پاکستان میں مردم شماری کیوں نہیں کرائی جاتی؟

Asif-Javaid4

آصف جاوید

ڈیموگرافی وہ سائنسی علم ہے جس کے ذریعے دنیا کا ہر ملک اپنی عوام میں وسائل اور سہولتوں کی  منصفانہ تقسیم  اور  قومی منصوبہ  بندی کرتا ہے۔  ڈیموگرافی  ہر ملک کی ترقّی ، اور منصوبہ سازی کے لئے بہت ضروری ہے۔ ڈیموگرافی کے ذریعے دنیا کا ہر ملک انسانی آبادی  کی تعداد، جنس، عمر،  ساخت، سماجی تقسیم ، تعلیم کا تناسب،  بیماریوں کا تناسب، پیدائش و اموات کی شرح کا تعیّن  ، ملکی وسائل کا تخمینہ ، آبادی کی ضروریات، معاشرتی ساخت کا اندازہ، مستقبل کی منصوبہ سازی،    مستقبل کی پیش بینی اور قیافہ آرائی کرتا ہے۔

 ڈیمو گرافی دراصل سماجیاتی سائنس کا علم ہے اور ہر ملک کی ضرورت ہے۔ ہر ملک  اپنی ڈیموگرافی  کو مدِّ نظر رکھ کر پالیسیاں تشکیل دیتا ہے ، اور  قومی وسائل کی تخمینہ کاری  کی بنیاد پر قومی وسائل کو آبادی کے تمام طبقات میں  منصفانہ تقسیم کرتا ہے۔

 پاکستان میں مردم شماری ہوئے تقریبا” 20 سال ہونے کو آئے، پاکستان میں آخری مردم شماری سنہ  1997  کے اووائل میں ہوئی تھی۔ جس کے تحت اُس وقت پاکستان کی آبادی سترہ کروڑ افراد پر مشتمل تھی۔ جو شماریاتی پروجیکشن فارمولے کے تحت اب  22 کروڑ سے زیادہ تجاوز کر چکی ہے۔  پاکستان کے آئین کے تحت حکومت پاکستان  کی ذمہ داری  ہے کہ وہ ہر دس سال بعد لازمی طور پر مردم شماری کرائے، تاکہ آبادی کی صحیح ڈیموگرافی سامنے آسکے۔

چونکہ پاکستان میں مردم شماری کو تقریبا” 20 سال گذر چکے ہیں،  اس عرصہ میں ملک کی ڈیموگرافی یقینابدل چکی ہے۔  حالانکہ پاکستان میں ایک پلاننگ ڈو یژن موجود ہے، محکمہ شماریات بھی ہے،  ہر سال بجٹ بھی بنایا جاتا ہے۔  اقتصادی منصوبے  بھی بنائے جاتے ہیں، مستقبل کی پلاننگ بھی کی جاتی ہے۔ مگر سائنسی بنیادوں پر حقیقی اعداد و شمار کے ذریعے نہیں ، بلکہ شماریاتی اور ریاضیاتی  فارمولوں کی بنیاد  کمپیوٹر  پر گرافک پروجیکشن  کے ذریعے کام چلا یا جاتا ہے۔

بیس20 سال گذر چکے ہیں اس عرصہ میں دو دفعہ مردم شماری ہوجانی چاہئے تھی اور اس مردم شماری کی بنیاد پر ہی ساری منصوبہ  بندی اور  قومی وسائل کی تقسیم ہونی چاہئے تھی، مگر نہ تو حکومت نے مردم شماری کرائی، اور نہ ہی  منصوبہ سازوں نے  اس  کی اہمیت پر زور دیا، سیاستدانوں میں سماجیاتی سائنس کے ادراک اور اہمیت کے احسا س  کی کمی ہے، لہذا سیاستدانوں نے بھی مردم شماری کی اہمیت کو محسوس  نہیں کیا اور پورے ملک میں کسی نے بھی  مردم شماری کا مطالبہ شدّو مد سے  نہیں کیا۔  بہر حال 20 سال گزرنے کے بعد پاکستان میں  تازہ مردم شماری لازمی ہے۔  بڑی عجیب بات ہے کہ گذشتہ  35برسوں  میں صرف ایک  بار مردم شماری ہوئی ہے۔

جنیوا میں گذشتہ دنوں حکومت پاکستان کی جانب سے ملک میں نسلی امتیاز کے خاتمے کے لیے کی جانے والی  کوششوں کی رپورٹ کے جائزہ، اور اس کے بعد  اپنے ریمارکس  میں  اقوامِ متّحدہ کی کمیٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان میں جلد از جلد مردم شماری کا بندوبست کیا جائے۔  اقوامِ متّحدہ کی  نسلی امتیاز سے متعلّق خاتمے کی کمیٹی نے کہا ہے کہ مردم شماری سے متعلّق تازہ ترین اعداد و شمار کی عدم موجودگی سے  ملک کی آبادی کی نسل کی بنیاد پرتازہ ترین تفصیل حاصل نہیں ہوسکی ہے۔

 اقوامِ متّحدہ کی کمیٹی نے حکومت پاکستان  سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی آبادی کی نسلی ترکیب اور ان کی معاشی و معاشرتی صورتحال کا مکمّل  ڈیٹا مہیا کرے تاکہ کمیٹی ان نسلی گروپوں  کی صورتحال اور انھیں دی جانے  سہولیات کےبارے میں  درست معلومات حاصل کرسکے۔

 سپریم کورٹ آف پاکستان  بھی آئندہ عام انتخابات سے متعلق ایک پٹیشن کی سماعت کے دوران  یہ ریمارکس دے  چکی ہے کہ مردم شماری کے بغیر 2017 کے عام انتخابات کی کوئی افادیت نہیں ہوگی۔ پلاننگ کمیشن اور الیکشن کمیشن ماضی میں متعدّد بار تازہ ترین مردم شماری کی اہمیت بیان کرچکے ہیں۔   منصفانہ انتخابات کے حوالے سے یہ تجویز بھی دی جاچکی ہے کہ ہے حکومت  ہر چار سال بعد مردم شماری  کرائے تاکہ آبادی کی صحیح ڈیموگرافی سامنے آسکے، اور   پانچ سال بعد ہونے والے عام انتخابات کا انعقاد نئی مردم شماری کے تحت ممکن بنایاجاسکے۔ لیکن بدقسمتی سے ماضی کی کسی حکومت نے مردم شماری جیسے اہم مسئلے پرکوئی توجہ نہیں دی ہے۔

اس تمام تاخیر میں پراسرار طور پر افواجِ پاکستان کا   مردم شماری کے عمل میں منا سب  حفاظتی فورس فراہم کرنے سے انکار  تشویش کی نگاہ  سے دیکھا جارہا ہے۔  ماضی میں متعدّد مرتبہ  تاخیر کا سبب مردم شماری کے لئے  افواجِ پاکستان کی طرف سے اس عمل میں مدد دینے کے لئے مناسب فورس مہیا کرنے سے انکار ہے۔

اس ضمن میں بارڈر کی تشویشناک صورتحال، طالبان  اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ  کا عُذر  پیش کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن ضربِ عضب کے سبب مردم شماری کے تحفظ و نگرانی کے لیے درکار تین لاکھ فوجی فی الحال دستیاب نہیں۔   یہ عذرسمجھ سے بالا تر ہے کیونکہ   ریگولر ملٹری فورس، پیرا ملٹری فورس، رزرو فورس کی کل تعداد اس وقت ساڑھے دس لاکھ سے زیادہ ہے، ہر صوبے کی پولیس فورس اس کے علاوہ ہے۔

مردم شماری کسی بھی بہانے  سے ٹلے نقصان عام آدمی کا ہی ہے۔جب یہی نہیں معلوم ہو پائے گا کہ کس صوبے، کس  شہر ، کس قصبے ،  کس دیہات کی کتنی آبادی ہے؟  اور اس میں مردوں، عورتوں، بچوں، جوانوں، بوڑھوں کی تعداد کیا ہے؟ کتنے خاندان ہیں؟  کیسے کیسے گھروں میں رہتے ہیں؟ اور ان کی آمدنی  کیا ہے؟  آمدنی کے ذرائع کیا ہیں؟  

جنس، عمر،  سماجی ساخت اور سماجی تقسیم کیا ہے؟ تعلیم کا تناسب، پیدائش و اموات، بیماریوں کا تناسب کیا ہے؟ معاشرتی ساخت کیا ہے؟  قومی ترجیحات کیا ہیں؟ ملکی وسائل کا تخمینہ کیا ہے؟ آبادی کی ضروریات کیا ہیں؟ مستقبل کی منصوبہ  بندی کیا ہے؟ تو اقتصادی و بجٹ ترجیحات ہمیشہ  ہی فرضی اور گڑبڑ رہیں گی۔  

تازہ انتخابی حلقہ بندیاں نہ ہو نے سے   پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلیوں اور بلدیات کی نشستیں فرضی تخمینوں پر بٹتی رہیں گی۔ قومی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم سے  محرومیاں بڑھتی رہیں گی، نفرتیں بڑھتی رہیں گی،  اگر ایسے ہی حالات رہے تو  خانہ جنگی (سِوِل وار) بھی  بعید از قیاس نہیں۔

One Comment