دہشت زدہ قوم کا المیہ اور ریاستی بیانیے 

aimal

ایمل خٹک

سانحہ کوئٹہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔ مگر لگتا ہے کہ یہ سانحے اب ہمارا مقدر بن چکے ہیں۔ سالوں کی غلط اور ناعاقبت اندیش پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان اب ایک ایسے سٹرٹیجک گرداب میں پھنس چکا ہے کہ اب اس سے اس کا نکلنا ناممکن تو نہیں مگر مشکل ضرور ہے۔

 بدقسمتی سے اس گرداب سے نکلنے کیلئے جس قسم کی سیاسی بصیرت اور دانائی کی ضرورت ہے اور جس قسم کی قوت ارادی اور قائدانہ صلاحیتوں اور اہلیت کی ضرورت ہے وہ موجودہ قومی قیادت میں ناپید ہے۔ مگر المیہ یہ بھی ہے کہ پالیسی سازوں کو یا تو حالات کی نزاکت اور سنگینی کا بھرپور احساس نہیں اور یا وہ اپنی کچھ جھوٹی خوش فہمیوں یا غلط فہمیوں کا خود شکار بنے ہوئے ہیں۔

 حالانکہ دہشت گردی کی پے درپے سنگین وارداتوں کے بعد دہشت گردی کے خلاف موثر اقدامات کے لیے سازگا فضا میسر ہے۔ دہشت گرد ایکسپوز ہو چکے ہیں اور ان کے خلاف عوامی نفرت اور غصہ زوروں پر ہے۔ قوم اب دہشت گردی کے وبال سے جان چھڑانا چاہتی ہے۔

مگر پاکستانی ایسٹبلشمنٹ کی اچھے اور برے طالبان یا عسکریت پسندوں میں تمیز کی پالیسی اور انتہاپسندی کےسدباب کے لیے کسی جامع پالیسی کی غیر موجودگی دہشت گردی کے مکمل خاتمے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ حکومتی اقدامات دہشت گردی پر فوکس ہیں جبکہ دہشت گردی اور فرقہ وارایت کو جنم دینے والی انتہاپسندی کے خلاف مناسب منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔

ہم بحیثیت قوم انتہائی بے حس ہوچکے ہیں۔  پاکستان میں انسانی خون کی ارزانی دیکھ کر یہ واقعہ بھی جلد بھول جائینگے۔ کچھ عرصہ دکھ اور ماتمی کیفیت میں رہنے کے بعد زندگی پھر آہستہ آہستہ معمول پر آجائیگی اور زندگی جب نارمل ہو جائیگی تو پھر اور کوئی اندوہناک واقعہ رونما ہوگا۔  قوم پھر کچھ دنوں کے لیے ماتمی کیفیت میں چلی جائے گی ۔ اس طرح یہ شیطانی ماتمی چکر چلتا رہے گا ۔ شہیدوں کے گھرانے عمر بھراپنا غم روتے رہیں گے اور زخمی اپنے زخموں کے ساتھ اذیت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہونگے۔

دہشت گرد کاروائیوں کے بعد کچھ  قومی قائدین کے بیانات اور بڑھکیں دیکھ کر سلطان راہی مرحوم کی یاد آجاتی ہے۔ چند دنوں تک پولیس کی پھرتیاں جاری رہیں گی اور قوم کو کیس کے حوالے سے نت نئے انکشافات ، سراغ ملنے اور مجرموں تک پہنچنے کی خوشخبریاں بھی سنائی جائیں گی۔ سیکورٹی ناکے بڑھ جائینگے۔ مشکوک افراد کی دھڑادھڑ گرفتاریاں ہونگی۔ پولیس اور انٹلی جنس ایجنسیاں دور کی کوڑیاں لانے کی کوشش کریں گی ۔

اگر تحقیقات کو مزید مسالہ دار اور اس میں سنسنی پیدا کرنے کی ضرورت پڑی تو ایک دو بیرونی ایجنٹوں کی گرفتاری بھی ڈال لیں گے۔ معلوم نامعلوم ملزمان کے خلاف یا اگر زیادہ تیر مارا تو کچھ نامی گرامی دہشت گردوں کے خلاف مقدمات درج ہونگے۔ اور کچھ عرصے بعد روایتی سستی غالب آئیگی اور کیس کی فائل کو گرد آلودہ الماری کا یہ کہہ کر زینت بنایا جائیگا کہ ملزمان علاقہ غیر یا بیرون ملک مفرور ہیں ۔

جب اپنی تعریف پر آتے ہیں تو دنیا میں ہم سے بڑی اور پیشہ ور ایجنسی کوئی ہوتی نہیں لیکن جب کمزوری سامنے آتی ہے جب کوئی بڑا دہشت گردی کا واقع رونما ہوتا ہے تو پھر ہم بلاواسطہ یا بالواسطہ دشمن ایجنسیوں کو اعلیٰ اور برتر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ویسےاپنی نا اہلی اور کمزوری چھپانے کیلئے دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانا بہت اچھا بہانہ ہے۔

وزیراعظم اپنی سنجیدگی اور غم وغصہ ثابت کرنے کے لیے دو تین اجلاس اور بریفینگز میں شرکت کریں گے ۔ اور اگر فرصت ملی تو ایک دو مریضوں کی عیادت یا شہیدوں کے لواحقین سے ملاقات کر لیں گے۔ اور کچھ دن بعد قومی اہمیت کے حامل اہم بیرونی دورں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ صدرمملکت تو شاید عمربھر کی تھکاوٹ دور کرنے صدارتی محل میں براجمان ہیں۔ ان کی میڈیا ٹیم  کبھی کبھار ان کی موجودگی کا احساس کرانے کیلئے ان کی جانب سے اخباری بیان جاری کردیتی ہے اور قوم ان کی احسان مند اور ممنون ہو جاتی ہے۔

دو تین ادہر ادہر ملکی سلامتی کے حوالے سے اجلاسں منعقد کرنے کے بعد چیف آف آرمی سٹاف بھی جو وزیراعظم سے کچھ کم دورے نہیں کرتے جلد ہی کسی پیشہ ورانہ دورے پر نکل جا ئیں گے۔ میڈیا پر واقعے کے حوالے سے ایک دو سرکاری اجلاسوں اور بریفنگز کی خبریں چلیں گے اور اعلیٰ حکومتی شخصیات کو تصویر غم بنے دکھایا جائے گا۔

بعض اپوزیشن جماعتیں اپنی اقتدار کی ہوس اور اناپرستی سے مجبور ہو کر ہر دوسرے دن عوام کو سڑکوں پر لانے کی جستجو جاری رکھیں گی۔ صوبائی وزرا بے چارے اپنے اپنے حلقے کے کاموں اور حلقہ نیابت کے لوگوں کو خوش کرنے سے فارغ نہیں وہ بھی جلد اپنی روٹین پر آجائینگے۔

رہی میڈیا تو وہ تو گھنٹوں یا زیادہ سے زیادہ روزانہ کی بنیاد پر ماتم کرتا ہے۔ جلد ہی وہ اپنے ریٹنگ اور دیہاڑی پوری کرنے کے لیے کوئی نیا ایشو تلاش کر لے گا ورنہ تحریک احتساب اور تحریک قصاص کے ڈرامے تو موجود ہیں۔ اس کی کوئی نہ کوئی قسط چلتی رہے گی۔ اور ہم جیسے لکھاری الٹی پلٹی تحریروں کے ذریعے اپنی فرسٹریشن نکالنے کی تک میں بیٹھے رہیں گے۔

قوم کا اجتماعی وجود یکے بعد دیگرے دہشت گردی کے اندوہناک واقعات کی وجہ سے زخموں سے چور چور ہے۔ پوری قوم چاہے بچے ہو ں یا بوڑھے ، مرد ہو یا خاتون ، امیر ہو یا غریب سب بلا استثنیٰ نفسیاتی مریض بن چکے ہیں ۔ بدامنی اور لاقانونیت کی وجہ سے سرمایہ کاری کا عمل رک گیا ہے پیشہ ور افرادی قوت بیرون ملک جا رہی ہے۔ اور ترقی کا پہیہ سست ہونے کی وجہ سے بیروزگاری بڑھ رہی ہے اور کمر توڑ مہنگائی ہے۔  رہی سہی کسر روز روز کے دہرنے اور احتجاج پوری کر ر ہے ہیں۔

دہشت گردی کے پس پردہ بیرونی سازشوں کا نیا چورن بیچا جائیگا۔  افغانستان، بھارتی اور امریکی ایجنسیوں کی پاکستان میں عدم استحکام پھیلانے کے لیے گٹھ جوڑ کا چورن۔  ولی خان مرحوم نے افغان جہاد کے دوران یہ تاریخی جملہ کہا تھا کہ جب ہم کابل بم بھیجیں گے تو وہاں سے پھولوں کا گلدستہ تو نہیں آئے گا۔

پہلے ریاستی بیانیوں کا مرکز ثقل مضبوط مرکز اور مذہب پھر نیوکلئر پروگرام  اور اب چینپاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ ہے۔  اب بیرونی قوتوں کی مداخلت اور سازشوں کی تھیوری کو اس سے جواز فراہم کیا جائیگا۔ کیونکہ بیرونی قوتوں کوپاکستان کا استحکام اور ترقی ہضم نہیں ہو رہی۔ 

یہ دہشت گرد حملہ اگر بیرونی قوتوں کے ایماء پر ہوا ہے یا داخلی قوتوں نے کیا ہے دونوں صورتوں میں اس سے سنگین سیکورٹی کی کمزوریوں  کی نشاندہی ہو رہی ہے ۔ کونسا ادارہ یا ذمہ دار فرد ان خامیوں کی ذمہ داری لے گا اور یا اس نے لیا ہے۔  بیرونی قوتوں کو ذمہ دار ٹھہرانے کی منطق کے پیچھے یہی سوچ بہی ہے کہ یہاں کوئی ذمہ داری لینے کیلئے تیار نہیں اور نہ کسی کو پتہ ہے کہ اس واقعے کا کون ذمہ دار ہے۔ حتیٰ کہ ذمہ دار کو بھی پتہ نہیں کہ وہ ان سیکورٹی کمزوریوں کا ذمہ دار ہے۔

سسٹم کی شکست وریخت کی ایک علامت یہ بھی ہوتی ہے کہ کام کی اتنی ڈوپلیکشن ہو جاتی ہے اتنے زیادہ ادارے ایک جیسا کام کر رہے ہوتے ہیں کہ ذمہ داری کا تعین  کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کریڈت لینے کی ہر کوئی کوشش کرتا ہے مگر بات جب ذمہ داری کی آتی ہے تو پھر ذمہ داری ایک دوسرے پر تھوپی جاتی ہے۔ بیرونی قوتوں کو مورد الزام ٹھہرانے سے اس آپس کی توں توں میں میں اور جھنجھٹ سے بھی جان چھوٹ جاتی ہے۔

مذہب کے نام پر چورن بیچتے بیچتے ملک میں مذہبی منافرت اور تنگ نظری خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ مذہب کے نام پر مخالف فرقوں کی قتل و غارت اور خون بہانا ایک فیشن بن گیا ہے۔ رواداری، امن اور سلامتی کے مذہب کی سیاسی اور ادارہ جاتی مفادات کے لیے غلط، بھونڈے اور نامناسب استعمال کی وجہ سے وہ نفرتیں بانٹنے اور تشدد پھیلانے کا ذریعہ بن گیا ہے۔

ریاستی بیانیوں کو سن کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ شاید باقی دنیا اور ہمارے پڑوسی ممالک کا پاکستان کے خلاف سازشوں کے علاوہ اور کوئی کام نہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے اپنے کاموں میں لگے ہوئے ہیں ۔ انڈیا عالمی طاقت بننے کے چکر اور افغانستان چار دہائیوں سے زیادہ خانہ جنگیوں اور بحرانوں سے نکلنے کی کوشش اور قومی ترقی کی بنیادیں رکھنے اور مضبوط کرنے میں لگا ہوا ہے۔

اگر ہماری اسٹبلشمنٹ یہ چورن نہیں بیچے گی  تو ملک کے تناسب سے زیادہ بڑے دفاعی بجٹ اور غلط پالیسیوں کو کیسے جواز فراہم کرے گی ۔ جب تک اسٹبلشمنٹ کی اپنے عوام اور جمہوری حکومتوں کے خلاف سازشیں بند نہیں ہوں گی اور وہ ملکی آئین اور قانون کا احترام اور اس کے مطابق نہیں چلیں گے تب تک اس قوم کی حالت نہیں سدھر سکتی۔

 علاقے میں پراکسی وارز کا سلسلہ بھی اب بند ہونا چائیے۔ دوسروں کے گھروں میں آگ لگاتے لگاتے اس کے شعلے ہمارے گھر میں بھی پہنچ چکے ہیں ۔ جب تک داخلہ اور خارجہ پالیسیوں پر مکمل نظر ثانی نہیں کی جاتی اور عسکرت پسندی کے ساتھ ساتھ تنگ نظری اور انتہاپسندی کے سدباب کیلئے جامع منصوبہ بندی اور اس پر صدق دل سے عملدرامد نہیں کیا جاتا تو اس وقت تک ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ایک خواب رہے گا۔

میں جب یہ تحریر لکھ رہا تھا تو مجھے کسی اردو شاعر کا یہ شعر یاد آیاکہ   

ادھر اُدھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا

مجھے راہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے

One Comment