ماضی کی مقبول اداکارہ شمیم آرا بھی چل بسیں

0,,19451251_401,00

پاکستانی فلمی صنعت کی ماضی کی ممتاز اداکارہ ، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر شمیم آرا جمعہ پانچ اگست کو لندن میں انتقال کر گئیں۔ پاکستانی فلمی صنعت سے وابسطہ افراد کا کہنا ہے کہ وہ بہترین فنکارہ ہونے کے ساتھ عمدہ انسان بھی تھیں۔

سنہ 2010ء میں انہیں برین ہیمرج ہوا، جس کے بعد انہیں لاہور کے ایک ہسپتال میں داخل کروایا گیا۔ بعد ازاں انہیں علاج کی غرض سے لندن منتقل کر دیا گیا جہاں ان کا بیٹا سلمان اقبال مقیم ہے۔ لندن میں شمیم آرا کے دماغ کا آپریشن بھی کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکیں، پچھلے کچھ عرصے سے وہ کومے میں تھیں۔

اٹھہتر78 سالہ شمیم آرا تقسیم ہند سے پہلے بھارت کے علاقے علی گڑھ میں پیدا ہوئیں، ان کا اصلی نام پتُلی بائی تھا۔تقسیمِ برصغیر کے بعد ان کا خاندان کراچی منتقل ہو گیا تھا۔

انہوں نے 1956ء میں اپنے فلمی کیریئر کا آغاز ہدایت کار نجم نقوی کی فلم ’کنواری بیوہ‘ سے کیا جسے باکس آفس پر کچھ خاص کامیابی حاصل نہیں ہو سکی، البتہ لوگوں کو ایک نئی اداکارہ کا انداز بھا گیا۔اس کے بعد انھیں مختلف قسم کے کردار ملتے رہے۔ بالآخر 1960 میں شمیم آرا نے فلم ’سہیلی‘ میں نگار ایوارڈ حاصل کر کے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا۔

فلم ’قیدی‘ میں فیض احمد فیض کی مشہور نظم ’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘ انھی پر فلمائی گئی تھی جسے بےحد مقبولیت حاصل ہوئی۔

ان کا شمار ساٹھ اور ستر کے عشرے کی مقبول ترین اداکاراؤں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے 80 سے زائد فلموں میں کام کیا۔ 1986 میں انہوں نے فلموں میں ہدایت کاری کا آغاز کیا۔ ان کی چند معروف فلموں میں انارکلی، نائلہ، ہمراز، چنگاری،فرنگی،دوراہا، سالگرہ، صاعقہ، آگ کا دریا، مِس استنبول، منڈا بگڑا جائے، اور پَلے بوائے شامل ہیں۔

شمیم آرا کی پہلی شادی سردار رند سے ہوئی تھی۔ ان کے انتقال کے بعد انھوں نے دو اور شادیاں کیں لیکن دونوں زیادہ دیر نہیں چل سکیں البتہ سکرپٹ رائٹر دبیر الحسن سے ان کی چوتھی شادی آخر تک چلی۔

سنہ1989 میں آنے والی پنجابی فلم ’تیس مار خان‘ شمیم آرا کی بطورِ اداکارہ آخری فلم ثابت ہوئی، جس کے بعد انھوں نے ہدایت کاری کے میدان میں قسمت آزمائی کی اور ’جیو اور جینے دو،‘ ’پلے بوائے،‘ ’مس ہانگ کانگ،‘ اور ’مس کولمبو‘ جیسی فلمیں بنائیں۔

انھیں پاکستان کی پہلی کامیاب خاتون ہدایت کارہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، جس کا ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے اداکاری میں چھ نگار ایوارڈ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ہدایت کاری کے لیے بھی تین نگار ایوارڈ حاصل کیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اداکاری میں ان کے تجربات ہدایت کاری میں کام آئے تھے۔ ایک ہدایت کار کو اچھا اداکار ہونا چاہیے تاکہ وہ وہ کردار خود بھی ادا کر سکے جو اپنی فلموں کے اداکاروں سے کرواتے ہیں۔‘

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کی معروف اداکارہ اور شمیم آرا کی قریبی سہیلی بہار بیگم نے بتایا کہ شمیم آرا ایک بہترین فنکارہ ہونے کے علاوہ ایک اچھی شخصیت کی حامل انسان تھیں۔ان کے بقول شمیم آرا نے بڑے خلوص سے بہت عمدہ کام کیا اور ساتھی فنکاروں سے ان کا رویہ بہت اچھا ہوتا تھا۔

شمیم آرا کے بیٹے کے ساتھ ہونے والی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ شمیم آرا کی لندن میں ہی تدفین کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ شمیم آرا کے پسماندگان میں صرف ان کا ایک بیٹا سلمان اقبال ہے جو کہ لندن میں مقیم ہے۔

ممتاز پاکستانی گلوکارہ فریدہ خانم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’شمیم آرا اپنے وقت کی بہترین اداکارہ تھیں، جن کی پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ان کا اخلاق بہت اچھا تھا۔ وہ ہر کسی سے پیار سے ملتی تھیں‘‘۔

Comments are closed.