جان کیری نے ایک بار پھر”ڈو مور” کا مطالبہ کر دیا

0,,19507681_303,00

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اپنے حالیہ دورہ پاکستان میں ایک بار پھر ڈومور کا مطالبہ کیا ہے جس پر پاکستان کے عسکری حلقوں اور اس کے پروردہ دانشوروں نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کرنے کے لیے مزید کام کرنا پڑے گا اور ان مقامی گروہوں کے خلاف بھی سخت اقدامات کرنا ہوں گے جن کی وجہ سے پاکستان کے بھارت سے متاثر ہو رہے ہیں اور افغانستان میں امن و استحکام بھی متاثر ہو رہا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی طرف سے اپنے دورہ بھارت کے دوران دیے گئے اس بیان کی وجہ سے پاکستان کے سیاسی و عسکری حلقے، جو پہلے ہی امریکا اور بھارت کی بڑھتی ہوئی دوستی اور حالیہ لوجسٹک معاہدے پر چراغ پا ہے، اس بیان پر مزید ناراض نظر آتے ہیں۔

پاکستانی دانشور بھی اپنے گریبان میں جھانکنے کی بجائے امریکہ کو کوسنے میں مصروف ہیں ۔ جرمن خبر رساں ادارے نے بھی غیر جانبدار سیاسی مبصرین کی بجائے انہی حضرات سے نقطہ نظر دریافت کیا ہے جو پاکستان کے عسکری حلقوں کی سوچ سے مطابقت رکھتے ہیں۔

کیری کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے معروف تجزیہ نگار بریگیڈئر شوکت قادر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پہلے امریکا سے یہ پوچھا جائے کہ اُس نے افغانستان، عراق اور شام میں کون سے کارنامے انجام دیے ہیں، جو وہ پاکستان سے اِس طرح کا مطالبہ کر رہا ہے، ’’ ایک عالمی طاقت جب کہیں شکست کھاتی ہے، تو وہ اس شکست کو تسلیم نہیں کرتی بلکہ قربانی کا بکرا ڈھونڈتی ہے اور امریکا بھی وہی کر رہا ہے‘‘۔

شوکت قادر نے مزید کہا کہ امریکا اپنی غلطیوں کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈالنا چاہتا ہے، ’’حقانی کے لوگ دو ہزار دس میں یہاں سے چلے گئے تھے، اُس گروہ سے تعلق رکھنے والے بچے کھچے لوگ اسلام آباد اور دوسرے علاقوں میں مارے گئے۔ امریکا کو یاد رکھنا چاہیے کہ ملا عمر کے لوگ قندھار میں بیٹھے ہیں لیکن کابل کے قریبی صوبوں میں حقانی کے لوگ ہیں‘‘۔

شوکت قادر کے بقول، ’’افغانستان کے شمال میں داعش آچکی ہے۔ امریکا کو چاہیے کہ وہ حقانی سے ہاتھ ملائے اور اس خطرے کو روکے۔ آخر ماضی میں بھی تو امریکا کے حقانی نیٹ ورک سے تعلقات رہے ہیں۔ سن اسی کی دہائی میں حقانی نیٹ ورک افغانستان میں امریکا کا اثاثہ تھا۔ جب 1994میں طالبان کی طاقت کا ظہور ہوا تو حامد کرزئی نے اس کی حمایت کی اور حقانی نے اس کی مخالفت لیکن دو سال بعد جب کرزئی کو طالبان نے وزیرِ اعظم یا صدر نہیں بنایا تو وہ طالبان کا مخالف ہو گیا اور حقانی طالبان کا حامی۔ اس تفصیل کا مطلب یہ ہے کہ امریکا بھی اپنی پالیسیوں کا ذرا جائزہ لے۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں تجزیہ نگار بریگیڈئر شوکت قادر نے کہا، ’’لشکر طیبہ اور جیش محمد کے خلاف ایکشن لینے کے حوالے سے مسائل کا سامنا ہے۔ اوّل یہ کہ پاکستان کی فوج پہلے ہی فاٹا، بلوچستان اور کراچی میں مصروف ہے اور دوئم یہ کہ ان جہادی تنظیموں کے افراد نون لیگ اور پی ٹی آئی سمیت کئی جماعتوں سے تعلقات رکھتے ہیں۔ تو ان کے خلاف ایکشن لینے کے لیے سیاسی مسائل کا سامنا ہے۔ میرے خیال میں فوج امریکا کے کہنے پر ایکشن نہیں لے گی بلکہ ان تنظیموں کے خلاف اقدامات ہم اپنی مرضی سے اور اپنے وقت پہ کریں گے‘‘۔

ماضی میں ان تنظیموں کے خلاف ایکشن نہ لینے کے سوال پر قادر نے کہا، ’’دو ہزار نو، دس یا گیارہ میں ان کے خلاف ایکشن لے لینا چاہیے تھا لیکن شائد کیانی صاحب ملازمت میں توسیع لینے کے بعد اپنے بھائیوں کے معاملات میں پڑ گئے، جس کی وجہ سے اُن پر تنقید بھی ہوئی لیکن اگر آپ امریکا کے کہنے پر ایکشن لیں گے تو عوام میں اِس کا اچھا تاثر نہیں جائے گا‘‘۔

کراچی یونیورسٹی کے شعبہء بین الاقوامی تعلقات کی سابق پروفیسر ڈاکٹر طلعت اے وزارت نے کہا، ’’ایک تو امریکا پاکستان کو ضروری عسکری آلات نہیں دے رہا۔ طرح طرح کی شرائط عائد کی جارہی ہیں اور دوسری طرف ہم سے ڈو مور کا مطالبہ کر رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کیوں بھارت اور امریکا کے دشمنوں سے لڑتا رہے، ہمارے اپنے دشمن کم ہیں کیا؟ امریکا کو حقانی نیٹ ورک تو یاد رہتا ہے لیکن جو افغانستان نے پاکستانی طالبان کو پناہ دی ہوئی ہے اور جو بھارت پاکستان مخالف عناصر کی سرپرستی کر رہا ہے، اس پر کوئی کچھ نہیں بولتا‘‘۔

ایک سوال کے جواب میں پروفیسر ڈاکڑ طلعت نے کہا، ’’امریکا و بھارت کے درمیان لوجسٹک کا معاہدہ پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ چین بھی اِس سے متاثر ہو لیکن میرے خیال میں پاکستان اِس کا مرکزی ٹارگیٹ ہے۔ جنگ صرف یہ نہیں کہ آپ لڑائی کریں بلکہ اپنے مخالف پر اعصابی دباؤ ڈال کر اپنے مقاصد کو حاصل کرنا بھی جنگ ہے۔

پروفیسر ڈاکڑ طلعت کے مطابق، ’’امریکا کو یہ خدشہ ہے کہ مستقبل میں چین، روس اور پاکستان قریب آئیں گے۔ اس لیے وہ پاکستان اور خطے کے دوسرے ممالک کو یہ دکھانا چاہتا ہے کہ اُن کی موجودگی افغانستان میں بھی ہے اور اب وہ بھارت کے فضائی اڈے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ گویا وہ کم از کم پاکستان کو سینڈوچ بنانے کا اشارہ دے رہے ہیں۔ یہ بہت خطرناک رجحان ہے۔ اس پر روس، چین، پاکستان اور ایران کو بہت سنجیدگی سے سوچنا چاہیے‘‘۔

  جرمن خبر رساں ادارے کی اس خبر سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ پاکستان کے طاقتور حلقوں کی پہنچ ملکی کے ساتھ ساتھ غیر ملکی میڈیا میں بھی ہے۔پاکستانی میڈیا تو عسکری ایسٹیبشلمنٹ کی رائے کو تو پرموٹ کر تا ہے اب اس دوڑ میں غیر ملکی اردو میڈیا بھی شامل ہو گیا ہے۔

Comments are closed.