ہمارا شاہانہ پروٹوکول اور حضرت عمرؓ کی یروشلم میں آمد

asaf jilani

آصف جیلانی

سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ ، اپنے انتخاب کے بعد سندھ اسمبلی میں یہ پیمان کر رہے تھے کہ وہ بہت کم پروٹول لیں گے ، بس اتنا جو سیکورٹی کے لئے بے حدضروری ہوگا۔ ایوان میں اس پیمان کے بعد لوگوں نے دیکھا کہ سید مراد علی شاہ ،32کاروں اور پولیس کی گاڑیوں کے قافلے میں جارہے ہیں۔ ایک شخص کی حفاظت کے لئے اتنی بڑی تعداد میں کاریں اور گاڑیاں؟ خدا نخواستہ اگر شاہ صاحنب پر حملہ ہوتا تو کیا یہ سب گاڑیاں انہیں بچا لیتیں؟ 

یہ بھی عجیب و غریب انداز ہے سیکورٹی کا۔ پھر سوچیے کہ 32 گاڑیوں کے اس قافلے پر کس قدر پیٹرول خرچ ہوا ہوگا۔اس وقت جب کہ پاکستان 70 ارب ڈالر سے زیادہ غیر ملکی قرضہ کا مقروض ہے ، کیونکر ایسے اللے تللے خرچوں کا متحمل ہو سکتا ہے ۔ کتنا ثواب ملتا اگر اس خرچے کی رقم سے بے روزگار بھوکوں کو کھانا کھلایا جاتا۔ بہت سے لوگ کہیں گے کہ اگر شاہ صاحب اتنے بڑے قافلے میں نہ نکلتے تو لوگوں کو یہ کیسے پتہ چلتا کہ یہ ہمارے وزیر اعلیٰ کی سواری ہے۔ 

سیکورٹی تو محض بہانہ ہے ، اصل میں ہم جاہ پسندی اور شاہانہ ٹھاٹ باٹھ کے رسیا ہو گئے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے عوام بھی اپنے حکمرانوں کے شاہانہ ٹھاٹ باٹھ کے عادی ہوگئے ہیں اور ان کے لئے اپنے حکمرانوں کے قافلوں کے لئے ایک ایک گھنٹے تک بند راستوں پر انتظار ان کے لئے معمول بن گیا ہے۔ یہ تو بات ہے ہمارے حکمرانوں کی ، ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کے سربراہ بھی ان سے کم نہیں عمران خان ہوں یا بلاول زرداری ، یہ بھی کاروں کے لمبے قافلے کے بغیر کہیں نہیں آتے جاتے۔

لیکن پاکستان میں حکمرانوں کے شاہانہ ٹھاٹ باٹھ کے یہ منظر دیکھ کر یہاں برطانیہ میں رہنے والے پاکستانیوں کو بے حد اذیت ہوتی ہے، جہاں ملک کی فرماں روا ملکہ ایلزبتھ شاہی تقریبات میں شاہی جلوس کے علاوہ جب بکنگھم محل سے باہر کہیں جاتی ہیں تو وہ بینٹلے کار میں جاتی ہیں جس پر کوئی پرچم نہیں لہراتا ، صرف کار کی پیشانی پر شاہی مونو گرام نصب ہوتا ہے ۔ ملکہ کی کار کے ساتھ کاروں اور پولیس کی گاڑیوں کا کوئی قافلہ نہیں ہوتا، بس کار کے آگے ایک موٹر سایکل سوار چلتا ہے۔ ملکہ کے لئے کہیں ٹریفک بند نہیں ہوتا۔ اسکاٹ لینڈمیں جب ملکہ اپنے خاندان کے ساتھ تعطیلات منانے جاتی ہیں تو وہاں سیر تفریح کے لئے وہ خود ایک جیپ چلاتی ہیں، محافظوں کا کوئی قافلہ ان کے ساتھ نہیں ہوتا ۔

دو سال پہلے کی بات مجھے ابھی تک یاد ہے ۔ میں لندن کے انڈر گراونڈ اسٹیشن چیرنگ کراس پر ٹیوب ٹرین کے ایک ڈبہ میں داخل ہوا تو دیکھا وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون سامنے کھڑکی کے ساتھ لگے ایک کونے میں کھڑے اخبار پڑھ رہے ہیں۔ ڈبہ میں دوسرے مسافر بالکل لا تعلق، نہایت چین آرام سے اپنی نشستوں پر بیٹھے ہیں۔ ان میں سے کسی نے اٹھ کر کیمرون سے نہیں کہا کہ حضور ، آپ کھڑے ہونے کی کیوں تکلیف کرتے ہیں ، آئیے میری سیٹ پر بیٹھیے ، خادم کو اپنے قدموں میں بیٹھنے کا اعزاز حاصل کرنے دیجیئے۔ میں نے بہت کوشش کی اپنے ذہن میں یہ تصویر بنانے کی کہ پاکستان میں کوئی وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ یوں کسی پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کررہا ہو۔اب تک یہ تصویر میں اپنے ذہن میں بنانے میں سراسر ناکام رہا ہوں۔

میں سن ساٹھ کے عشرہ میں دلی میں تعینات تھا۔ وہاں ہر روز پارلیمنٹ میں وزیر اعظم نہرو کو آتے جاتے دیکھتا تھا۔ہندوستان میں تیار کردہ ہندوستان امبیسڈر کار میں جس پر کوئی جھنڈا نہیں لہراتا تھا بس نمبر پلیٹ کی جگہ اشوک چکر نصب ہوتا تھا ، کاروں اور پولیس کی گاڑیوں کے قافلے کے بغیر وزیر اعظم نہرو آتے جاتے تھے۔ صرف پولیس کی ایک جیپ ان کی کار کے پیچھے چلتی تھی۔

پاکستان میں شاہانہ پروٹوکول کا جنون دیکھ کر میں، اسلامی تاریخ کا وہ عظیم القدر واقعہ یاد کئے بغیر نہیں رہ سکتا جب خلیفہ دوم حضرت عمرؓ کے دور میں ابو عبیدہ کی کمان میں مسلم افواج نے یروشلم کا محاصرہ کیا تھا۔ شہر کے اسقف سوفرونیس نے صرف خلیفہ حضرت عمرؓ سے اس شرط پر مذاکرات کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی کہ حضرت عمرؓ کسی فوجی کے بغیر شہر میں آئیں۔

حضرت عمرؓ نے جب یہ شرط سنی تو وہ اپنے خادم کے ساتھ ایک اونٹ پر یروشلم روانہ ہو گئے۔ سفر کے دوران حضرت عمرؓ نے یہ طے کیا تھا کہ وہ اور ان کا خادم باری باری اونٹ پر سوار ہوں گے۔ جس وقت حضرت عمرؓ یروشلم میں داخل ہوئے تو ان کے خادم کی اونٹ پر سواری کی باری تھی اور حضرت عمرؓ اونٹ کی نکیل پکڑے پیدل چل رہے تھے۔ یہ سماں دیکھ کر یروشلم کا اسقف اور سارے شہری دنگ رہ گئے۔ 

کیا ہم واقعی اسی امت کے فرد ہیں جس کے خلیفہ حضرت عمرؓ ایسے تھے جو اس پر یقین رکھتے تھے کہ ہم کو جو عزت اللہ تعالی نے دی ہے وہ اسلام کی عزت ہے اور وہ ہی عزت ہمارے لئے کافی ہے۔ 

Comments are closed.