قربانی کی کھالیں اور دہشت گردی 

aimal-250x300ایمل خٹک 

قربانی کی کھالوں سے آمدن عسکریت پسند تنظیموں کی آمدن کا ایک اہم ذریعہ ہے ۔ امسال بھی عید قربان کی آمد پر مختلف عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے کھالیں جمع کرنے کیلئے تشہیری مہم شروع کی گئی۔ قومی منصوبہ عمل یعنی نیشنل ایکشن پلان میں دہشت گرد تنظیموں کو فنڈز روکنے کی بات کی گئی تھی مگر اس سلسلے میں مکمل کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔

کراچی میں آپریشن اور کوئٹہ اور مردان وغیرہ کے دہشت گردی کے واقعات کے بعد ریاستی اداروں کو اس منصوبے کی یاد ستائی اور ساتھ میں دہشت گردوں کو فنڈنگ کا مسئلہ بھی یاد آیا۔ اور اس فنڈنگ کو روکنے کیلئے نئی کوششیں شروع کی گئیں ۔ 

ہر سال پاکستان میں لاکھوں مویشی سنت ابراہیمی کے بھینٹ چڑھ جاتے ہے ۔ پاکستان ٹینرز ایسو سی ایشن کے مطابق امسال 15 ارب روپے کی مالیت  کے مویشیوں کی قربانی متوقع ہے ۔ اور قربانی کی کھالوں سے تقریباً 3 سے 4 ارب روپے کی آمدن متوقع ہے جبکہ پچھلے سال یہ آمدن  6 سے 7  ارب روپے تھی ۔

اس سال کھالوں  کی قیمت کافی کم ہے جس کی وجہ سے کھالوں سے ہونے والی مجموعی آمدنی بھی متاثر ہوگی۔  قربانی کی کھالوں کو بطور عطیہ یا صدقہ جمع کرنے کیلئے مختلف رفاعی اداروں کے ساتھ ساتھ مدارس ، مختلف مذھبی جماعتیں اور عسکریت پسند تنظیمیں بھی سرگرم عمل ہو جاتی ہیں ۔

روایتی طور پر عسکریت پسندوں کیلئے بقر عید اور رمضان خاص کر زکوٰۃ اور فطرانہ چندے اور عطیات جمع کرنے کے اہم مواقع ہوتےہیں ۔  ماضی قریب تک ریاست نے ان مواقعوں پر عسکریت پسندوں کو چندے اور عطیات جمع کرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی تھی ۔ مگر سال گزشتہ سے قومی منصوبہ عمل کے تحت اور اندرونی اور بیرونی دباؤ کے پیش نظر کھالیں جمع کرنے پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے ۔

جبکہ امسال کھالیں جمع کرنے کے عمل کو بہتر انداز میں ضابطے کے تحت لانے اور کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔  اس سلسلے میں سندھ اور پنجاب میں کھالیں جمع کرنے پر کچھ پابندیاں لگائی گئی ہے۔  جبکہ پختونخوا اور بلوچستان میں اتنی سختی دیکھنے میں نہیں آرہی۔  

ماضی  میں کوئی روک ٹوک نہ ہونے کی وجہ سے بلکہ ریاست کی سرپرستی سے ان اربوں روپے کی آمدن کا اچھا خاصہ حصہ عسکریت پسند تنظیموں کو بھی مل جاتا تھا۔ اس مقصد کیلئے عید قربان سے پہلے وسیع پیمانے پر پروپیگنڈا مہم چلائی جاتی ہے اور کھالیں جمع کرنے کیلئے وسیع نیٹ ورک بروئے کار لایا جاتا ہے۔

عرصہ دراز سے کام کرنے والی تنظیموں نے اپنا ایک حلقہ اثر بنایا ہوا ہے اور ان کو باقاعدگی سے وہاں سے کھالیں ملتی ہے۔ بیرونی دباؤ پر بعض عسکریت پسند تنظیموں پر پابندی لگا تو دی گئی مگر ان کو دوسرے ناموں سے کام کرنے دیا گیا۔ کچھ تنظیموں نے تو رفاعی ادارے بنا کر اپنے آپ کو کیمو فلاج کرنے کی کوشش کی۔ مگر ابھی تک ان کے عطیات جمع کرنے والے بینرز اور پوسٹرز پر جہاد کی عکاسی ہوتی ہے۔   

پنجاب میں کھالیں جمع کرنے کیلئے ضلعی انتظامیہ سے این او سی لینا پڑتا ہے اور کھالیں جمع کرنے کے لیے کیمپ لگانے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ این او سی کیلئے درخواست کے ساتھ کالعدم تنظیموں سے لا تعلقی کا بیان حلفیہ بھی جمع کرانا پڑتا ہے۔ اس طرح آمدن اور خرچ  کا ریکارڈ بھی دینا پڑتا ہے۔

پنجاب حکومت نے این او سی کے اجرا میں سختی سے کام لیا ہے ۔ ابھی تک 108 مدارس اور 9 این جی اوز کو این او سی ملا ہے ۔  پنجاب حکومت نہ 63 کالعدم عسکریت پسند تنظیموں پر کھالیں جمع کرنے کی پابندی لگائی ہے اور ان کی فہرست متعلقہ ضلعی حکام کو بھیجی گئی ہے۔ جس سے کسی حد تک کھالوں سے عسکریت پسندوں کی آمدن پر کچھ اثر پڑا ہے۔

مگر پنجاب کے بعض علاقوں میں اچھے عسکریت پسندوں مثلا ان رفاعی تنظیموں جن پر کالعدم لشکر طیبہ سے تعلق کا شبہ کیا جاتا ہے کو کھالیں جمع کرنے کی کھلی چھٹی دی گئی ہے۔ پنجاب میں فلاح انسانیت فاونڈیشن سب سے زیادہ کھالیں جمع کرتی ہیں ۔ اس فاونڈیشن نے 2013 میں ایک لاکھ کھالیں جمع کرنے کا ٹارگٹ مقرر کیا تھا۔  

پنجاب کی نسبت سندھ میں کھالیں جمع کرنے کا معاملہ کسی حد تک مختلف ہے ۔ چونکہ سندھ خاص کر کراچی قربانی کی کھالیں بزور چھیننے کیلئے مشہور ہے ۔ اسلئے امسال یہاں غیر قانونی طور پر کھالیں جمع کرنے کی عمل کی روک تھام کیلئے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔  

متحدہ قومی موومنٹ کی آمدن کا ایک اچھا خاصہ ذریعہ عید الفطر کے موقع پر فطرانہ اور زکوٰۃ اور عید قربان کی کھالوں سے آمدن اور عطیات ہوا کرتی  تھی ۔ ایم کیو ایم نے قربانی کی کھالیں جمع کرنے کا آغاز 1985 کے بعد سے کیا تھا۔ اور لیدر انڈسٹری کے ذرائع کے مطابق وہ پچھلے کئی سالوں سے ہر سال تقریباً ایک لاکھ کے قریب کھالیں جمع کرتی تھی۔ اور یہ عمل گزشتہ دو سال سے آپریشن کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔

پارٹی کو لندن سے باقاعدہ اس موقع پر چندے کا ٹارگٹ ملتا تھا لیکن اب پارٹی اس ٹارگٹ کو پورا کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ یہ عطیات بانی تحریک ، لندن سیکریٹریٹ  اور دیگر اوورسیز کاموں کا خرچہ پورا کرنے کا بڑا ذریعہ تھا۔ اگرچہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے رسمی طور پر کھالیں جمع نہ کرنے کا اعلان کیا ہے مگر بعض حلقوں کی جانب سے غیر روایتی طریقوں سے کھالیں جمع کرنے کی کوششیں کی گئی ہے۔سندھ میں ایم کیو ایم زیادہ کھالیں جمع کرتی رہی ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق ماضی میں عید قربان پر کراچی میں 60 سے 70 فیصدی کھالیں ایم کیو ایم اکٹھی کرتی تھی۔

کھالوں کی جبری چھیننے کی وارداتوں کو روکنے کیلئے سندھ میں عید کے تینوں دن غیر اعلانیہ ایمرجنسی قائم کی گئی تھی۔ کھالیں جمع کرنے کیلئے اجازت نامہ لازمی قرار دیدیا گیا تھا۔ کھالیں جمع کرنے کےلیے بینرز اور کیمپ لگانے پر پابندی جبکہ کھالیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیلئے بھی اجازت نامہ لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اور کھالیں جمع کرنے والے اداروں سے کھالوں سے حاصل آمدن اور خرچ کا حساب کتاب لیا جائیگا۔

 غیر قانونی طور پر کھالیں جمع کرنے والوں کے ساتھ ساتھ ان کو چوری چھپے کھالیں دینے والے افراد کے خلاف دہشت گردوں کی مالی معاونت  کے جرم میں گرفتار اور مقدمات بنانے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔  پچھلے سال سندھ میں 800 کے قریب مشکوک افراد کو کھالیں چھیننے پر گرفتار کیا تھا۔ 

 خیبر پختونخوا کے بعض علاقوں میں عسکریت پسند تنظیمیں باقاعدہ گاڑیوں پر لاوڈ اسپیکر لگے شہر میں کھلے عام قربانی کی کھالیں عطیہ یا صدقہ کے طور پر دینے کے اعلانات کر رہی تھیں۔  مثلا ضلع دیر میں البدر مجاہدین ، جماعت الدعوۃ اور حزب المجاھدین کھلم کھلا کھالیں اکٹھی کرنے کیئے بھرپور عوامی مہم چلا رہے ہیں ۔

ایک مقامی سماجی کارکن ابراش پاشا نے عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے کھلم کھلا کھالیں جمع کرنے کی مہم کی تصدیق کی اور کہا کہ صرف ان کے ضلع دیر بالا سے عسکریت پسندوں کو اس مد میں پانچ سے آٹھ ملین روپے تک آمدن کا امکان ہے۔  

دوسری طرف ذمہ دار شہریوں میں قربانی کی کھالوں سے حاصل آمدن کے دہشت گردی کیلئے استعمال کے حوالے سے تشویش اور تحفظات موجود ہیں جس کا وہ مختلف طریقوں سے اظہار کر رہے ہیں۔ بعض علاقوں میں شہریوں کی جانب سے قربانی کی کھالوں کا عطیہ سوچ سمجھ کر دینے کے پوسٹرز بھی لگائے گئے ہیں۔

poster

سوشل میڈیا پر بھی باشعور شہری کھالوں کا عطیہ احتیاط سے دینے کے مشورے دے رہے ہیں اور یہ پوسٹ کہ کسی مذہبی جماعت یا مدرسے میں قربانی کی کھال دینے سے پہلے اس بات کا اطمینان کر لیں کہ کہیں یہ کھالیں آپکی بچوں کی کھالیں ادھیڑ نے کے کام نہ آجائے ”  آجکل سوشل میڈیا میں بہت زیادہ مقبول ہوا ہے ۔

 اس طرح بعض شہری عسکریت پسند تنظیموں کی سرگرمیوں کی نشاندہی کر رہے ہیں ۔ اور ان کے پوسٹرز وغیرہ کی تصاویر سوشل میڈیا پر ڈال کر اپنی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر آجکل حزب المجاہدین ضلع دیر کے ایک پوسٹرز کا چرچہ ہے جو اس کی قربانی کی کھالیں جمع کرنے کی تشہیری مہم کا حصہ ہے ۔

پوسٹرز پر کشمیر، فلسطین ، افغانستان ، عراق اور برما میں مسلمانوں پر ظلم کی کچھ تصویریں دی گی ہیں اور پھر کہا گیا ہے کہ حزب کے مجاہدین ہر میدان میں ان کے مقابلے کیلئے موجود ہیں اور ان کو عطیات اور خاص کر قربانی کی کھالیں دینے کی اپیل کی گئی ہے۔ اور رابطے کیلئے تین ذمہ داران کے نمبر تک دئیے گئے ہیں ۔  

مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے درمیان قربانی کی کھالیں جمع کرنے کا مقابلہ سندھ میں اکثر اوقات متشدد اور باقی علاقوں میں نسبتا پرامن رہتا ہے۔ پچھلے سال کھالوں پر پابندی پر ایم کیو ایم کے ایک راہنما کا یہ تبصرہ اس ٹویٹ کی شکل میں کافی مشہور ہوا تھا کہ قربانی کی کھالیں ایم کیو ایم کو دینا سخت گناہ کا مؤجب ہے البتہ جماعت اسلامی کو دینے کا دُگنا اجر ہے۔ فتوی جامعہ رینجرویہ۔

یہ ٹوئٹ اگر ایک طرف پابندی سے پیداشدہ صورتحال میں ان کی فرسٹریشن کا اظہار تھا تو دوسری طرف رینجرز پر چبھتی ہوئی تنقید بھی کہ پچھلے سال ان کو تو اجازت کے باوجود کھالیں جمع کرنے نہیں دیا گیا مگر ان کے سیاسی حریفوں کو کھلی آزادی دی گئی تھی۔  اس سے مختلف سیاسی اور مذہبی گروپوں میں قربانی کی کھالوں کیلئے آپس میں زوردار مسابقے کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ 

قربانی کی کھالوں سے ہونے والی آمدنی کو عسکریت پسندوں کے ہاتھوں میں جانے سے روکنے اور اس کی اندرون ملک اور بیرون ملک دہشت گردی کیلئے استعمال کو روکنے کےلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ پورے ملک میں یکساں پالیسی نافذ کی جائے اور پالیسی اور متعلقہ قوانین پر بلا استثنیٰ عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے ۔

دہشت گردی کے فنڈنگ کے کثیر ذرائع ہیں ان سب کی نشاندہی اور سدباب ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اب دنیا گلوبل ویلیج ہے ۔ امریکہ میں ایک اہم قانون سازی زیر غور ہے جس کے تحت گیارہ ستمبر میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین سعودی عرب سے ہر جانے کا دعوی ٰکرسکتے ہیں ۔

حالانکہ اس واقعے میں سعودی حکومت کا براہ راست کوئی رول نہیں جبکہ ملزمان میں اکثریت سعودی باشندوں کی تھی۔اگر یہ روایت قائم ہوگئی اور اس کا دائرہ دیگر ممالک تک پھیلایا گیا تو بات ہماری دہلیز تک بھی پہنچ سکتی ہے ۔

اس لئے بدلتی ہوئی دنیا کے تقاضوں اور شرائط کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ دہشت گردی چاہے جہاں ہو جس شکل میں بھی ہو اس کی حمایت کے بجائے اس کی مذمت ہونی چائیے ۔ 

Comments are closed.