شام: فائر بندی کا سمجھوتہ،تقسیم کا پیش خیمہ؟

asaf jilani

آصف جیلانی

شام میں صلح کی خاطر، امریکا اور روس کے درمیان ، فائر بندی کے سمجھوتہ پر بہت غلغلہ ہے ، لیکن گذشتہ پانچ سال سے جاری تباہ کن اور خونریز خانہ جنگی پر گہری نظر رکھنے والوں کے نزدیک یہ سمجھوتہ در اصل ، عراق کی طرح شام کو ، شیعہ، سنی اور کرد علاقوں میں تقسیم کرنے کا پیش خیمہ ہے۔ 

جنیوا میں گذشتہ سنیچر کو ۱۳ گھنٹوں کے طویل مذاکرات کے بعد ، امریکا کے وزیر خارجہ جان کیری اور روسی وزیر خارجہ سرگئی لیوروف نے اعلان کیا ہے کہ شام میں فائر بندی کے بارے میں سمجھوتہ طے پاگیا ہے۔ پیر کو عید الاضحی کے بعد سات روز کے لئے فائر بندی شروع ہوگی۔ اس دوران شامی فوج ،ملک کے دوسرے بڑے شہر حلب میں گھری ہوئی صدر بشار الاسد کی باغی فوج کا محاصرہ نرم کر دے گی اوروہاں، فاقہ کے شکار لاکھوں شہریوں کو خوراک اور ضروری اشیاء جانے کی اجازت دے گی۔

اس کے عوض، باغی فوج ، شام کی سرکاری فوجوں کے علاقوں میں فائر بند کر دے گی اور شامی فضایہ باغیوں پر بمباری روک دے گی۔ سمجھوتہ کے مطابق اگر فائر بندی سات روز تک کامیابی سے جاری رہی تو امریکااور روس کے فوجیں، النصرہ فرنٹ اور داعش کے خلاف مشترکہ فضائی کاروائی شروع کریں گی۔گو صدر بشار الاسد نے اس سمجھوتہ سے اتفاق کیا ہے لیکن امریکا میں وزارت دفاع کے اعلیٰ اہل کاروں اور ایوان نمایندگان میں ریپبلیکن اراکین نے سمجھوتہ پر عمل درآمد پر تشکیک کا اظہار کیا ہے۔

ابھی فائر بندی شروع ہی نہیں ہوئی کہ سمجھوتہ پر عمل درآمد کا امکان دم توڑتا نظر آتا ہے۔ سمجھوتہ کے اعلان کے دوسرے دن حلب اور شمال مغرب میں ادلب میں باغی فوجوں کے ٹھکانون پر اسد حکومت کی فضایہ کی بمباری کے بعد جس میں ایک سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے، سمجھوتہ پر عمل درآمد مشکوک ہوگیا ہے۔

بہرحال جنیوا سمجھوتہ اس بات کا غماض ہے کہ امریکا اور روس دونوں کو احساس ہے کہ پچھلے پانچ سال کے دوران ، بشار الاسد کا تختہ الٹنے کیلئے النصرہ فرنٹ، الفتح اور شام کی فوج آزادی کی قیادت میں خانہ جنگی میں چارلاکھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں ساڑھے ۱۴ ہزار بچے اور دس ہزار خواتین شامل ہیں۔ اور ۴۸ لاکھ شامی بے گھر ہوگئے ہیں جن میں سے بڑی تعداد نے یورپ میں پناہ حاصل کی ہے جس کے نتیجہ میں یورپ کی سلامتی کو خطرہ پیدا ہو گیا ہے ۔

لیکن صدر اسد کو اقتدار سے ہٹانے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ یہی نہیں شام، مغربی طاقتوں اور روس کے درمیان ، رقابت اور کشمکش کا میدان بن گیا ہے جہاں ایک چنگاری سے عالمی معرکہ آرائی کی آگ بھڑک سکتی ہے۔ اسی خطرہ کے پیش نظر امریکا اور روس دونوں نے بڑی کاوش کے بعد شام میں فائر بندی کا سمجھوتہ طے کیا ہے لیکن دونوں کو ایک دوسرے پر عدم اعتماد ہے جس کی وجہ سے اس سمجھوتہ کے نتیجہ میں مکمل فائر بندی اور کسی سیاسی مفاہمت کے حصول کے بارے میں شکوک و شبہات ہیں۔ 

امریکا کو خاص طور پر سعودی عرب اور اپنے دوسرے عرب اتحادیوں پر بھروسہ نہیں کہ وہ اس سمجھوتہ کی کامیابی کے لئے اس کے ساتھ تعاون کریں گے اور شام کی خانہ جنگی میں نبرد آزما عسکری تنظیموں کو اس سمجھوتہ پر عمل درآمد کے لئے راضی کر سکیں گے۔پھر شام میں اسد کے خلاف نبرد آزما مسلح تنظیموں پر النصرہ فرنٹ ، القاعدہ اور داعش حاوی ہے اور شمالی شام میں سنی علاقوں میں النصرہ اور القاعدہ بے حد مقبول ہے۔ لہذا فائر بندی کے سمجھوتہ کی مکمل کامیابی مشکوک ہے۔ 

سمجھوتہ سے پہلے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے اس بیان پر بہت سے لوگوں کا ماتھا ٹھنکا تھا کہ اگر سیاسی حل کی جانب کوئی پیش رفت نہ ہوئی تو شام کو متحد رکھنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پھر پلان بی پر عمل لازمی ہو جائے گا یعنی ۔ شام کی تقسیم ناگزیر ہو جائے گی۔ 

بتایا جاتا ہے کہ واشنگٹن میں کافی عرصہ سے عراق کی طرح ، شام کی تقسیم کے منصوبہ پر غور کیا جا رہا تھا۔ امریکیوں کی رائے میں سب سے زیادہ کرد ، تقسیم کا خیر مقدم کریں گے اور انہیں عراق کے کردوں کی طرح اپنے علاقہ میں حاکمیت حاصل ہو جائے گی۔ یوں کردوں سے قریبی تعلق کی بناء پر شام میں امریکا کو زبردست سیاسی اور فوجی اثر و نفوذ حاصل ہو جائے گا۔ 

سعودی عرب اور اس کے اتحادی بھی تقسیم کی بنیاد پر شام میں علیحدہ سنی علاقہ کے قیام کی حمایت کریں گے۔ امریکا کو علم ہے کہ اسرائیل بھی شام کی تقسیم کا بے حد خواہاں ہے،کیونکہ اس طرح جولان کی پہاڑیوں کے اہم علاقہ پر اسرائیل کا موجودہ متنازعہ قبضہ مستقل ہو جائے گا۔ دریائے اردن کے پانی کا منبع یہیں جولان کی پہاڑیوں میں ہے۔

اب ان خبروں کی تصدیق ہو گئی ہے کہ اسرائیل جولان کے مقبوضہ علاقہ میں بشار الاسد کی باغی آزاد شام فوج کے زخمیوں کو طبی امداد فراہم کر رہا ہے اور سرحد پار شام میں انہیں اسلحہ سپلائی کر رہا ہے۔ اسرائیل پچھلے پانچ سال سے اس قدر خاموشی سے شام میں اسد کے مخالفین کی مدد کرتا رہا ہے کہ کسی کو خبر نہیں ہوئی ۔

ترکی البتہ شام کی تقسیم کی سخت مخالفت کرے گا کیونکہ وہ اپنی سرحد پر ایک خود مختار کرد مملکت کو کسی صورت میں برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے ۔ اسے خطرہ ہے کہ عراق کا خود مختار کرد ستان ،اس کی سرحد پر شام کے کردوں کی مدد کر کے اس کے لئے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ اسی خطرہ کے پیش نظر ، پچھلے دنوں ترکی نے اپنی سرحد پار کردعلاقہ میں فوجی کاروائی کی تھی ۔

حال ہی میں مبصرین نے صدر اسد کے بارے میں ترکی کے صدر اردوان کے رویہ میں اہم تبدیلی محسوس کی ہے اور اب وہ صدر اسد سے قدرے قریب نظر آتے ہیں اور شام کے بحران کے پیش نظر انقرہ اور تہران میں بھی قربت بڑھ رہی ہے۔

اس وقت سیاسی افق پر شام کی تقسیم کے خطرات کے سائے گہرے ہوتے نظر آتے ہیں اور مبصرین کو خطرہ ہے کہ کہیں پھر ایک بار شام کی تقسیم کے نتیجہ میں مشرق وسطی کے نقشہ میں اس طرح کاٹ چھانٹ نہ ہو جس طرح پہلی عالم گیر جنگ کے بعد برطانیہ اور فرانس نے شکست خوردہ سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے کر کے مشرق وسطیٰ کو ایک دائمی عذاب میں مبتلا کر دیا تھا، جس کے نتائج ایک سو سال گذرنے کے بعد اب بھی اس علاقہ اور آس پاس کے علاقوں کو بھگتنے پڑ رہے ہیں۔

Comments are closed.