جنرل راحیل کے دعوے اور کالعدم تنظیمیں

ClU1a3XWMAAohuo

پاکستانی آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے یوم دفاع کی ایک تقریب سے اپنے خطاب میں نیشنل ایکشن پلان پر مؤثر عمل درآمد کے لیے زور دیا تاہم ایک بڑا سوال یہ ہے کہ آخر کالعدم تنظیمیں اور ان کے رہنماکیسے اور کیوں اس کی زَد میں نہیں آ رہے۔

ایک روز قبل اس تقریب میں جنرل راحیل شریف نے یہ بھی کہا کہ نظامِ انصاف میں پائی جانے والی خامیوں کو دور کیا جانا چاہیے اور ایسی اصلاحات کی جانی چاہییں، جن سے کرپشن، منظم جرائم اور دہشت گردی کے گٹھ جوڑ کو توڑا جا سکتا ہو۔

یاد رہے کہ نیشنل ایکشن پلان کا ایک اہم نکتہ کالعدم تنظیموں کے خلاف ایکشن اور دہشت گردوں کی حمایت کرنے والوں کی پکڑ بھی ہے۔ اس کے علاوہ نفرت آمیز تقاریر کرنے والوں کے خلاف اقدامات بھی اس پلان کا حصہ ہیں لیکن پاکستان کی سول سوسائٹی سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ حکومت نے ان نکات کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے۔ اس حوالے سے سوالات اب صرف نجی محفلوں میں ہی نہیں اٹھ رہے بلکہ پاکستان کی پارلیمان میں بھی اس حوالے سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

سینیٹ میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ کرپشن اور شدت پسندی کا آپس میں گٹھ جوڑ ضرور ہوگا لیکن اس گٹھ جوڑ سے متعلق شواہد ابھی سامنے نہیں آئے لیکن ریاستی اور دہشتگرد تنظمیوں کے گٹھ جوڑ کے ثبوت موجود ہیں جن کی تحقیقات ہونی چاہیے۔

کوئٹہ اور مردان حملوں سے متعلق سینٹ کے اجلاس میں بحث میں حصہ لیتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ جب کوئٹہ میں طالبان کے امیر ملا اختر منصور امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تو اس کے پاس پاکستانی پاسپورٹ تھا جو دہشت گرد تنظیموں اور ریاستی اداروں کا گٹھ جوڑ ثابت کرتا ہے۔اُنھوں نے کہا کہ کالعدم شدت پسند تنظیموں نے پاکستان کے دارالحکومت میں آ کر اجلاس کیا جو ریاستی اداروں کے گٹھ جوڑ کے بغیر ممکن نہیں تھا۔

لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز کئی بار شدت پسند ملیشیا داعش کی کھلم کھلا حمایت کر چکے ہیں لیکن حکومت اُن پر ہاتھ ڈالنے سے گریز کر رہی ہے۔

ایم کیو ایم کے سینیٹر کرنل سید طاہر مشہدی نے ایک تحریک التوا پیش کرنے کی کوشش کی، جس کا مقصد سکیورٹی فورسز کی طرف سے لال مسجد میں انتہا پسند عناصر کے خلاف ایک مجوزہ آپریشن کی حمایت کرنا تھا لیکن اسٹیٹ منسٹر برائے داخلہ بلیغ الرحمان نے ایسے کسی آپریشن کو محض قیاس آرائیوں پر مبنی اور فرضی قرار دے دیا۔ ناقدین کے خیال میں بلیغ الرحمان کی مخالفت سے یہ بات واضح ہو گئی کہ حکومت لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز کے خلاف اقدامات اٹھانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔

کرنل مشہدی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’مولانا عبدالعزیز داعش، طالبان، القاعدہ، لشکر جھنگوی اور دیگر کئی دہشت گرد تنظیموں کا حامی رہا ہے۔ ملک میں نیشنل ایکشن پلان چل رہا ہے۔ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائیاں ہو رہی ہیں اور مولانا عبدالعزیز شہر کے مرکز میں بیٹھا ہوا ہے، اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو رہی۔

اس ملک کی پارلیمنٹ دہشت گردی کے خلاف حکومت کے ساتھ کھڑی ہوئی، اس سلسلے میں قانون سازی بھی کی گئی۔ سیاسی جماعتوں نے بھی حکومت کا ساتھ دیا، اب حکومت کے پاس کوئی جواز نہیں کہ وہ اُن کے خلاف ایکشن نہ لے۔ لیکن میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ حکومت اس مولوی کے خلاف اقدامات کیوں نہیں کر رہی۔ وہ کھلم کھلا داعش کی حمایت کر رہا ہے۔ اُس کے مدرسے کی طالبات داعش کو آنے کی دعوت دے رہی ہیں لیکن حکومت خاموش ہے۔‘‘۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’میں نے کل حکومت سے پوچھا کہ لال مسجد کے مُلّا کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا تو حکومت خاموش رہی۔ ایسا لگتا ہے کہ اسٹیٹ منسٹر برائے داخلہ اور وزیر داخلہ کا لال مسجد کے مولوی کے لیے نرم گوشہ ہے۔‘‘۔

حکمراں اتحاد میں شامل جمیعت علمائے اسلام فصل الرحمٰن گروپ کے سینیٹر حافظ حمد اللہ نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں کالعدم تنظمیں کس نے بنائیں اور اُنھیں روکنا کس کی ذمہ داری ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ پاکستان میں شدت پسندی کے کسی واقعے کے چند منٹوں کے بعد یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ کارروائی بھارتی حفیہ ادارے را کی ہے۔اُنھوں نے کہا کہ کوئٹہ واقعے کے رونما ہونے کے پانچ منٹ پہلے ہمارے خفیہ ادارے اس بات کا سراغ کیوں نہیں لگاتے کہ بھارت پاکستان میں حملوں کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کون ہے جو حکومت کو آزاد پالیسی نہیں بنانے دیتا اور اگر کوئی ان قوتوں کا نام لے لے تو انہیں غدار کے لقب سے نوازا جاتا ہے۔

DW/BBC

3 Comments