گلگت سی پیک کانفرنس اور سلیم صافی کا سوال

IMG_99361

صفدرعلی صفدر

اقتصادی راہداری اور گلگت بلتستان کے موضوع پر میری کوشش رہی ہے کہ سی پیک منصوبے کے تحت پاکستان اور چین کے مابین طے پانے والے منصوبوں کے بارے میں گلگت بلتستان کے عوام کوآگاہ کروں کہ دونوں ممالک کے مابین46ارب ڈالرکے کن منصوبوں پر دستخط ہوئے ہیں اور ان میں سے گلگت بلتستان کے حصے میں کتنے منصوبے رکھے گئے ہیں۔

اگر آپ پلاننگ کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ پر دستیاب دستاویزات کا مطالعہ کریں تو بدقسمتی سے گلگت بلتستان کی تعمیروترقی کاکوئی منصوبہ شامل نہیں ۔ میں یہ چیلنج کرتا ہوں کہ اگروفاق یا گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت کے کسی نمائندے کو میری ان باتوں سے اختلاف ہے تو وہ46ارب ڈالر کے ان منصوبوں میں سے کوئی ایک منصوبہ بمعہ لاگت عوام کے سامنے رکھ دیں کہ سی پیک سے گلگت بلتستان کو فلاں منصوبے کے تحت اتنا فائدہ ہونے جارہا ہے۔

میں اس بات پر اس لئے زور دے رہا ہوں کہ اکیسویں صدی کے اس دورمیں زبانی باتوں اور بے تکے دعوؤں کی کوئی اہمیت نہیں ۔اگر اہمیت ہے تو تحریری معاہدوں اور دستاویزات ہی کی ہے اورسی پیک کے دستاویزات میں مجھے گلگت بلتستان کا ذکر کہیں پر بھی دکھائی نہیں دے رہا ہے۔

یہ بات صرف میں ہی نہیں بلکہ گلگت بلتستان کا ہرذی شعورفرد سی پیک کے حوالے سے تحفظات کا اظہار محض اس وجہ سے کررہا ہے کہ اقتصادی راہداری سے متعلق کسی بھی دستاویزمیں اس گیم چینجر منصوبے کے گیٹ وے کا کوئی وجود نہیں۔المیہ یہ ہے کہ یہی باتیں وفاقی اور صوبائی حکمرانوں پر ناگوار گزرتی ہیں اور وہ ریاستی طاقت کے ذریعے سی پیک میں گلگت بلتستان کا حصہ مانگنے والوں کا منہ بندکرانے کی مذموم کوششوں میں مصروف نظرآتے ہیں۔

جہاں تک گلگت میں منعقدہ سی پیک کانفرنس کا تعلق ہے، تو یہ کانفرنس بظاہر بہت شاندار رہی۔صوبائی حکومت اور قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے کانفرنس کے انتظامات میں کسی قسم کی دقیقہ فروگزاشت نہ تھی۔کانفرنس کے مقررین اور شرکاء کا انتخاب بھی قابل اطمینان تھا،جو بولنے اور سننے میں کوئی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔

اسلام آبا د سے مدعو صحافی سلیم صافی اور وفاقی وزیراحسن اقبال کے درمیان دلچسپ مکالمے اوردوسرے روزآرمی چیف جنرل راحیل شریف کی آمد نے کانفرنس کی رونقوں کوتو چارچاند لگا دیا۔لیکن اس کے باوجود کانفرنس گلگت بلتستان کے عوام کی سی پیک سے متعلق خوابوں کو تعبیر نہ دے سکے۔وہ اس لئے کہ د دوروزہ کانفرنس کے نام پر کروڑوں روپے اڑانے کے باوجود سی پیک میں گلگت بلتستان کے شیئرکا تعین نہیں کیا جاسکا۔

چونکہ سی پیک کے حوالے سے گلگت بلتستان میں یہ پہلی اعلیٰ سطحی کانفرنس ہونے جارہی تھی اور گلگت بلتستان کے عوام کی اس کانفرنس سے بہت زیادہ توقعات تھیں۔خود مسلم لیگ(ن) کے صوبائی حکمران اور اپوزیشن جماعتوں کے ارکان قانون سازاسمبلی بھی اس خوش فہمی میں تھے کہ شاید اکنامک کوریڈور منصوبے کے روح رواں و وفاقی وزیرمنصوبہ بندی احسن اقبال جیسا قابل اور ہوشیارترین وزیر اس کانفرنس میں سی پیک سے گلگت بلتستان کو حاصل شدہ ثمرات بمعہ لاگت فنگرٹپس میں بیان کریں گے۔

مگروفاقی وزیرنے اپنی روایتی تقریرمیں گلگت بلتستان کے حکمرانوں اور عوام کو ایک مرتبہ پھرسبزباغ دکھانے کی کوشش کی ۔جس پر جب کانفرنس کی پہلی صف میں صوبائی حکومت کے خرچے پر اسلام آباد سے تشریف فرماصحافی سلیم صافی نے سی پیک سے متعلق ایک اہم نکتے پرسوال اٹھایا تو وفاقی وزیرنے ٹال مٹول سے کام لیا اوراگلے روزکے سیشن میں شریک ہوئے بغیر اسلام آباد روانہ ہوگئے۔

کانفرنس کے اختتام پر ایک رکن اسمبلی نے بتایا کہ یہ کانفرنس تو ’کھودا پہاڑ،نکلا چوہا‘ کے مترادف رہی،کیونکہ لوگ جس امید اور مقصدکی غرض سے کانفرنس میں شرکت کے لئے آئے تھے، انہیں سی پیک کے حوالے سے وفاقی وزیرکی بریفنگ،منصوبوں کی تفصیل اور سکرین پر دیکھائے جانے والے نقشے سے مایوسی کے سواکچھ نہیں ملا۔

تاہم آرمی چیف کی آمد اور جاندار تقریر سے گلگت بلتستان کے عوام کویہ حوصلہ ضرور ملا کہ حکومت نہ سہی تو کم سے کم افواج پاکستان کو گلگت بلتستان کی سلامتی اورعوامی مسائل کا ضرور ادراک ہے۔کیونکہ گلگت بلتستان کے عوام جن دیرینہ مسائل کے حل کے لئے وفاقی حکومت کی طرف دیکھ رہے تھے وہ تو آرمی چیف نے حل کرنے کا اعلان کرڈالا۔

جگلوٹ تا سکردو روڈ کی تعمیراورشاہراہ قراقرم کو مسافروں کے لئے محفوظ بنانا یہاں کے عوام کا دیرینہ مطالبہ تھا، جسے جنرل راحیل شریف نے حل کرنے کی یقین دہانی کرواکرعوام کے دل جیت لئے۔یہی وجہ تھی کہ کانفرنس کے شرکاء نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا پرتپاک استقبال کیا اور ان کے حق میں نعرے بھی لگائے۔

کانفرنس میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاکر گلگت بلتستان کے عوام نے یہ بھی ثابت کرد کھایا کہ گلگت بلتستان کا کوئی بھی فرد پاکستان مخالف نہیں۔اگر کوئی مخالفت ہورہی ہے تو وہ حکومتی پالیسیوں کی ہورہی ہے،ریاست کی نہیں۔ ریاست اور حکومت میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے جو سیکیورٹی کے ادارے سمجھنے سے عاری ہیں۔گلگت بلتستان کے عوام سی پیک کی مخالفت نہیں کر رہے بلکہ اس کی کامیابی کے لئے دعاگوہیں اورایک قانونی و جمہوری طریقے سے اس اہم منصوبے میں اپنا حصہ مانگ رہے ہیں ۔اس کے باوجود حکمرانوں کی جانب سے انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاک فوج کسی کام کے کرنے میں جب ایک مرتبہ دلچسپی ظاہرکرتی ہے تو وہ کسی بھی قیمت پر پایہ تکمیل تک پہنچاکر دکھاتی ہے ،اسی لئے عوام کوبھی سول حکومت یا سیاستدانوں کی نسبت آرمی چیف کے اعلانات پر پختہ یقین ہوتا ہے۔کاش آرمی چیف کی طرح اگر احسن اقبال بھی سی پیک کے معاملے پر گلگت بلتستان کے عوام کو اعتمادمیں لینے میں کامیاب ہوجاتے توانہیں بھری محفل میں سیلم صافی کے سوال پر اس قدرندامت نہ ہوتی۔

کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ گلگت بلتستان میں اقتصادی راہداری میں حصہ مانگنے والوں پر غداری کے مقدمات درج کرکے پابند سلاسل کیا جاتا ہے اور وفاقی دارالحکومت سے آئے ہوئے ایک صحافی کواسی موضوع پر وفاقی وزیرسے سوال پوچھنے پر ہیروبناکر پیش کیا جاتا ہے؟سلیم صافی نے کوئی نئی بات نہیں کہی،انہوں نے بھی وہ سوال اٹھایا جو گلگت بلتستان کے لوگوں کےذہنوں میں ایک عرصے سے گردش کررہا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا آرمی چیف سی پیک میں گلگت بلتستان کوعوام کی امنگوں کے مطابق کوئی شئیر دینے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں ۔ اگر نہیں تو یہ اس علاقے کے عوام کی انتہائی بدقسمتی ہی ہوگی۔ کیا آرمی چیف کا وعدہ پورا نہ ہونے کی صورت میں سلیم صافی آرمی چیف سے بھی یہی سوال کرنے کی جرات کر سکیں گے؟۔

اگر سیلم صافی نے وفاقی وزیر کے سامنے سچائی پر مبنی سوال اٹھایا تھا تو پھر عوامی ایکشن کمیٹی کے عہدیداران کو کس جرم کی سزا دی جارہی ہے؟ کیونکہ عوامی ایکشن کمیٹی کا بھی یہ اولین مطالبہ ہے کہ’ اقتصادی راہداری میں گلگت بلتستان کی موجودہ آئینی وجغرافیائی حیثیت کو مدنظررکھتے ہوئے حصہ دیا جائے‘۔ یہ مطالبہ صرف عوامی ایکشن کمیٹی کا نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے عوام کی مشترکہ آواز ہے ،جسے ریاستی طاقت کےذریعے دبانے کی کوشش حکمرانوں پر بھاری ثابت ہوسکتی ہے۔

Comments are closed.