسکتا‘‘۔
دراصل یہ دلائل ہمیں نسلی بادشاہت اور چوہدراہٹ کو تسلیم کرنے کی طرف لے جاتے ہیں جس سے جمہوریت کی نفی ہوتی ہے اور غریب لوگوں کی بہتر زندگی کے لئے جدوجہد کی تردید بھی ہوتی ہے وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ عقل پیدائشی چیز ہے تو یہ کوشش اور محنت کی نفی ہوتی ہے اور یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اس کے لئے جدوجہد مت کرو جبکہ مشہور شاعرساحر لدھیانوی کہتاہے : ۔
یہ الگ بات ہے کہ تعمیر نہ ہونے پائے۔
ورنہ ہر ذہن میں کچھ تاج محل ہوتے ہیں۔ 
حقیقت یہ ہے کہ ایک بادشاہ کا بیٹا حکمرانی کی شطرنجی چالیں محض اس لئے سیکھ لیتا ہے کہ اس کا تمام ماحول ہی ایسا ہوتا ہے بالکل ایک کسان کے بچے کی مانند جو اپنے باپ کو کھیتوں میں ہل چلاتے دیکھ کر کھیتی باڑی کرنا سیکھ لیتا ہے اسی طرح اگر ایک پہلوان ہے تو اس کا بچہ بھی صحت مند ہوگا سچ یہ ہے کہ پیدائشی عقل کوئی لے کر نہیں آتا دنیا کے مشہور اور عظیم لوگوں کی زندگی کے حالات مصنف کے اس دعویٰ کی تردیدکرتے ہیں ان کی داستان حیات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ ان کی عظمت کے پیچھے ان کے حالات اور واقعات کار فرما ہوتے ہیں بلکہ اس کا انحصار حالات، ماحول اور مخصوص دور سے بھی ہوتا ہے سقراط اور افلاطون کے وقت میں کمپیوٹر نہیں تھا اس لئے وہ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے تھے اسی طرح شیکسپیئر آج کے دور میں پیدا ہوتا تو وہ ہملٹ اور میکبتھ کی بجائے کچھ اور ہی لکھتا انسان اپنے ماحول کی پیدا وار ہوتا ہے ایک خوشحال خاندان میں پیدا ہونے والے بچے کو کیا معلوم کہ بھوک کیا چیز ہوتی ہے اسی طرح گرم علاقوں کے باشندوں کو برف باری کے بارے میں معلوم نہیں ہوتاہے ۔
انسان کی ذہنی سطح اس وقت بلند ہوتی ہے جب دیگر ممالک کی سیر کرتا ہے یا تلاش معاش کیلئے اپنے معاشرے اور ملک سے دور چلا جاتا ہے ازمنہ قدیم کے مقابلے میں آج زمین کی طنابیں کھچ گئی ہیں جس نے غریب غرباء کو بھی کچھ سیکھنے اور کمانے کے مواقع فراہم کردئیے ہیں غریب دیہاتیوں کے ذہنوں سے خان خوانین اور جاگیرداروں کے پیدائشی دولت مند ہونے اور اپنی غربت کو خدا کی دین سمجھنے کا تصور اسی وقت نکل گیاتھا جب ہزاروں کی تعداد میں عام شہریوں نے مشرق وسطیٰ اور دیگر مغربی ممالک میں جاکر پیسہ کمایا سچ تویہ ہے کہ ہر شخص اپنے اندر مختلف النوع صلاحیتیں پیدا کرسکتا ہے یہ اس کے حالات اور اس کی کاوشوں پر منحصر ہے وہ اپنی ناکامیوں اور ٹھوکروں سے سیکھ سکتا ہے آپ ایک ناکام سکول کو قابل،ذہین اور 
جہاندیدہ استاد کے حوالے کردیں اور ایک مشہور سکول کو نالائق اساتذہ کی نگرانی میں دے دیں تو کچھ برسوں کے بعد ان کا رزلٹ اس غلطی کا احساس اجاگر کردے گا قدرتی، فطری، پیدائشی، معجزاتی اورقسمت یہ وہ الفاظ ہیں جو ہمیں یقین دلاتے ہیں کہ جو جس حال اور ماحول میں ہے اسی میں ٹھیک ہے اگر کوئی دولت مند ہے تو اس کا سبب استحصال یا چالاکی نہیں اور نہ ہی غریب کی غربت کا سبب یہ نظام ہے ۔
کتاب سے یہ اقتباس اس لئے پیش کیا گیا تاکہ یہ بات سامنے لائی جاسکے کہ کتابیں انسانوں کی تخلیق کی ہوتی ہیں ایک کتاب کے ذریعے مصنف آپ کو کچھ خیالات اور تصورات منتقل کرنا چاہتا ہے اپنے دلائل کے ذریعے قائل کرنا چاہتا ہے کتاب میں لکھی ہوئی باتیں حقیقت پر مبنی ہیں یا ایسا نہیں ہے یہ دیکھنا اور سمجھنا قاری کا کام ہے ایک قاری کو مصنف کے نام سے مرعوب ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ بہرحال یہ بات طے ہے کہ ایک مصنف بھی انسان ہوتا ہے وہ حقیقت بھی بیان کرتا ہے اور ساتھ ساتھ جھوٹ اور دروغ گوئی کا بھی سہارا لیتا ہے۔
یہ ضروری نہیں کہ اگر ایک کتاب میں جو کچھ لکھا ہوتا ہے وہ سچ ہو اس میں جھوٹ کا شائبہ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اس لئے کوئی بھی اس کتاب کے بارے میں حتمی طور پر رائے قائم نہیں کرسکتا کہ یہ کتاب بالکل سچائی پر مبنی ہے یا اس میں جو کچھ لکھا ہے وہ جھوٹ اور دروغ گوئی ہے اس کی پرکھ کے لئے وسیع ذہن اور غیرجانبدارانہ سوچ ازبس ضروری ہوتی ہے یہ بھی ممکن ہے کہ کتاب میں مصنف نے جو کچھ لکھا ہوا ہے اس میں اس کی نیک نیتی شامل ہو اس نے اپنی کتاب میں جو کچھ لکھا یا کسی کتاب کا حوالہ دیا اور وہ حوالہ جھوٹا ہو اس میں سچائی کا عنصر کم ہو تو اس کا مطلب یہ ہو اکہ خود مصنف بھی غیر محسوس طریقے سے دھوکہ کھا گیا ہے اس کا بہترین حل یہ ہے کہ کوئی بھی کتاب پڑھتے وقت اس میں موجود مواد کا سنجیدگی کے ساتھ خود تجزیہ کرلینا چاہئے انسانوں کی بھی اقسام ہوتی ہیں کچھ انسان باتونی اور کچھ خاموش طبع ہوتے ہیں بعض لوگ اپنی بات مختصر کرتے ہیں جبکہ بعض بات کو لمبی چوڑی تمہید کے ساتھ بیان کرتے ہیں یہی حال کتابوں کا بھی ہوتا ہے ۔
انسانوں کی طرح کتابوں کی بھی ایک خاص عمر ہوتی ہے کسی آدمی کی عمر سو سال ہوتی ہے اور کوئی ساٹھ برس کا ہوکر مرجاتا ہے یہی حال کتاب کا بھی ہے کوئی کتاب مارکیٹ میں آتی ہے تو مہینہ یا سال گزارلیتی ہے جبکہ بعض کتابوں کے کئی ایڈیشن چھپ جاتے ہیں اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے بسا اوقات لوگ مصنف کی ذہنی سطح اور اس کی صلاحیتوں کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کتاب کی اہمیت اور مصنف کی اہلیت اجاگر ہوتی جاتی ہے مرزا اسد اللہ خان غالب کو اپنے دور میں نہیں سمجھا گیا آج لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ ہمارے زمانے کا شاعر ہے اسی طرح برونو، کوپرنیکس اور گلیلیو نے مروجہ مذہب کے اس نظریہ سے اختلاف کیا کہ کائنات زمین کے گرد گھومتی ہے تو اس وقت کسی نے بھی ان کا یہ دعویٰ درست تسلیم نہیں کیا لیکن بعد ازاں حالات نے ان کے اس دعویٰ کو ہر زاویے سے درست ثابت کیا ۔
کتاب میں تحریرایک تصور یا نظریہ کی عمر ایک دن بھی ہوسکتی ہے اور سو سال سے زیادہ بھی ہوسکتی ہے آج جو اخبار آپ نے پڑھ لیا کل اٹھا کر اسے نہیں پڑھتے اس لئے کہ اس میں جو خبریں اور اطلاعات تھیں وہ اسی دن کے لئے تھیں ہاں البتہ بعض مضامین اور بیانات تاریخ کا حصّہ بن جاتے ہیں اور بسا اوقات انہیں کتابوں کی صورت میں چھاپ کر محفوظ کرلیا جاتا ہے تاکہ آنے والی نسلیں اس سے مستفید ہوسکیں یہی حال خیالات اور نظریات کا بھی ہے نئی ایجادات اور دریافتوں کے ساتھ ان کی پرانی حالت نہیں رہتی جیسا کہ کسی وقت عوام کو پادریوں کی اس بات پر پورا پورا یقین تھا کہ زمین کائنات کا مرکز ہے کوئی شخص بھی اس کے علاوہ دوسری بات سننے کے لئے تیار نہیں تھا بلکہ اس کے خلاف بولنے والے کو موت کے گھاٹ اتاردیا جاتا تھا مذہبی پیشواؤں نے برونو اورکوپرنیکس کو زندہ جلادیا تھا مذہبی پیشوا عبرت ناک سزاؤں کا تصور اس لئے پیش کرتے تھے تاکہ کوئی تنقید اور اعتراض کی جرات نہ کرسکے تاہم حالات،مشاہدات،واقعات اور تحقیق نے یہ ثابت کردیا کہ یہ نظریہ درست نہیں تھا ۔
کتابوں کی طرح نظریات کی بھی عمر ہوتی ہے آلات پیداوار کے ساتھ نئے خیالات جنم لیتے ہیں جو معاشرے کو آگے کی طرف لے جاتے ہیں جبکہ کچھ وقت کے ساتھ ساتھ دم توڑ دیتے ہیں لیکن جن طبقات کے مفادات ان سے وابستہ ہوتے ہیں وہ عوام کو یہی باور کراتے رہتے ہیں کہ پرانے نظریات ہی اعلیٰ و ارفع تھے ان کے احیا ء سے انقلاب آسکتا ہے مسلمانان ہند کے لئے ایک الگ وطن بناتے وقت نظریہ پاکستان تو اس وقت درست تھا لیکن آج اس نے ایک مخصوص مکتبہ فکرکے ہاتھوں میں اختیارات سونپ دئیے ہیں اور باقی کو زندگی کے ہر شعبہ میں پیچھے رکھا اس طرح ایک نظریہ جو ایک وقت میں درست ہوتا ہے دوسرے دور میں رکاؤٹ بھی ثابت ہوسکتا ہے 
اقدار بھی زمانے اور حالات کے ساتھ بد لتے رہتے ہیں رسم و رواج بھی بدلتے ہیں کئی اقدار ایسی تھے جن پر لوگ جان چھڑکتے تھے لیکن آج ان کا نام و نشان بھی نہیں کسی دور میں غلام رکھنے کا رواج تھا ان پر سخت مظالم ڈھائے جاتے تھے ان کو جان سے بھی ماردیا جاتا تھا ان کی تجارت بھی ہوتی تھی اور بھیڑ بکریوں کی مانند بولی بھی لگائی جاتی تھی اس کو برا نہیں سمجھا جاتا تھا جبکہ آج غلامی کا تصور ناپید ہے اسی طرح جن روایات اور رسومات کو پشتو ن ولی اورغیرت کا نام دیا جاتا ہے صنعتی اور بڑے شہروں میں ان میں وہ شدت اور حدت نہیں رہتی ہے۔
ایک غریب ریڑھی بان بھائی اپنی بہن کو غیر مرد کے ساتھ دیکھ کر قتل کردیتا ہے مگر ایک پروفیسر اپنی غیرت کا اظہاران افعال کے ذریعے نہیں کرتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کتاب علم اور عقل میں اضافے کا ذریعہ ہے لیکن اگر کوئی شخص خود کو کتابوں تک محدودکر لیتاہے تووہ کتابی علم ہی حاصل کرتا ہے وہ سچائی نہیں پاسکتا کتاب کی ایک ایک بات کو جانچنا اور پرکھنا ضروری ہوتا ہے اگر کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ عقل پیدائشی چیز ہے تو اس کا مکمل تجزیہ کرنا چاہئے اسی طرح اگرایک شخص اس کی تردید کرتا ہے اورتردیدکے لئے منطق اور دلائل سے کام لیتا ہے تو ان پر بھی غور کرنا چاہئے ۔
بعض قاری ایک ہی موضوع پر لکھی ہوئی کتابیں پڑھتے ہیں لامحالہ ان کا جھکاؤ ایک ہی سمت کی طرف ہوتا ہے نصابی کتب تک محدود رہنے والے حقیقت پسندی اور سچائی سے دور رہتے ہیں حقیقت اور سچائی کو سمجھنے اور پرکھنے کے لئے ضروری ہے کہ مطالعہ کا دائرہ وسیع کیا جائے اور مخصوص موضوعات کے ساتھ ساتھ دیگر موضوعات کی کتابیں زیر مطالعہ رکھی جائیں ایک ہی موضوع پر لکھی جانے والی کتابیں پڑھنا ایسا ہی ہے کہ ایک جج ایک فریق کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ دینے لگے ۔
ذرائع ابلاغ پر یکطرفہ پروگراموں کے دکھانے اور ہاتھ میں قینچی پکڑ کر ڈرامے اور فلم وغیرہ کو سنسر کرانے اور ان کے لئے بے جا قواعد اورضوابط بنانے کے پیچھے یہی مقصد ہوتا ہے کہ ایک خاص طبقے کے نظریات کو تمام شہریوں کے نظریات بنایا جائے ان کی ترجمانی کی جائے اور ان کے بار بار کے پرچار سے مجبور ہوکران کو اپنایا جائے ایک ہی نظریہ یا موضوع کی تصانیف پڑھنے کے کئی نقصانات بھی ہیں مثلاً جب کوئی ایک ہی موضوع کی کتابیں پڑھتا ہے اور مخصوص مصنفوں کے دلائل سنتا ہے تو رفتہ رفتہ اس کے ذہن میں یہ بات راسخ ہو جاتی ہے کہ دنیا میں بس یہی ایک نظریہ ہے جو کہ سچا ہے ۔
اس سے قاری یکطرفیت کا شکار ہوجاتا ہے اور یہ چیز اسے حقیقت سے دورلے جاتی ہے نتیجتاً وہ ان نظریات کے بارے میں جذباتیت کا شکارہوجاتا ہے انتہا پسند ہوجاتا ہے پھر اس کی یہ پوری پوری کوشش ہوتی ہے کہ دوسرے لوگ بھی اس کے خیالات کے قائل اور حامی ہوجائیں اس کے بعد دوسرا مرحلہ شروع ہوجاتا ہے اور یہ تشدد کا ہوتا ہے اب اس انسان کو اپنے سوا سارے انسان غلط اور باطل نظر آتے ہیں انہیں راہ راست پر لانے کے لئے سب کچھ کرنے پر تیار ہوجاتا ہے ایسا جذباتی اور انتہا پسند شخص اسی صورت میں حقیقت تک رسائی حاصل کرسکتا ہے اور اس کے مزاج میں نرمی آسکتی ہے جب وہ دیگر نظریات کی کتابوں کا کھلے دل کے ساتھ مطالعہ کرے اور پھر ان کا اپنے خیالات کے ساتھ موازنہ کرے ۔
مثال کے طور پر ایک جاگیر دار چاہتا ہے کہ اس کی دولت اور امارت میں اضافہ ہو اس کے جان ومال کی حفاظت ہو معاشرے میں عزت اوروقار ہو ہر آدمی اس سے ڈرتا ہو سارے لوگ اس کے وفادار ہوں اس سے ملاقات اور بات چیت کے دوران ان کی نگاہیں نیچی ہوں غریب غرباء اس کو اپنا ان داتا مانیں کسی کے دل میں اس کو نقصان پہنچانے کاخیال نہ آئے تو اس مقصد کے حصول کے لئے وہ ایسا ماحول بھی بناتا ہے اس میں بعض کتابیں بھی اس کی ممد ومعاون ثابت ہوتی ہیں ان کے ذریعے وہ لوگوں کے ذہنوں میں مخصوص نظریات ٹھونستا ہے لہٰذا کتاب کو طبقاتی نقطہ نظر سے بھی پڑھنا چاہئے کہ یہ کس نے لکھی ہے اس کے مندرجات کس کے مفادات کی حفاظت کرتے ہیں بعض کتابیں نہایت مفید ہوتی ہیں وہ پڑھنے والوں کی معلومات میں اضافہ کرتی ہیں لیکن ایسی کتابیں بھی ہیں جن کے پڑھنے سے تنگ نظری،تعصب، فرقہ واریت اور نفرت پیدا ہوتی ہے اسی طرح کچھ کتابیں غربت کو شاندار بناکرپیش کر تی ہیں دراصل لکھنے والے کا مقصد و مدعا یہ ہوتا ہے کہ غریب اپنی حالت زار کی تبدیلی میں دل چسپی نہ لے ۔
جب دو انسانوں میں جھگڑا ہوتا ہے تو ہم ان کو چپ کرانے کے بعد پوچھتے ہیں ۔
بتاؤ، بھئی تم کیا کہتے ہو؟۔
جب ایک فریق بات مکمل کرتا ہے تو پھر دوسرے کوموقع دیا جاتا ہے ۔
لو، بھئی، اب تم اپنی بات سناؤ، تمہارے نزدیک حقیقت کیا ہے؟۔
دونوں کے دلائل سننے کے بعد ہمیں کچھ حقیقتوں کا پتہ چلتا ہے اسی طرح ایک ہی نظریات کی کتابیں پڑھ کر کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہئے کسی کتاب کو اس لئے نہیں مسترد کرنا چاہئے کہ وہ فلاں مصنف کی ہے کیونکہ جب برونو نے زمین کے مرکز ہونے سے انکار کردیا تھا تو تمام آبادی اس کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی تھی ۔
بچوں کو سکولوں میں مخصوص موضوعات پر کتابیں پڑھائی جاتی ہیں ان کے ذریعے ہمیں جو علم حاصل ہوتا ہے وہ کتابی علم ہوتا ہے اور جنہوں نے صرف درسی کتب مطالعہ کی ہوتی ہیں ان کو اکثر ایک ان پڑھ دکاندار حتیٰ کہ ایک ریڑھی بان بھی دھوکہ دے جاتا ہے آپ نے کئی لوگوں کو یہ رائے دیتے ہوئے سنا ہوگا کہ’’ یہ پڑھا لکھا جاہل ہے ‘‘آپ کو حیرت ہوتی ہے کہ پڑھ لکھ کر بندہ عالم و فاضل بنتا ہے جاہل کیسے ہوگیا ؟ جی ہاں، پڑھا لکھا جاہل بھی ہوتا ہے لیکن کیوں اور کیسے؟

Comments are closed.