بھارت کی جارحانہ سفارتکاری اور پاکستان

aimal-250x300

ایمل خٹک 

وزیراعظم نریندرا مودی کے دور میں بھارت کی جارحانہ پالیسی علاقے میں نئی تزویراتی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہو رہی ہے۔ جنوب اور جنوب مشرقی ایشیا میں نئی ابھرتی ہوئی تزویراتی تبدیلیوں کے نتیجے میں علاقائی اور عالمی قوتوں کی نئی صف بندی وجود میں آرہی ہے۔

علاقے میں موجود قدرتی وسائل اور بیرونی منڈیوں تک رسائی اور انرجی اور تجارتی راہداریوں کو محفوظ بنانے اور اس پر کنٹرول کیلئے جاری جنگ اب زیادہ کھل کر اور شدت سے ہونے کا امکان ہے۔ اور فریقین اپنی سودا بازی کی قوت بڑھانے اور زیادہ سے زیادہ معاشی اور سیاسی فوائد حاصل کرنے کیلئے اپنے اپنے شطرنج کے گھوڑوں کے ساتھ میدان میں اتر رہے ہیں۔

اگر سٹرٹیجک شطرنج پرامن طریقے سے نہیں کھیلا گیا تو جاری سرد جنگ گرم جنگ میں بدل سکتی ہے۔ اور تنازعات کے حل کا ایک ناپسندیدہ اور تباہ کن طریقہ ہی سہی مگر محدود جنگ کے امکان کو خارج نہیں کیا جاسکتا۔ ابھرتا ہوا صورتحال علاقے میں کشیدگی اور بے یقینی کو جنم دے گا۔ یہ صورتحال جنگ پرست اور کشیدگی کو ہوا دینے والے قوتوں کیلئے خوشی کا اور امن پسند قوتوں کیلئے باعث تشویش ہے۔  

امریکہ سے بڑھتی ہوئی قربت اور آشیرواد کی وجہ سے بھارت اب کھل کر چین اور پاکستان کے ساتھ سٹرٹیجک گیم کھیلنے لگا ہے۔ وہ چین اور پاکستان دونوں کے دکھتی رگوں کو چھیڑ رہا ہے۔ بلوچستان اور سی پیک پر وزیر اعظم مودی کے حالیہ بیانات اور جنوب مشرقی ایشیا میں چین مخالف قوتوں سے دوستی بڑھانا بھارت کی جارحانہ انداز سفارتکاری کی بین ثبوت ہے۔

قدرے اقتصادی استحکام کی وجہ سے بھارت اب علاقائی سے بڑھ کر عالمی طاقت بننے کے چکر میں ہے اور اس میں شک و شبے کی گنجائش نہیں کہ وہ پاکستان کو کسی خاطر میں نہیں لا رہا بلکہ وہ چین سے سیاسی ٹکر لینے کے تیاریوں میں ہے۔ 

اگر ایک طرف چین نے خاموشی سے جنوبی ایشیا میں اپنے پنجے گاڑھے ہیں ۔ بھارت اس عمل کو اپنی علاقائی چودھراہٹ کیلئے خطرہ محسوس کر رہا ہے۔ تو دوسری طرف بھارت جنوبی چینی سمندر کے متنازعہ علاقے میں ہاتھ پاؤں مارنے لگا ہے اور سمندر پر چین کے دعوے کی بجائے دیگر ممالک مثلا ویت نام وغیرہ کی موقف کی تائید کر رہا ہے۔

اور باتوں کے علاوہ مودی کا حالیہ دورہ ویت نام اس سلسلے کی کڑی ہے ۔ بھارت چین کو کاؤنٹر کرنے کیلئے جاپان سے بھی پینگیں بڑھا رہا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا میں بھارت، جاپان اور امریکہ کی مفادات میں مماثلت کی وجہ سے تینوں ممالک کے درمیان ذہنی ہم آہنگی اور اشتراک عمل بڑھ رہا ہے ۔ جو کہ یقیناً چین کیلئے باعث پریشانی ہوگا۔  

پاکستان کے پالیسی ساز اور ریاستی دانشور ابھی تک سرد جنگ اور نئی سرد جنگ کے خمار سے نہیں نکلے۔ وہ ابھی تک پاکستان کی اہمیت اور مغربی دنیا کی جانب سے خوشنودی کے انتظار میں بیٹھے ہیں ۔ حالانکہ امریکہ اور پاکستان کا نکاح عملاٹوٹ چکا ہے ۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچی اور ہم ابھی تک ہاتھی کے کان میں سو رہے ہیں ۔ ہم ابھی تک اپنے آپ کو مغربی دنیا کیلئے ناگزیر سمجھتے ہیں ۔ اور ان کے پہلے جیسے دست شفقت اور لطف و کرم کے متمنی ہیں ۔ 

ستم ظریفی یہ ہے کہ جس وقت یہ اہمیت تھی اس وقت ہم نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔ اور کئی سنہرے مواقع گنوائے۔ مثلااگر بھارت کو افغانستان اور وسطی ایشیا تک رسائی دی جاتی تو نہ صرف پاکستان کو سالانہ راہداری کی مد میں اربوں ڈالر کی آمدن حاصل ہوتی بلکہ علاقائی تعاون اور ترقی کے دور میں علاقائی روابط کے فوائد سے بھی مستفید ہوتے۔

 پاکستان سے مایوسی کے بعد اب بھارت نے چاہ بہار بندرگاہ کی شکل میں متبادل روٹ ڈہونڈ لیا ہے۔ چاہ بہار بندرگاہ کی شکل میں افغانستان کو بھی متبادل روٹ ہاتھ آگیا ہے جس سے اس کا پاکستان پر انحصار کم ہو جائیگا۔ افغانستان پاکستانی مصنوعات کی سب سے بڑی منڈی تھی اور اب افغانستان کی مارکیٹ آہستہ آہستہ پاکستان کے ہاتھوں نکلتی جا رہی ہے۔جس سے پاکستانی صنعت کو سخت دھچکا لگنے کا امکان ہے۔

اپنی خوش فہمیوں اور غلط فہمیوں کی شکار پاکستانی اسٹبلشمنٹ جب خواب خرگوش سے بیدار ہوگئی تو پتہ چلے گا کہ اس کے ساتھ کیا ہاتھ ہو گیا ہے۔ ہمارے اکثر پڑوسی ممالک خارجہ تعلقات میں نظریات کی بجائے اقتصادی مفادات کو فوقیت دے رہے ہیں جبکہ ہماری پہلی ترجیح نظریات ہوتے ہیں۔

پاکستان میں سفارت کاری ایک اہم اور عام اصول کہ ممالک کے مفادات مستقل ہوتے ہیں نہ کہ تعلقات کو اکثر و بیشتر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ ہم بعض عالمی اور علاقائی قوتوں کے ذہنی غلام بن گئے ہیں اور یہ سوچ پیدا ہوگئی ہے کہ ان کے بغیر ہمارے معاملات نہیں چل سکے گے۔ ہم نے ایک قوت  یا ہم خیال قوتوں کے گروپ یعنی امریکہ اور اس کے حلیف قوتوں  پر انحصار کیا اور ان کی حریف قوتوں سے دوستی سے اجتناب کیا۔

اب سارے انڈے چین کے تھیلے میں ڈالے جا رہے ہیں لیکن چین جیسے بنیا سے لو لگانے کے اثرات اب دیکھنا باقی ہیں۔  روس سے سٹرٹیجک تعلقات کی باتیں ابھی تک شیخ چلی کے خواب ہیں۔ روسی صدر کا دورہ پاکستان سالوں سے متوقع ہے لیکن اس کا عملی شکل اختیار کرنا ابھی باقی ہے۔  

ہمارے پالیسی سازوں کی سوئی ابھی تک جیو پولیٹکل نظریہ پر اٹکی ہوئی جبکہ دنیا اس تصور کو کب کا خیرآباد کہہ چکی ہے۔ ہم  ابھی تک اس مفروضے کے ساتھ زندہ ہیں کہ پاکستان کی جیوپولیٹکل یا جیوسٹرٹیجک اہمیت مستقل یا ابدی ہے۔

جبکہ ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ ممالک کی جیوپولیٹکل یا جیوسٹرٹیجک اہمیت وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی ہے۔  علاقوں کی اہمیت مستقل یا ابدی نہیں ہوتی ۔ ممالک کی اہمیت وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا چائیے کہ اب ہماری اہمیت پہلی جیسی نہیں رہی۔  اس طرح سفارتی تعلقات میں جیواکنامک کا نظریہ اہمیت اختیار کرگیا ہے ۔ اور اب بیرونی تعلقات میں معاشی مفادات کو ترجیح دی جا رہی ہے ۔  

ہمارے اکثر ریاستی دانشوروں کا طرز بیان جذباتی اور سطحی ہے اور علمی گہرائی سے عاری ہیں۔ ان کی بات کشمیر سے شروع ہو کر کشمیر پر ختم ہوتی ہے ۔ مسئلہ کشمیر کی اہمیت اپنی جگہ مگر کشمیر کے علاوہ بھی بہت سے مسائل ہے۔ بین الاقومی تعلقات اور نظریات ٹھوس معاشی مفادات پر قائم ہوتے ہیں جہاں جذبات یا جوش کی بجائے بردباری یا ہوش کی ضرورت ہوتی ہے۔

 سرحد پار کشمیریوں کی پاکستان سے جذباتی وابستگی اپنی جگہ مگر کشمیر میں عوامی سطح پر پاکستانی حکمرانوں سے بیزاری بڑھ رہی ہے ۔ حتی کہ کشمیری عسکریت پسند بھی ناراض اور مایوس ہیں ۔ اور ان میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ پاکستان کی کشمیر پالیسی میں کوئی ثابت قدمی اور تسلسل اور نہیں اور وہ اپنی ضرورت اور مفاد کے تحت کبھی مسئلہ کشمیر پر جارحانہ اور کبھی مصلحت آمیز موقف اختیار کرتا رہتا ہے۔   

 امریکی وزیر خارجہ کے حالیہ دورہ جنوبی ایشیا میں پاکستان کو شامل نہ کرنا اور افغانستان کے حوالے سے آئندہ چند روز میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران ہونے والے سہ فریقی مذاکرات جو اس سے پہلے پاکستان ، امریکہ اور افغانستان کے درمیان ہوتے تھے میں پاکستان کی جگہ بھارت کو شامل کرنا خطے میں امریکہ کی بدلتی ہوئی ترجیحات کی غمازی کر رہی ہے۔ اب اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ پاکستان اب امریکہ کی اولین ترجیح نہیں رہا۔ 

اس طرح پہلے پاکستان کی حساسیت کے پیش نظر امریکہ بھارت کو مسلہ افغانستان میں نظر انداز کرتا رہا اور اسے کوئی رول دینے کیلئے تیار نہیں تھا بلکہ ماضی قریب میں اسے افغانستان میں لو پروفائیل رکھنے کی تلقین کرتا رہا ہے۔  اب بدلتی ہوئی تزویراتی صورتحال میں امریکہ بھارت کو اہم رول دینے کا عندیا دے رہا ہے۔  

افغانستان کو بھارت تک تجارتی رسائی کے انکار کے بعد کابل نے ردعمل میں پاکستان کو وسطی ایشیا تک زمینی رسائی نہ دینے کا اعلان کیا ہے۔  پاکافغان تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی بھارت کو پاکستان کی سفارتی حصار بندی کیئے موقع اور فرصت فراہم کر رہی ہے ۔ مجوزہ امریکہ ، افغانستان اور بھارت سہ فریقی مذاکرات ، دہلی سرکار کا افغانستان کی کھل کر فوجی امداد کا عندیا اور اس کی افغانستان کو پاکستان کی تجارتی انحصار سے نکالنے کی کوششیں پاکستانی پالیسی سازوں کی نیندیں حرام کررہی ہے۔   

چین اور بھارت مثبت رقابت کر رہے ہیں جبکہ پاکستان اور بھارت منفی رقابت کا شکار ہے ۔ مثبت رقابت میں اقوام ایک دوسرے کے ساتھ رقابتوں کو زندہ رکھنے کے ساتھ ایک دوسرے کیساتھ مکالمے کو بھی جاری رکھتے ہیں اور معاشی اور ٹیکنالوجی  کے میدان میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی تگ و دو کرتے ہیں۔ مسائل اور مشکلات کے باوجود بھارت کے پاکستان کے علاوہ تمام پڑوسی ممالک سے پرامن تعلقات ہیں جبکہ پاکستان کے چار میں سے تین ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں۔

چین بعض اوقات دبے الفاظ جبکہ باقی تین کھلے الفاظ میں پاکستان کی سرزمین ان کے خلاف دھشت گردی کیلئے استعمال کرنے کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔  جبکہ منفی رقابت میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور مات دینے کیئے مخاصمانہ جذبات کو بھڑکانے کے ساتھ ایک دوسرے کو سیاسی ، معاشی اور حتی کہ فوجی نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کرتے۔  

دنیا سپیشلائیزیشن یعنی تخصیص کی طرف جا رہی ہے، ہمارے ھاں یہ پتہ نہیں چل رہا کہ کس ادارے کے کیا فرائض اور اختیارات ہیں اور کچھ ادارے اپنے آیئنی اختیارات سے تجاوز کرکے ھر فن مولا بنے کے چکر میں ہیں ۔ جس سے سول ملٹری تعلقات ریکارڈ حد تک غیر متوازن ہو چکے ہیں ۔

جنرل راحیل شریف کی یوم دفاع کے موقع پر تقریر ایک پیشہ ور فوجی سربراہ کی تقریر کے بجائے ملک کی خارجہ تعلقات  پر ریاستی پالیسی بیان کا ایک شاندار نمونہ تھا۔ اندرونی اور بیرونی پالیسیوں کی مکمل اور ھالنگ اور تمام اسٹیک ہولڈرز کی موثر اور بامعنی شرکت کی بغیر سفارتی چیلنجوں کا سامنا کرنا اور سنگین بحرانوں سے نکلنا مشکل ہے۔

کاسمیٹک تبدیلیوں یا اقدامات سے نہ تو بھرپور طریقے سے چیلنجوں کا سامنا کیا جا سکتا ہے  اور نہ بحرانوں سے سرخرو ہو کر نکلا جا سکتا ہے۔ البتہ بحران کے مزید سنگین ہونے کا احتمال زیادہ ہوتا ہے۔

♣ 

One Comment