برازیل ، اولمپک، استعماری تماشے، نسل پرستی

12695990_10206729873699704_2066619818_n

منیر سامیؔ ۔ ٹورنٹو

ہم میں سے اکثر لوگ معاملاتِ عالم پر گفتگو کرتے وقت عموماً افریقہ اور لاطینی امریکہ کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ہماری زیادہ تر تجزیہ کاری، اور ہمارے دانشوروں کی کالم نگاری کا مرکز مغربی جموریت ہوتی ہے ،۔ لاطینی امریکہ اور افریقہ اس کے دائرے میں نہیں آتے۔ آج ہم لاطینی امریکہ کے اہم ملک برازیل کا ذکر کریں گے۔ برازیل کے بارے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ وہاں کی آبادی کا تقریباً نصف حصہ سیاہ فام یا ایسے مخلوط نسل لوگوں پر مشتمل ہے جس میں افریقی نسل کی واضح ملاوٹ ہے۔ گزشتہ صدی کے آخری نصف میں برازیل پر تقریباً اکیس سال تک فوجی آمریت مسلط رہی جسے امریکہ کی حمایت حاصل تھی۔

اس آمریت سے نجات کے بعد برازیل نے جمہوری دور میں غیر معمولی ترقی کی اور اس کا شمار دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں ہونے لگا۔ جس میں برازیل میں تیل کی پیداوار اور دیگر خام مواد کا بڑا حصہ تھا۔ ایک بڑی معیشت ہونے کے باوجود تیسری دنیا کے دیگر ممالک کی طرح وہاں دولت کی غیر مساوی تقسیم کا دور دورہ تھا۔ وہاں کی دولت کا زیادہ تر حصہ تقریباً اسیّ کھرب پتیوں کے ہاتھ میں ہے۔

اس غیر مساوی تقسیم کو بدلنے کےلیے 2003 میں وہاں کے مزدوروں کی جماعت نے جمہوری فتح حاصل کی اور صدر ’لُولا ڈی سلوا۔۔Lula Di Silva‘ کی قیادت میں سماجی انصاف کا ایک بے مثال نظام نافذ کیا جس کے ذریعہ عوامی بہبود اور تقسیمِ دولت کے اہم پروگرام شروع کیے گئے۔ جن میں ایک اہم پروگرا م Bolsa Familiaیا ’باوئزا فیمیلیا‘ تھا جس کے ذریعہ غریبوں کو مالی الاوئنس دیئے گئے تاکہ لاکھوں لوگ غربت کے شکنجے سے نجات پاسکیں۔

یہ امداد حاصل کرنے والے خاندانوں کے لیے لازم تھا کہ ان کے بچے اسکول جائیں، بیماریوں سے بچنے کے لیے ٹیکے لگوائیں ، اور روز گار حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ دولت مندوں اور سرمایہ داروں کے جرید ے Forbes نے اعتراف کیا کہ اس پروگرام کے نتیجہ میں برازیل دیوالیہ نہیں ہوا بلکہ اس کے تقریباً دو کروڑ شہری مفلوک الحالی سے جان چھڑا سکے۔

اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2000 میں برازیل کی آبادی کا تقریباً چھ فی صد، ایک ڈالر روزانہ میں زندگی گزارے پر مجبور تھا۔ سنہ 2009 میں یہ تناسب گھٹ کر آبادی کا تین فی صد رہ گیا۔ اس پروگرام سے فائدہ اٹھانے والوں میں بڑی تعداد برازیل کے سیاہ فام لوگو ں کی تھی جو ملک کے شمال اور شمال مشرقی علاقوں میں افریقہ کے پسماندہ ترین لوگوں کی طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے۔

صدر لُولاLulaاور ان کی ورکرز پارٹی کے مخالفین نے میڈیا کے ساتھ مل یہ شور مچانا شروع کیا کہ اس طرح کے فلاحی پروگرام عوام کو صدر اور ان کی جماعت کا وفادار بنا کر رکھیں گے اور انہیں اقتدار سے ہٹانا مشکل ہوگا۔ یہ شور غوغا استعماری سرمایہ داری نظام کا آزمودہ حربہ ہے۔ سرمایہ داری نظام کو قائم رکھنے والی سرمایہ دار اشرافیہ ہر ملک میں بے پناہ معاشی ترقی تو چاہتی ہے لیکن اسے یہ ہرگز پسند نہیں ہوتا کہ معاشی منافعت کو سماجی فلاح کے لیے استعمال کیا جائے۔

دیگر سرمایہ دار ملکوں کی طرح برزایل کے ذرائع ابلاغ پر بھی سرمایہ داروں کا ہی غلبہ ہے۔ سنہ 2009 میں صدر لُولا کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد ان کی حلیف اور ساتھی ’ دِلما روسیف ۔۔Dilma Roussef‘ صدر بنیں اور انہوں نے بھی سماجی بہبود کے نظام کو جاری رکھا۔ لیکن ان کے خلاف کرپشن کے الزامات لگائے گئے۔ ایسے الزامات بھی تیسری دنیا کے سرمایہ داروں کا آزمودہ نسخہ ہیں۔ ابلاغِ عامہ نے اس طرح کی مہم چلائی کہ لاکھوں عوام ان کے خلاف مظاہرے کرنے لگے۔ پھر ان پر کوئی بھی الزام ثابت کیے بغیر کسی شہادت کے انہیں صدارت سے اترنے پر مجبور کیا گیا اور اب ان کے خلاف کاروائی ہو گی۔

وکی لیکس کے مطابق کہا جاتا ہے کہ صدر دِلما کے مخالف ’مشیل ٹیمر‘ جوآج کل عارضی صدر ہیں، ایک زمانے میں امریکی جاسوسی اداروں کے مخبر تھے۔ آج کل ان قائم مقام صدر کے خلاف نفرت کی لہر پھیلی ہوئی ہے اور ان کے خلاف مظاہرے بھی ہو رہے ہیں۔ برازیل میں مزدوروں اور عمل پرستوں کی ایک بڑی تعداد سابق صدر دلما کے حق میں ہے اور قائم مقام صدر کی سخت مخالف۔

صدر لُولا کے دور میں برازیل نے اپنی معاشی ترقی کی بنیاد پر برازیل میں اولمپک مقابلے منعقد کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ جدید اولمپک تاریخ میں پہلی بار تھا کہ یہ مقابلے کسی لاطینی امریکی ملک میں منعقد ہو رہے تھے۔ بجائے اس کے کہ مغربی میڈیا ایک لاطینی ملک کے اس اعزاز پر خوش ہوتا ، اس کے اکثر صحافی کسی نہ کسی بہانے اس پر تنقید کے نئے مضامین اور خبریں شائع کرتے رہے۔ اولمپک کمیٹی اس بات پر قائم تھی کہ مقابلے برازیل میں ہو کر رہیں گے۔ سو مغربی میڈیا نے اولمپک کمیٹی کو سازشوں میں پھنسانے کے سلسلے شروع کر دیے۔ انہیں ایک بہانہ روسی کھلاڑیوں کے خلاف ملا۔ جن پر کینیڈا کے ایک ڈاکٹر نے الزام لگایا تھا کہ یہ کھلاڑی طاقت ور بننے کے لیئے ممنوعہ دوائیں استعمال کرتے ہیں ۔

جوں جوں اولمپک قریب آتے گئے خبریں اس طرح پیش کی جانے لگیں کہ بار بار برازیل کا نام ممنوعہ دواوں کے ساتھ آنے لگا۔ اسی طرح بار بار برازیل میں امنِ عامہ کی صورت ِ حال کے خلاف بھی خبروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ بار بار یہ لکھا جانے لگا کہ برازیل میں ماحولیات کا برا حال ہے وہاں کی فضا زہر آلود ہے، وہاں کا پانی پینے کا تو کیا نہانے کا بھی نہیں ہے۔ کبھی اس کے اولمپک گاوں کے بارے میں منفی تاثرات دیے جانے لگے۔ جن میں ٓسٹریلیا کے کھلاڑیوں کی ٹیم بھی شامل ہو گئی۔

ہمیں تو یوں لگا کہ مغربی ذرائع ابلا غ میں سابق صدر کے فلاحی نظام کی مخالفت، صدر دِلما کو سازشوں کے ذریعہ اتارا جانا، اور برازیل میں ہونے والے اولمپک مقابلوں کے خلاف منفی شور شرابہ ، استعماری سرمایہ دارانہ نسل پرستی ہی کا سلسلہ ہے جو تیسرے دنیا یا کسی غیر سفید فام ملک پر اثر رسوخ قائم رکھنے کے لیے مسلسل جاری رہتا ہے۔ یہاں یہ بھی ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ اولمپک کے دوران برازیل کے سیاہ فام صحافیوں اور کھلاڑیوں کے خلاف بعض سفید فام نسل پرستوں نے اس طرح کا پر وپیگنڈا کیا کہ برازیل کی پولیس کو ان سفید فام نسل پرستوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم کے قوانین کے تحت کاروائی کرنا پڑی۔

Rafaela-Silva-wins-first-Brazil-gold-medal-of-Rio-Olympics

برازیل کے سیاہ فام اور غریب کھلاڑیوں کے خلاف اب سے پہلے بھی نسلی نفرت پھیلائی گئی تھی۔جس کی ایک اہم مثال وہاں جوڈو کی خاتون کھلاڑی ”رافیلا سلوا“ ہیں ۔ جو سیاہ فام ہونے کے ساتھ ساتھ برازیل کی جھونپڑ پٹیوں کی رہنے والی ہیں۔انہیں 2012 کے اولمپک مقابلوں میں ایک متنازعہ فیصلے کے تحت نا اہل قرار دیا گیا تھا، اور بعد ازاں ان کے خلاف نسلی تعصب کے تحت رکیک مہم چلائی گئی تھی۔ لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری اور موجودہ اولمپک میں طلائی تمغہ ٖحاصل کر لیا۔ ان کا گھر اولمپک اسٹیڈیم سے چند کلو میٹر دور ایک غربت زدہ محلہ میں ہے۔

برازیل میں ہونے والے اولمپک مقابلوں کے خلاف طرح طرح کی مخالفت کے باوجود برازیلی شہری اس انعقاد کو کامیاب کرانے کے لیے متحد اور مستعد رہے اور انہوں نے اولمپک کی افتتاحی تقریبات میں عالمی اولمپک کمیٹی کے ساتھ مل ایک باوقار پروگرام منعقد کیا۔ ان مقابلوں میں کینیا کے ایک سیاہ فام کھلاڑی کو ان کی خدمات اور افریقہ میں تعلیم کے فروغ کی کوششوں کے اعتراف میں اولمپک مقابلوں کی تاریخ میں پہلی بار ایک خصوصی اعزاز عطا کیا گیا۔

اور اسی طرح تاریخ میں پہلی بار تارکین وطن کھلاڑیوں پر مشتمل ایک ٹیم کو مقابلوں میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مختلف ممالک سے ظلم ، جبر ، اور تشدد کے نتیجہ میں مہاجر بننے پر مجبور ہوئے اور اولمپک مقابلوں میں اپنے ملکوں کی نمائندگی سے محروم بھی۔ برازیلی شہریوں نے اولمپک انعقاد کو کامیاب بنانے کی کوشش کے ذریعہ استعمار سے مقابلہ کا جذبہ قائم رکھا ہے۔

دنیا بھر میں استعماری سرمایہ دارانہ نسل پرستی کے عروج اور غلبہ کے مقابلے کے لیے ہم پر لازم ہے کہ ہمیں جہاں جہاں بھی اس جابرانہ نظام کا اثر نظر آئے ہم اس کے بارے میں سب کو آگاہ کرتے رہیں، اور برازیل جیسے ممالک کے شہریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار بھی کرتے رہیں۔

2 Comments