شہرِ مقتل کوئٹہ

13767348_10208177711053468_2656519165861739623_o (2) (1)

علی احمد جان

کوئٹہ ایک ایسا شہر ہے جہاں پاکستان کے ہر صوبے ، علاقے، مذہب، زبان ، رنگ اور نسل کے لوگ رہتے ہیں۔ خوبی یہ ہے کہ خواہ کوئی لکھنؤ کا شستہ اردو بولنے والا ہو یا چمن کا پشتون یہاں رہنے کے بعد سب کا ایک مخصوص لہجہ بن جاتا ہے جو زندگی بھر زبان سے نہیں اترتا۔ کوئٹہ اگر چھوٹ بھی گیا تو پھر بھی گفتگو میں ایک دفعہ واللہ کہنا زندگی بھر کاتکیہ کلام بن جاتا ہے۔

کوئٹہ شہر کے باسی دنیا میں کہیں بھی ملیں تو پہلی نظر میں نہ صرف ایک دوسرے کو چہرے سے پہچان جاتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کا قوم قبیلہ اور زبان بھی بتا دیتے ہیں۔ اس شہر کے باشندے عملاً ہفت زبان ہوتے ہیں کیونکہ پشتو، بلوچی، براہوئی، فارسی، اردو ، پنجابی، سرائیکی اور حتیٰ کہ سندھی اور ہندکو بھی یہاں کی ایک اکثریت سمجھتی اور بول لیتی ہے۔

إکتیس مئی ۱۹۳۵ کو آنے والے زلزلے میں تباہ ہونے کے بعد کو ئٹہ شہر کی لندن کے طرز پر تعمیر نو شروع کی گئی تھی جو ۱۹۴۷ میں انگریزوں کی رخصتی کے ساتھ ہی معطل ہوئی اور اس وقت تک جتنا شہر تعمیر ہوسکا آج بھی نمایاں ہے۔ ۱۹۳۵ سے ۱۹۴۷ کے درمیان مکمل ہونے والے شہر کے آثار بتاتے ہیں کہ اگر اپنے منصوبے اور لالحۂ عمل کے مطابق تعمیرپایہ تکمیل تک پہنچتی تو یہ شہر اپنی مثال آپ ہوتا۔ اس دوران تعمیر ہونے والےہوادار گھروں کی کشادگی، دو اطراف کی کشادہ سڑکوں کیساتھ فراہمی اور نکاسی آب کا انتظام اب اسلام آباد میں بھی شائد ایک خواب ہے جو کوئٹہ میں یقینی بنایا گیا تھا۔

مگر کیا کیجیے اس شہر نے اپنی تعمیر نو کے عمل کے رکنے کے باوجود بھی اپنی بساط سے بڑھ کر نہ صرف ملکی اضافی آبادی کا بوجھ اٹھایا بلکہ ۱۹۷۹کے بعد افغان مہاجرین نے تو اس شہر بےمثال کا نقشہ ہی بدل دیا۔ افغانستان سے اس شہر کا تعلق اتنا پرانا ہے جتنا یہ شہر خود۔ جدید قومی ریاستوں کی تشکیل سے قبل افغانستان کے شہر قندھار اور بلوچستان کے خضدار کے درمیان پاؤیندوں کی آمدورفت ایسی تھی کہ جیسے ایک گاؤں کے لوگ موسمی چراہ گاہ بدلتے ہیں۔ یہ سلسلہ بعد میں ثقافتی اور تجارتی تعلق میں بدل گیا جو آج تک قائم ہے۔ شائد یہی وجہ تھی کہ افغان مہاجرین کی ایک بڑی اکثریت نے بلوچستان کے شمالی علاقوں کا رخ کیا جو بعد میں کوئٹہ شہر میں ہی آبسے جس سے یہاں پہلے کمیاب شہری سہولیات اور بھی ناپید ہوگئیں۔

کوئٹہ شہر اپنے تمام تر گروہی ، نسلی، مذہبی اور علاقائی تنوع کے باوجود پر امن بقاۓ باہم کے آفاقی اصول کا عملی نمونہ پیش کرتا رہا۔ ۱۹۸۰اور ۱۹۹۰ کی دھائی میں چند ایک واقعات کے علاوہ کبھی بھی کوئی ایسا بڑا حادثہ رونما نہیں ہو اکہ جس سے یہاں کسی قسم کی آپس میں نفرت کا شائبہ ہو۔ ایک دفعہ میزان چوک پر شیعہ ہزاروں اور سنی پشتونوں کے درمیان ایک جھگڑا ہوا جو تھوڑا سا پھیل گیا تو دونوں اطراف کے عمائدین کی طرف سے نہ صرف وہیں پر اس جھگڑے کو ختم کیا گیا بلکہ پشتون طلبا ء نے تمام کالجوں اور سکولوں سے ہزارہ طلبہ کو اکھٹا کرکے بہ حفاظت ان کے گھروں تک پہنچا دیا ۔ بلوچوں اور پشتونوں کے درمیان تمام تر اختلافات کے باوجود اس شہر میں کراچی جیسی صورت حال کبھی پیش نہ آئی۔

لیکن نہ جانے کیا ہوا کہ اکیسویں صدی کے آغاز پر جب دنیا ایک نئی شعوری منزل میں داخل ہو رہی تھی وہاں کوئٹہ شہر میں کشت و خون کا آغاز ہو گیا۔ اب یہاں سریاب روڈ بلوچوں کا علاقہ بن گیا تو علمدار روڈ ہزاروں کا ، پشتون آباد اور خروٹ آباد پشتونوں کی آبادی بن گئی۔ایک طرف شیعہ ہزاروں کا مذہبی بنیادوں پر قتل عام شروع ہو گیا تو دوسری طرف پنجابی مزدوروں کی لاشیں لسانی وجوہات پر گرادی گئیں۔

پروفیسر، ڈاکٹر، انجنیئر ، معصوم بچے، خواتیں کسی کو بھی نہیں بخشا گیا۔حد تو یہ ہے کہ آج یہاں پنجابی، سرائیکی اردہ بولنے والے اور ہزارہ طلبہ اور اساتذہ درس و تدریس چھوڑ کر گھروں میں بیٹھے ہیں یا اس شہر سے ہجرت کر چکے ہیں۔ کسی دھماکے کے بعد جب لوگ لاشیں اٹھانے آتے ہیں تو پھر دھماکہ ہوتا ہے اور لاشوں پر مزید لاشیں گرتی ہیں ۔ اپنی مخصوص شباہت کی بنا پر شیعہ ہزاروں کا اپنے گھروں سے نکلنا مقدور ہو چکا ہے ۔

گزشتہ دس سالوں میں اس شہر سے بڑی تعداد میں نقل مکانی ملک کے دوسرے شہروں میں ہوئی ہے یا بیرون ملک جس کی وجہ سے یہاں روزگار اور سرمایہ کاری کے سنگین مسائل نے جنم لیا ہے۔ یہاں سے نقل مکانی اور ہجرت کرنے والوں کی زندگیاں تو شایدآسٹریلیا ، کینیڈا، یورپ اور دیگر ممالک میں محفوظ ہوں لیکن اس شہر میں اساتذہ، ڈاکٹروں، وکلاء کاروباری اور سرمایہ کاروں کی کمی سے المیہ اور سنگین تر ہوتا جارہا ہے جو مزید معاشی و معاشرتی زبوں حالی پر منتج ہوسکتا ہے۔

کوئٹہ میں دوستوں سے بات کرکے احساس ہوتا ہے کہ اس شہر کا المیہ صرف نسلی، مذہبی اور لسانی خون خرابہ کے واقعات تک محدود نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ یہاں صدیوں سے ایک ساتھ رہنے والوں کے درمیان ایک ایسی خلیج پیدا ہو چکی ہے جو شکوک و شبہات سے بھری ہوئی ہے۔ اب یہاں لوگ پہلے کی طرح بلا جھجک کہیں آ تے جاتے نہیں ۔ کہنے کو تو ایک شہر میں رہتے ہیں مگر عملی طور پر لوگ اب اپنے اپنے علاقوں تک محدود ہیں ۔ ایک دوسرے کے ہاں بیمار پرسی، عیادت اورغمی خوشی پر نہ جانے پر زندگی بھر کا ناطہ توڑدینے کی روایت والے اس شہر محبت کے لوگ اب صرف ٹیلی فون پر ایک دوسرے کے حال احوال پر اکتفا کرتےہیں۔ لوگ اپنی موت سے نہیں بلکہ خود سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کی وجہ سے دوسروں کی موت نہ آجاۓ۔

وکلا ء پر کیے جانے والے تازہ ترین حملے میں وکلا کی ایک پوری نسل ختم کر دی گئی جن میں ہر رنگ ،نسل، ذات ، مذہب اور برادری کے لوگ شامل تھے۔ ان میں تو وہ بھی تھے جو مارنے والوں کی بریت کے مقدمے لڑرہے تھے۔ ان میں تو وہ بھی تھے جو شائد کسی سے اونچی آواز میں بات بھی نہیں کرتے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ مارنے والوں نے تو ہسپتال میں جاکر زخمیوں اور ان کو بچانے والے مسیحاؤں اور عام شہریوں کو مار کر انسانیت پر سے بھی اعتماد اٹھادیا۔

اب المیہ یہ ہے کہ ایک عام آدمی جو کسی سے کسی قسم کی لسانی ، گروہی یا سیاسی مخاصمت نہ رکھنے کیوجہ سے خود کو محفوظ سمجھتا تھا اب اس خوف میں جی رہا ہے کہ کہیں وہ محض کسی جگہ پر موجود ہونے کی بنا پر مارا نہ جاۓ۔ اب مرنے کے بعد کوئی پرسہ بھی نہیں دیتا نہ کوئی دلاسہ دیتا ہے سب ایک کے بعد دوسرے حادثے کا انتظار کرتے ہیں اور اپنے مرنے کا سوگ خود ہی قبل از موت مناتے ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ ان کا شہر بے مثال اب شہر مقتل ہے جہاں موت زندگی سے زیادہ ارزاں ہے۔

3 Comments