اکبر بگٹی کی سیاست

liaq

لیاقت علی ایڈووکیٹ

چھبیس26اگست کو بلوچ رہنما نواب اکبر خان بگٹی(جولائی 1927 ۔اگست 2006)کی دسویں برسی منائی گئی ۔ دس سال قبل انھیں ایک فوجی آپریشن میں ہلاک کر دیا گیا تھا ۔ بلوچستان میں اس موقع پر قوم پرست سیاسی جماعتوں نے ہڑتا ل کی کال دی تھی جو کافی حد تک کامیاب رہی ۔

نواب اکبر بگٹی پشتنی تمن دار اور بگٹی قبیلے کے سردار تھے ۔ لاہور کے ایچی سن کالج سے تعلیم حاصل کرنے والے بگٹی پاکستان سول سروس کے اس پہلے بیچ میں شامل تھے جس نے قیام پاکستان کے بعد کوالیفائی کیا تھا ۔ اے ۔جی ۔این قاضی جنھوں نے حال ہی میں وفات پائی ہے جو اقتصادی امور کے ماہر سمجھے جاتے تھے بگٹی کے بیچ میٹ تھے ۔ بگٹی نے سول سروس اکیڈیمی تو جائن کی تھی لیکن انھوں نے ایکٹو سول سروس میں شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا ۔

سول سروس سے قطع تعلق کے بعد انھوں نے عملی سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا ۔ ان کا سیاسی رحجان قوم پرستانہ سیاست کی طرف تھا لیکن وہ باقاعدہ کسی سیاسی جماعت کے نظم کا حصہ نہیں تھے ۔ 1957میں وہ ری پبلکن پارٹی کی حکومت میں وزیر مملکت برائے امور داخلہ اور دفاع بھی رہے ۔ ان کے سیاسی مقاصد بہت حد نیشنل عوامی پارٹی کے پروگرام سے ہم آہنگ تھے لیکن انھوں نے بوجوہ نیپ میں شمولیت کبھی اختیار نہیں کی تھی ۔

مئی 1972میں جب بلوچستان میں عطا ء اللہ مینگل کی سر براہی میں صوبائی حکومت قائم ہوئی تو اکبر بگٹی نے مرکز میں قائم بھٹو حکومت کی شہ اور تعاون سے صوبائی حکومت کو گرانے کے لئے سازشیں شروع کردی تھیں ۔لاہور کے موچی دروازے میں مینگل کی ’ملک دشمنی ‘ کی داستانیں پنجابی عوام کو سنایا کرتے تھے ۔ بھٹو ہر گز یہ نہیں چاہتے تھے کہ سرحد اور بلوچستان میں نیپ اور جمعیت کی مخلوط صوبائی حکومتیں قائم رہیں اور ان حکومتوں کو ختم کرنے کے لئے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار رہتے تھے۔

بھٹو نے اسلام آباد میں عراقی سفارت خانے سے اسلحہ برآمد کر والیا اور الزام لگایا کہ یہ اسلحہ بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا ۔ اس اسلحے کی آڑ میں مینگل حکومت کو بر طرف کر دیاگیا اور بلوچ اور پختون منتخب قیادت کو پابند سلاسل کر دیا ۔ اس موقع پر اکبر بگٹی نے بلوچستان کی منتخب حکومت کا دفاع کرنے کی بجائے مرکز ی حکومت کا ساتھ دیا اور فروری 1973میں بلوچستان کے گورنر کا حلف اٹھا کر بلوچستان میں فوجی ایکشن کی تائید و حمایت کر دی ۔

بھٹو کے ساتھ بگٹی کا اشتراک زیادہ عرصہ نہ چل سکا اور وہ جنوری 1974میں بلوچستان کی گورنر شپ سے مستعفی ہوگئے تھے ۔اس دوران وہ سولو فلائی کرتے رہے لیکن کسی سیاسی جماعت شامل نہیں ہوئے۔

جنرل ضیا ء الحق کی موت بعد 1988میں ہوئے انتخابات میں بگٹی بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور وہ بلوچستان کے وزیر اعلی بن گئے ۔بگٹی کوئی انقلابی یا سسٹم کی توڑ پھوڑ پر یقین رکھنے والے سیاست دان نہیں تھے ۔ سیاست ان کے نزدیک شطرنج کا کھیل تھی اور وہ عملیت پسندی پر یقین رکھتے تھے ۔ وہ بلوچستان کے حقوق کی بات کرتے تھے نہ کہ بلوچستان کی علیحدگی کی ۔ وہ پاکستان کے وفاق میں رہتے ہوئے بلوچستان کے معاشی اور سیاسی حقوق مانگتے تھے۔

سٹیٹس کو ان کی سیاست کا بنیادی اصول تھا لیکن ہماری حقیقی حکمران اشرافیہ کسی ایسے سیاست دان کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتی جو انھیں چیلنج کرے ۔ اکبر بگٹی کا قصور یہی تھا کہ انھوں نے ہماری حکمران اشرافیہ کو چیلنج کر دیا تھااور یہ ایک ایسا جرم ہے جس کی کوئی معافی نہیں ہے ۔ اکبر بگٹی جیسا بدترین فیوڈل سردار ہماری فوجی اشرافیہ کی ناعاقبت اندیشی کی بنا پر شہید بن چکا ہے ۔ اس کے تمام سیاسی اور سماجی گناہ ختم ہو چکے ہیں ۔

آپ لاکھ کہتے رہیں کہ اکبر بگٹی سیاسی موقع پرست تھے یہ بات کوئی تسلیم نہیں کرے گا کم از کم بلوچستان میں تو کوئی اس کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوگا ۔ اب اکبربگٹی مسلمہ شہید ہیں اور بلوچستان کی قوم پرست کا سمبل بن چکے ہیں اور انھیں یہ مقام دینے کا کریڈٹ ہماری فوجی اشرافیہ کو جاتا ہے ۔

Comments are closed.