اُدھر تم۔ ادھر ہم، عباس اطہر کا موقف

liaqترتیب و تحقیق :لیاقت علی ایڈووکیٹ 

اُدھر تم ۔۔۔ ادھر ہم ممتاز صحافی اور کالم نگار کے ہاتھوں ضبط تحریر میں آنے والی وہ قتل شہ سرخی ہے جو روزنامہ ’آزاد‘کی شہ سرخی تھی جس کا تذکرہ آج بھی چوالیس سال گذر جانے کے باوجود تقریبا ہر روز پاکستان کے کسی نہ کسی اخبار میں موجود ہوتا ہے ۔بد قسمتی سے یہ سرخی پاکستان میں زرد صحافت کی وہ بدترین مثال ہے جو غلط العام کی طرح تاریخ کا حصہ بن چکی ہے ۔۔

بھٹو کے ناقدین اور مخالفین آج بھی اسے اپنے مقاصد کے لئے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔جو بھٹو کی تقریر کے سیاق و سباق اور مفہوم سے یکسر مختلف تھی اور ہے ۔بالکل اسی طرح متضاد ہے جیسے کوئی دیوار کو بلی کہہ کر مخاطب کرے یا اجالے کو تاریکی قرار دے ۔ خود عباس اطہر نے ماہنانہ ’شوگر‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے اس کا اعتراف کیا تھا ۔انھوں نے کہا کہ ’اُدھر تم ۔۔ادھر ہم ‘والی سرخی خود بنا کر لگائی تھی ۔

میں نے ماضی میں بھی پارٹی میں کم از کم دس بار کہا ہے کہ وہ اس کی وضاحت کرے اور حقیقی صورت حال منظر عام پر لائی جائے ۔میں خود اس جلسے میں موجود تھا ۔میں ایک نہیں ہزاروں ایسے افراد پیش کر سکتا ہوں جو اس جلسے میں موجود تھے اور بھٹو کی تقریر کے حقیقی پس منظر سے آگاہ تھے ۔

جب بھٹو نے یہ الفاظ کہے ’’ادھر تم ۔۔ادھر ہم ‘‘۔اس سے بھٹو کی مراد یہ تھی کہ اُدھر مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمان رہنما ہیں اور ادھر ذوالفقار علی بھٹو لیڈر ہیں۔بھٹو کے اس جملے کے ساتھ ایک اور جملہ بھی تھا ،جو اسمبلی میں جائے گا اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا ۔

یہ جملہ دراصل احمد رضاقصوری کی طرف اشارہ تھا جس کو بھٹو بہت پیار کرتے تھے اور اس پر بہت اعتماد کرتے تھے ۔بھٹو چھ نکات پر مجیب سے مذاکرات کر رہے تھے اور ساری پارٹی کا فیصلہ تھا کہ عوامی لیگ کے چھ نکات پر کسی فیصلہ تک پہنچنے بغیر اسمبلی میں نہ لایا جائے ۔

صر ف احمد رضا قصوری نے اخبارات میں یہ بیان دیا کہ وہ پارٹی کے فیصلے کے بر عکس اسمبلی کے اجلاس میں جائے گا تو اس کو بھٹو نے یہ جواب دیا کہ جب جائیں گے ہم اکٹھے جائیں گے ۔اکیلا کوئی نہیں جائے گا ۔بھٹو نے منٹو پارک کے سامنے شاہی قلعہ کی طرف جانے والی سڑک پر جلسے سے خطاب کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے تھے ۔

بنیادی طور پر شاعری اور ادب سے تعلق رکھنے والے عباس اطہر نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز 1964-65میں کراچی کے اخبار روزنامہ ’انجام‘ سے کیا تھا ۔ روزنامہ’انجام ‘ میں دیگر ساتھی شوکت صدیقی ،نظام صدیقی اور نذیر ناجی تھے ۔ نیوز ایڈیٹری کے شعبے میں ان کی رہنمائی نظام صدیقی نے کی تھی ۔انھوں نے نیور زروم میں کام شروع کیا ۔

نیوز روم میں کام کے حوالے سے اپنے تجربے کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ’ وہاں خبروں کا انگریزی سے اردو ترجمہ کر نا ہوتا تھا جو شروع میں مجھے نہیں آتا تھا ۔میر ی جستجو تھی کہ نیوز ایڈیٹر بننا ہے ۔یہ موقع مجھے روزنامہ ’آزاد‘ میں ملا ۔وہاں میں نے ’ادھر تم۔ادھر ہم ‘ جیسی سرخی لگائی جو ملک کی سیاسی تاریخ کا حصہ ہے ۔اب ملک میں سرخیوں کا وہ انداز چل رہا ہے جو میں نے ’آزاد‘ میں شروع کیا تھا‘ ۔

سنہ1965-70تک میں روزنامہ ’امروز‘ میں کام کرتا رہا ۔وہاں سے پھر میں روزنامہ ’آزاد‘ میں گیا جہا ں ایک سال رہا پھر روزنامہ ’مساوات ‘چلا گیا ۔جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کی ’ادھر تم ۔ادھر ہم ‘والی سرخی سے بھی یہی تاثر لیا جاتا ہے کہ بھٹو نے کہا تھا کہ ہماری نشستیں اگرچہ کم ہیں پھر بھی مغربی پاکستان میں حکومت ہم ہی بنائیں گے ۔

عباس اطہر کا جواب تھا کہ وہ ایسے تھا ہی نہیں ،اس سر خی کا غلط مفہوم لیا گیا وہ ایک سبجیکٹو سرخی تھی جو ان کی تقریر کے حصے میں سے میں نے نکالی تھی ۔وہ آبجیکٹو سرخی نہیں تھی ۔ وہ وربیٹم ان کا نہیں تھا ۔ اس کے کئی مطلب ہیں یعنی ادھر تمہاری طاقت ہے ادھر ہماری ہے ۔کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کی سرخی نے بھٹو کے لئے مشکلات پیدا کیں ؟

میر اخیال تھا کہ بھٹو سیکنڈ مین نہیں بنیں گے خواہ ملک ٹوٹ جائے ۔انتخابات جیتنے کے بعد فتح کا جشن منایا گیا اور جو جلوس نکالا گیا تھا اس کے شر کاء سے بھٹو نے ایک زائد مقامات پر خطاب کیا تھا ۔

پنجاب اسمبلی کے سامنے خطاب کرتے ہوئے بھٹو نے ایک فقرہ کہا تھا کہ اگر مشرقی پاکستان والے یہ کہتے ہیں کہ وہ ہمارے غلام رہے تو اس کے جواب میں ہم ان کی غلامی قبول نہیں کریں گے ۔میں نے اسے بھی شہ سرخی بنایا تھا ۔ میری چھٹی حس کہتی تھی کہ بھٹو اور مجیب کے مابین صلح ہو نہیں سکتی ۔ عباس اطہر کا کہنا ہے کہ جس دن یہ سرخی چھپی اسی دن پیپلز پارٹی کی طرف سے تردید آگئی تھی ۔ میں نے تردید کو شہ سرخی بنا یا تھا ۔۔نہ میں نہ تم ۔۔۔ہم دونوں۔

 
پیپلز پارٹی پنجاب کے سابق صدر رانا شوکت محمود کی نوشت ’انقلاب اور رد انقلاب کی کہانی ‘ سے ماخوذ صفحات 101—107

4 Comments