کیا بھارت کو سفارتی فتح حاصل ہو رہی ہے

saarc-modi-reu-file-759

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے سارک سربراہی کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا ہے اور ان کے اس فیصلے کے بعد بنگلہ دیش، افغانستان اور بھوٹان نے بھی پاکستان میں ہونے والی اس علاقائی سربراہی کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔

بھارت نے سارک کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا جواز سرحد پار سے مبینہ در اندازی اور دوسرے ممالک کی اندرونی معاملات میں دخل اندازی بتایا ہے۔

بھارت کے خارجہ امور کے ترجمان وکاس سوروپ نے ٹویٹ کیا تھا کہ ’علاقائی تعاون اور انتہا پسندی ایک ساتھ نہیں چل سکتے، لہٰذا انڈیا اسلام آباد کانفرنس میں شامل نہیں ہو گا‘۔

پاکستان اور انڈیا کے تعلقات کشمیر کے علاقے اوڑی میں انڈین فوج کے بریگیڈ ہیڈکوارٹر پر شدت پسندوں کے حملے کے بعد مزید خراب ہو چکے ہیں۔

انڈیا نے الزام لگایا ہے کہ حملہ آور سرحد پار سے آئے تھے اور اس کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں اس نے شناختی ثبوت بھی پاکستانی حکام کے حوالے کیے ہیں۔اس حملے کے بعد انڈیا کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ ان کا ملک پاکستان کو دنیا میں تنہا کر دینے کے لیے کوشاں ہے۔

سارک سربراہی کانفرنس، جنوبی ایشیا کے آٹھ ممالک کے سربراہوں کا اجلاس ہے جو ہر دو سال بعد منعقد ہوتا ہے اور اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات اس کانفرنس کا 19 واں اجلاس ہے۔

مبصرین کے مطابق پاکستان کو سفارتی سطح پر تنہا کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔کیونکہ سارک کے آٹھ ممالک میں سے چار نے پاکستان میں ہونے ہوالی کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔

پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق بنگلہ دیش کی جانب سے سارک کے موجودہ صدر ملک نیپال کو بھیجے گئے پیغام میں کہا گیا ہے کہ ’ بنگلہ دیش کے داخلی معاملات میں ایک ملک کی بڑھتی ہوئی مداخلت کی وجہ سے ایسا ماحول پیدا ہو چکا ہے جو نومبر میں اسلام آباد میں 19ویں سارک سربراہ اجلاس کے کامیاب انعقاد کے لیے مناسب نہیں۔‘

افغانستان کے صدر اشرف غنی بھی مسلسل پاکستان پر دہشت گردوں کی حمایت کا الزام لگا رہے ہیں جو افغانستان میں دہشت گردی میں ملوث ہیں۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے کہا کہ بھارت کا یہ اعلان افسوس ناک ہے جبکہ پاکستان علاقائی امن و استحکام کے لیے پر عزم ہے اور خطے کے عوام کے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔

اس موضوع پر سینیئر بھارتی صحافی اوما شنکر سنگھ نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’دونوں ممالک کے مابین روایتی جنگ تو اب نہیں ہو سکتی لہٰذا بھارت نے پاکستان کو سفارتی محاذ پر شکست دینے کا فیصلہ کیا ہے، اقوام متحدہ کی سطح پر پاکستان کا معاملہ اٹھانے کے بعد بھارت نے اب علاقائی فورمز پر بھی پاکستان کو تنہا کرنے کا تہیہ کیا ہے۔‘‘ اوما شنکر سنگھ نے کہا کہ سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے بھارت کا یہ کہنا ہے کہ وہ اپنے حصے کے پانی کا بھرپور فائدہ اٹھائے گا۔

جنوبی ایشیائی امور کے بھارتی تجزیہ کار اشوک ملک نے اس حوالے سے اے ایف پی کو بتایا، ’’یہ بھارت کے لیے ایک علامتی فتح ہے۔

بھارت کی طرف سے سارک سربراہ کانفرنس میں شرکت کرنے سے انکار پر پاکستان کے سابق ہائی کمشنر اشرف جہانگیر قاضی نے کہا، ’’بھارت کا سارک سمٹ میں شرکت سے انکار ایک منفی پیش رفت ہے، جس کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلے گا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں حالیہ بحران کا حل مذاکرات ہی سے نکلے گا لیکن کشمیر کے معاملے پر بات چیت کے بغیر دونوں ریاستوں کے مابین نتیجہ خیز

مذاکرات ناممکن ہیں۔

سابق سفارت کار عزیز خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ سارک کا اجلاس منسوخ ہو گیا ہے۔ لیکن اجلاس منسوخ ہو گیا تو ہو گیا، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس سال اجلاس نہیں ہو گا اگلے سال ہو جائے گا اور اس میں انڈیا آ جائے گا۔‘

تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان ایک طرف مذاکرات کی بات بھی کرتا ہے اور دوسری طرف دہشت گردوں کی حمایت بھی کرتا ہے بلکہ پاک فوج کے حمایت یافتہ دہشت گرد تنظیمیں لشکر طیبہ، جیش محمد اور حزب المجاہدین اسلام آباد سمیت پورے ملک میں آزادی سے اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔

پاکستانی میڈیا اور اس کے پیدا کردہ دانشور پہلے تو حملوں سے صاف انکار کر دیتے ہیں مگر کچھ عرصے بعد حقیقت کو تسلیم کر لیتے ہیں۔ یاد رہےکہ پاکستان نے کارگل پر حملے کی بھی سختی سے تردید کی تھی مگر بعد میں ناقابل تردید ثبوت کی وجہ سے تسلیم کر لیاتھا۔ مگر پاکستان نے آج تک اس پر شرمندگی کا کوئی اظہار نہیں کیا ۔

اسی طرح ممبئی حملے ہوں یاپٹھان کوٹ پر حملہ، پاکستان ذمہ داران کے خلاف کاروائی کی بات تو کرتا ہے مگر عملی طور پر کوئی قدم نہیں اٹھاتا۔

پاکستان کا میڈیا ملٹرائز ہو چکا ہےاور کسی میں اتنی جرات نہیں کہ وہ پاک فوج پر دہشت گردوں کی حمایت پر تنقید کر سکے۔ نواز حکومت تو مکمل طور پر جرنیلوں کے سامنے سرنڈر کر چکی ہے جبکہ روشن خیالی کا دعویٰ کرنے والے بھی خاموش بیٹھے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق جنرل راحیل شریف اور ان کی میڈیا ٹیم نے مکمل طور پر پاکستانی میڈیا کو ہائی جیک کر لیا ہے ،یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے تمام روشن خیال صحافی، لکھاری اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان الدین وانی کو دہشت گرد قرار دینے کی بجائے اسے کشمیریوں کی جدو جہد آزادی کا سمبل بنا دیا ہے۔

DW/BBC/News Desk

One Comment