انتظار

جان

جان خاص خیلی

وہ ریل گاڑی کے انتظار میں بیٹھا ہے۔ کافی دیر ہو گئی ہے۔ ریل گاڑیاں، چیختی دھواں اگلتی آ جا رہی ہیں۔ وہ اداس ہے گویا ریل گاڑی میں اس کا دل رہ گیا ہے۔ اس کے دیکھتے ہی دیکھتے ریل گاڑی اس کی عمر کے لمحوں کے مانند چیختی دھواں اگلتی جا رہی ہے اور وہ انتظار میں ریل گاڑی کی آواز کو اپنی سماعت میں محفوظ کرنے کی ناکام خواہش میں بینچ پر بے چین بیٹھا ہے۔ جب ریل گاڑی کی آواز کی آخری گونج بھی غائب ہوجاتی ہے تو وہ مزید بے چینی میں گھر جاتا ہے۔

کراچی میں آنے کے بعد یہ پہلا موقعہ ہے کہ وہ گاوں جانے کے لئے بس اسٹاپ کے بجائے شام سے ہی ریلوے اسٹیشن کے بینچ پر آ بیٹھتا ہے۔ شہر میں دھشت گردی کا دیو مسلط ہے۔ مساجد اور مینار۔ راستے اور ساحل۔دوکانیں، گلیاں، لمحے اور ثانئے سب کے سب بے معنی ہو چکے ہیں۔

اس کی نگاہیں سامنے دیوار پر گھڑیال کے کانٹوں پر جمی ہوئی ہیں۔ سوچتے سوچتے وہ بچپن کی یادوں کے جنگل میں کھو جاتا ہے۔ اس کا گھر مشرق کی سمت تقریباًریل کی پٹڑی کے ساتھ ہے۔ ریل گاڑی جب گھر کی باڑھ کے قریب سے گذرتی ہے تو باڑھ گویا جھک کر ریل گاڑی کو سلام کرنے لگتی تھی اور ریل گاڑی چیختی دھواں اگلتی گزر جاتی تھی۔ اس وقت ننھے ننھے ہاتھ ہوا میں لہراتے تھے۔ ریل گاڑی کو روکنے کے لئے لال جھنڈیاں ہوں اور اس طرح ریل گاڑی کو روکنے کی کمسنی والی خواہش ہاتھوں کے ہلنے کے درمیان رہ جاتی تھی۔ کبھی لگتا تھا جیسے باڑھ بھی ریل گاڑی کا ایک حصہ ہو جو ہر خس و خاشاک کو اپنے ساتھ کھینچتی جا رہی ہے۔

ریلوے اسٹیشن پر مختلف سمتوں سے آئے ہوئے لوگ جمع ہو تے ہیں اور جاتی ہوئی ریل گاڑی میں سوار ہو جاتے ہیں۔ ہر جاتی ہوئی ریل گاڑی میں گویا اس کا دل رہ جاتا ہے۔ اس کے ہر سمت ریل کی بوگیاں ہیں۔ کاندھوں پر صندوق اور گٹھڑیاں اٹھاتے قلی گویا کراسنگ پل کے بجائے اس کی آنکھوں پر چڑھ اور اتر رہے ہیں اور یہ ریل کی پٹڑیاں اس کے دل کے تہوں سے دور اس کی آنکھوں میں بسے قبرستان تلک جاتی ہیں۔ جس میں حد نظر تک قبریں ہی قبریں ہیں، اکھڑے ہوئے کتبے ہیں اور کوئی یاد ہے، دسویں محرم جیسی یاد۔

وہ سوچ رہا ہے۔ اب کے عاشورہ پر گل نازبو کی دو ٹہنیاں دونوں قبروں کے اکھڑے ہوئے کتبوں پر رکھوں گا۔

آنکھیں، قبرستان، اکھڑے ہوئے کتبے، ریل کے کسی ڈبے میں رہ گیا دل۔ تنہائی کے احساسات سے بوجھل ہوا کا ایک جھونکا آیا اور گذر گیا او ر تنہائی کے اس لمحے کو پکڑنے کی خواہش اس کی آنکھوں میں ہی رہ گئی ۔ گویا ساری سندرتائیں اس کے نین پلکوں کی شاخوں پر آ بیٹھی اور پھر سے اڑ گئیں۔ مگر اس کا پاگل دل کیوں کر مانے کہ اس کے آنگن سے رنگ اور خوشبوئیں کیسے کھرچی گئیں۔ دور رہ گئی وہ اداس کوئلیں جن کو جب آیا وہ نین پلکوں کی شاخوں پر کوکتی رہ گئیں۔

بینچ پر محض انتظار موجود ہے اور آنکھیں دیوار پر گھڑیال میں لگی ہیں۔ ارے سکھیو تم تو لوٹ جاو رے،میرے من کا ناتا تو ہے پہاڑوں سنگ رے۔

نہ جانے کہاں سے لے آیا ہوا کا جھونکا یہ آواز۔ آواز جو منوں مٹی کی تہہ میں گم ہو چکی ہے یا منوں لکڑی کے ڈھیر میں جل کر خاک ہو چکی ہے اور شمشان بھومی میں بس کوئی یاد سی رہ گئی ہے۔ اب یہ آواز کہاں سے آئے گی۔

وہ نہ جانے کیوں اپنے آپ سے باتیں کرتے تھکتا ہی نہیں۔

بندوق کیا ہے؟ بندوق دہشت گرد کی زبان ہے۔

یہ ہمارے ملاّ کیا ہیں؟ خدا جانے موت کیا ہے؟ یہ مذہب، یہ نعرے، شہر کے سنسان مینار۔ اب بس خوف ہی خوف ہے۔ شہر کے چوک پر اور بندوق کی نالی پر تحریر ہیں مقدس آیتیں اور عورتیں، بچے، بوڑھے بندوق کے خوف سے جاگ جاگ کر گذارتے ہیں۔ یہ راتیں، یہ باتیں،۔ ایسے میں کیوں کر کہا جائے کہ:۔

جب دھرتی راس نہ آئی تو میں اڑ جاوں گا۔

چلو چل کر ایک آدھ گھونٹ چائے پی لیں۔ کل تک پتہ نہیں زندہ بھی رہیں یا نہیں۔ زندگی بہت مختصر ہے۔
میں کیا ہوں؟ شیعہ یا سنّی۔ ہندو ، عیسائی یا مسلم؟ کس نے پوچھ لیا تو کیا بتاوں کہ میں کون ہوں؟ آدمی کے اندر کا کیسے پتہ چلے کہ وہ کون ہے؟۔

اف یہ زندگی گویا ایسا خواب ہے جس کی کوئی بھی تعبیر نہیں۔

سامنے آ رہے یہ چار آدمی کون ہیں؟ ہو سکتا ہے یہ اس آدمی کی تلاش میں ہوں جو ابھی یہاں سے گیا ہے۔؟ یا ہو سکتا ہے وہ مجھ سے پوچھیں کہ میں کون ہوں؟ میں کس نعرے کی بازگشت ہوں؟۔

وہ موتنے کے بہانے سے پلیٹ فارم سے جانے لگتا۔ چاروں آدمی نزدیک ہو تے جا رہے ہیں اور وہ انجان بن کر فاصلہ سے گنگنانے لگتا ہے:۔

ارے سکھیو تم تو لوٹ جاورے،میرے من کا ناتا تو ہے پہاڑوں سنگ رے۔

ریل کی پٹڑی خاموش ہے اور اس کی نظریں دور دور روشن بلبوں سے ٹکرا کر پلٹتی ہیں۔ کندھے پر لٹکتا تھیلا ایک بوجھ۔ چائے کے ٹھیلے کے پاس کھڑے ہونے کی خواہش۔ چائے پیتے ہوئے آدمی کی اٹھتی نگاہوں کے باعث ٹانگوں میں کپکپی۔

یہ آدمی ضرور پوچھے گا کہ میرا تعلق کس مذہب سے ہے۔ ٹھیک ہی تو ہے۔ اسے یہ پوچھنے کا حق ہے۔ دل کو تسلی دینے کی ناکام کوشش۔

وہ ذرا فاصلہ پر کھڑے ہو کر ٹکٹ، قومی شناختی کارڈ اور سروس کارڈ نکال کر اطمینان ہو جانے پر دوبارہ جیب میں رکھ دیتا ہے۔

وقت گذارنے کے خاطر جیب سے موبائل نکال کر وہ فون نمبرز دیکھتا ہے اسے یوں محسوس ہوتا گویا اس کے چاروں طرف سب لوگ غنڈے، لالچی، جنونی، انتقام کے زہر سے بھرے ہوئے ہیں۔ وہ اوپر رکھے ہوے ٹیلیوژن سے نگاہیں ہٹانا چاہتا ہے۔

لوگ قاتل کیوں ہوتے ہیں؟

خون میں لت پت جسم، نعرے، کپکپی۔ وہ اپنے ہاتھ کھول کر دیکھتا ہے۔

قاتل کے ہاتھ خون سے رنگے ہوتے ہیں۔

یہ وحشت کا دور ہے۔ انتظار کی کیفیت ، اس کی بوجھل آنکھیں۔ اور دل جو ریل کے ڈبہ میں رہ گیا ہے۔ اور وہ ڈبہ، ریل گاڑی کی آواز کی آخری گونج میں محفوظ کرنے کی خواہش۔ تھکن کا بوجھل پن اس کی آنکھوں پر چھا رہا ہے اور وہ خود سراپا انتظار بن چکا ہے۔

جان خاصخیلی صحافت سے وابستہ ہیں۔ صوبہ سندھ کے حید رآباد شہر سے انگریزی روزنامہ دی نیوز کے لئے لکھتے ہیں۔ سندھی زبان میں افسانے اور شاعری بھی لکھتے ہیں۔ ان کے افسانوں کی ایک کتاب گمشدہ آدمی کا سفرنامہ ۱۹۹۶ ءمیں کراچی سے شایع ہوئی تھی۔

Comments are closed.