بدلتا ہوا عالمی منظرنامہ اور  پاک۔چین تعلقات 

aimal-250x300ایمل خٹک 

پاک۔بھارت کشیدگی کے دوران دو اہم واقعات رونما ہوچکے ہیں جو انتہائی دور رس نتائج کے حامل اور آگے جا کر اس کے علاقائی اور عالمی سیاست پر گہرے اثرات پڑ سکتے ہیں ۔ ایک تو انسداد دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان اور روس کی مشترکہ جنگی مشقیں ہیں اور دوسرا چین اور بھارت کے مابین انسداد دہشت گردی اور سیکیورٹی معاملات میں مشترکہ اقدامات اور تعاون کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔

روس روایتی طور پر بھارت کا حلیف رہا ہے اور چین پاکستان کا اچھے اور برے دنوں کا دوست ہے۔ دلچسپ اور حیرت انگیز  امر یہ ہے کہ انتہائی کشیدہ ماحول میں ایک دوسرے کے دوست ایک دوسرے کے دشمنوں سے گلے مل رہے ہیں۔ اور بہت سے معاشروں میں موجود ایک ضرب المثل جو بعد میں بین الاقومی تعلقات کا ایک اصول بن گیا کہ دوست کا دوست دوست ہوتا ہے اور دوست کا دشمن دشمن یہاں عملاً غلط ثابت ہو رہا ہے۔ 

چین اور بھارت کے مابین دہشت گردی اور سیکورٹی کے شعبے میں ڈائیلاگ کا انعقاد ہوا ہے۔ گزشتہ منگل کو بیجنگ میں منعقدہ اجلاس میں دونوں ممالک نے انسداد دہشت گردی اور سیکیورٹی کے شعبے میں مشترکہ اقدامات اور تعاون پر اتفاق کیا ہے ۔ چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی  کے مطابق دونوں ممالک کے اعلی حکام کے درمیاں اپنی نوعیت کا یہ پہلا  ڈائیلاگ تھا۔ جس میں دہشت گردی کے حوالے سے عالمی اور علاقائی مسائل پر تبادلہ خیال کے علاوہ دونوں ممالک کے حکام  نے ایک دوسرے کو انسداد دہشت گردی سے متعلقہ قوانین ، پالیسیوں ، میکنزم اور دیگر اقدامات سے بھی آگاہ کیا۔ 

پاک۔بھارت کشیدگی اور پاکستان کی بڑھتی ہوئی سفارتی تنہائی کے پیش نظر پاکستان اور روس کے درمیان مشترکہ فوجی مشقوں کی نیوز ویلیو زیادہ ہے اس وجہ سے اس پر کافی لکھا جا رہا ہے۔ جبکہ اس سے پہلے اس قسم کی چین ۔بھارت کی پانچ مشترکہ فوجیں مشقیں ہوئی ہے ۔ چین اور بھارت سال2007 سے مشترکہ فوجی مشقیں کر رہے ہیں جبکہ آخری مشترکہ فوجی مشق اس سال کے شروع میں ہوئی تھی ۔ لیکن پاکستانی میڈیا اور دانشور ان مشقوں کی اہمیت اور اثرات پر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔

 بدقسمتی سے ہمارے ہاں چونکہ جوش اور جذبات کی فراوانی ہے اس وجہ سے ہمارے ہاں ابھی تک غیر جانبدارانہ علمی بحث اور تحقیق کا فقدان ہے۔  جہاں جوش اور جذباتیت کا غلبہ ہو اور علمی اور آزادانہ بحث کی کمی ہو  وہاں مباحث اور تحقیق بھی سطحی اور تعصب پر مبنی ہوتی ہے۔ تعصب، جوش اور جذباتیت ہر معاشرے میں ہوتی ہے لیکن ہر جگہ اس کی ماہئیت اور شدت میں فرق ہوتا ہے۔ جوش اور جذباتیت کی وجہ سے یا تو ایک چیز اچھی ہوتی ہے اور یا بری اور اس بیچ میں کسی بات ، رویہ یا تعلق کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ایک وقت تھا کہ پاکستان میں امریکہ کے خلاف بات کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ پھر سعودی عرب بھی اس کیٹیگری میں شامل ہوگیا اور اب چین شامل ہے۔ 

ہم دوستی میں اندھے ہو جاتے ہے اور یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ ممالک ہمارے دوست ہیں مگر دوستی کے علاوہ ان کے اپنے اپنے قومی مفادات بھی ہیں۔  مثلاً سعودی عرب کو یہ حق پہنچتا ہے کہ اپنے مفادات کے حصول کیلئے بھارتی وزیراعظم کو ملک کے اعلی ترین سول اعزاز سے نوازے جبکہ اس نے ابھی تک کسی بھی پاکستانی وزیراعظم کو اس اعزاز کے قابل نہ سمجھا ۔ اس طرح چین اگر ہندوستان کے ساتھ ستر اسی ارب ڈالر کی تجارت کرتا ہے اور یا ابھی انسداد دہشت گردی اور سیکورٹی معاملات میں تعاون کا آغاز کر رہا ہے تو اس کا حق ہے ۔ 

داخلی طور پر عسکریت پسندی کے چیلنج سے نبردآزما چین علاقے میں اسلامی عسکریت پسندی کی سرگرمیوں اور پھیلاؤ کے خلاف اور اس سے خائف ہے۔ اس سلسلے میں دو نکتے اہم ہیں ۔ ایک تو علاقے میں اسلامی عسکریت پسندی کے فروغ سے اس کے داخلی مسائل بڑھے ہیں اور چینی عسکریت پسندوں نے نہ صرف افغان جہاد سے تاثر لیا بلکہ ان کے بیرونی رابطے بھی بڑے ہیں ۔ یہ افغان جہاد کا اثر تھا کہ نیم قوم پرست اور نیم مذہبی جذبات کے حامل ایغور عسکریت پسند اسلامی عسکریت پسندی کی رنگ میں رنگ گئے ۔

افغان جہاد کے دوران اور فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دور میں چینی ترکستان کے عسکریت پسندوں کے پاکستانی اور غیر ملکی عسکریت پسندوں سے رابطے قائم ہوئے۔ اور آہستہ آہستہ پاکستان میں ان کی تعداد بڑھی ۔ پاکستان کے ایک قریبی دوست ملک نے چینی عسکریت پسندوں کو پاکستان لانے میں اہم کردار کیا ہے۔

دوسرا چینی عسکریت پسندوں کو اپنے جہادی جذبہ کی تسکین کیلئے کوئی نہ کوئی محاذ ملتا ہے اور اخلاقی اور مادی حمایت بھی ملتی ہے۔ جذبہ جہاد چینی عسکریت پسندوں کو شام اور عراق تک لے گئی۔  افغان جہاد اور بعد میں خاص کر طالبان کے دور میں چین مخالف عسکریت پسندوں کا دیگر بیرونی اور خاص کر وسطی ایشیائی ممالک کے عسکریت پسندوں سے بھی قریبی روابط استوار ہوئے ۔

 طالبان کے دور میں تو وہ کافی حد تک خودمختار ہوگئے تھے اور اپنے علیحدہ مراکز بھی قائم کر لیے تھے ۔ مگر دیگر غیر ملکی عسکریت پسندوں کی نسبت پاک۔افغان سرحدی علاقے میں چینیوں کی تعداد بہت کم رہی ۔ مگر یہاں ایغور عسکریت پسندوں کو نظریاتی تربیت کے ساتھ ساتھ اعلی عسکری تربیت کے مواقع بھی ملے۔ 

شمالی وزیرستان آپریشن کے بعد پاک۔سرحدی علاقوں سے چینی عسکریت پسند منتشر ہوگئے۔  کچھ سرحد پار افغانستان اور کچھ ادھر ادھر ہوگئے۔ اب شام اور عراق میں ان کو دیگر ممالک کے عسکریت پسندوں سے روابط بڑھانے اور وسعت دینے کا نیا موقع ملا۔  جو چین کی تشویش کا باعث بھی بن رہا ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق ایغور عسکریت پسندوں کا بیرون ملک ھیڈکوارٹر پاک۔افغان سرحدی علاقوں سے شام منتقل ہو چکا ہے ۔ اور کرغیزستان میں چین کی سفارت پر خودکش حملے کے پیچھے بھی شام میں سرگرم عمل شام میں موجود چین مخالف عسکریت پسندوں کا ہاتھ ہے۔

چین نے اگر ایک طرف افغان طالبان کے ساتھ تعلقات استوار کئے ہیں تو دوسری طرف افغان حکومت کی اقتصادی کے ساتھ ساتھ فوجی امداد اگرچہ محدود سطح پر ہی سہی مگر شروع کی ہے۔  اگر ایک طرف وہ افغان طالبان کوایغور عسکریت پسندوں سے روابط توڑنے اور ان کی حمایت چھوڑنے پر آمادہ کرنے اور اس سلسلے میں ان کی یقین دہانیاں حاصل کرنے میں لگا ہوا ہے۔ تو دوسری طرف چینی عسکریت پسندوں کے خلاف اقدامات اور انہیں حوالے کرنے کے سلسلے میں چینی حکام انسداد دہشت گردی میں افغانستان کے تعاون اور کردار کو سراہتے ہیں۔ 

ماضی میں بالواسطہ طور پر چین کی سرکاری میڈیا دہشت گرد کاروائیوں کے بعد پاکستان میں ایغور کی تربیتی کیمپوں کی موجودگی کی طرف اشارہ کرتی رہی ہے۔ سنکیانگ کے علاقے میں ھر بڑے دہشت گرد کاروائی کے بعد عسکریت پسندوں کی بیرون ملک ٹھکانوں کی طرف انگلی اٹھائی جاتی ہے۔ اور یہ کھلا راز ہے کہ یہ مراکز کہاں تھے۔ حتی کہ کچھ عرصہ قبل کاشغر میں دہشت گرد کاروائیوں کے بعد مقامی سرکاری میڈیا نے حملوں میں ملوث دہشت گردوں پر پاکستان میں تربیت حاصل کرنے کا الزام لگایا تھا۔

پاکستان میں پاک۔چین تعلقات کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ یہ تعلق سمندر کی طرح گہرا، شہد کی طرح میٹھا وغیرہ وغیرہ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ تعلقات اس قسم کے ہیں ۔ مگر ہم پاکستانی بین الاقوامی تعلقات کا ایک اہم اصول کہ دوستیاں اور دشمنیاں مستقل نہیں ہوتی بلکہ ریاستوں کے تعلقات مستقل ہوتے ہیں کو اکثر بھول جاتے ہیں۔ پاکستان اور چین کے تعلقات پر بھی یہ اصول لاگو ہوتا ہے۔ چین کے اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات ہیں جس کو وہ اپنے بیرونی تعلقات میں مقدم رکھتا ہے۔  اور ان مفادات کے حصول کے لیے وہ دیگر ممالک سے اپنے تعلقات کو سنوارتا ہے۔   

چین کی روایتی لو پروفائیل اور خاموشی سے اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کو آگے لیجانے کی پالیسی کی نسبت موجودہ صدر زی جن پنگ کے دور میں چین کے رویے میں جارحانہ پن خاص کر جنوبی چینی سمندر کے علاقے میں نمایاں ہے۔ جس کی وجہ سے علاقے میں سرد جنگ کی شروعات ہوچکی ہیں۔  

چین کے اپنے بڑے بڑے عالمی عزائم اور منصوبے ہیں جس میں افغانستان سے لیکر بھارت تک سب فٹ بیٹھتے ہیں ۔ اس میں عسکریت پسندی اور علاقائی کشیدگی کیلئے کوئی گنجائش نہیں ۔ البتہ بھارت کے ساتھ سودا بازی اور اس کو اپنی اوقات میں رکھنے کیلئے وہ کبھی کبھی پاکستان کو تھپکی دیتا رہتا ہے۔ لیکن وہ پاکستان کی انتہاپسند مذہبی شناخت سے خوف بھی کھاتا ہے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کے کئی راہنما علاقے میں پاکستان کی عسکریت پسندوں کی حمایت کی پالیسی سے شاکی ہیں۔  

اور اس کی خوف کی ٹھوس وجوہات بھی ہیں کہ سرد جنگ کے اولین دور میں جب پاکستان کو فرنٹ لائن بننے کا نیا نیا جنون چڑھا تھا تو چین اور امریکہ کو قریب لانے اور ثالثی سے پہلے امریکہ کو سوویت یونین کے خلاف پشاور کے قریب اور کراچی میں چین کے خلاف فوجی اڈے دئیے تھے۔ جہاں سے تبت کے علیحدگی پسندوں کو امداد بھی جاتی تھی۔   اس طرح افغان جہاد کے دوران ایغور عسکریت پسند آنا شروع ہوگے اور پھر طالبان دور کے بعد ان کی سرگرمیاں بڑھ گی۔  

چین کی حکومت کو خدشہ ہے کہ کچھ عالمی اور علاقائی قوتیں ان کو نقصان پہنچانے کیلئے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ کو ناکام بنانے کے درپے ہیں ۔ اس لئے وہ منصوبے کیلئے سازگار ماحول یعنی پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے پر زور دے رہی ہے۔ ایسٹیبلشمنٹ کی دہشت گردی کے خلاف مہم کے پیچھے اندرونی دباؤ کے ساتھ ساتھ چین کے دباؤ کا بھی عمل دخل ہے ۔  مگر چین پاکستانی اسٹبلشمنٹ کی اچھے اور برے طالبان کی تمیز کی پالیسی سے بھی نالاں نظر آتا ہے۔ 

اُوڑی دہشت گرد حملے اور پاک۔بھارت کشیدگی کے بعد چین کی وزارت خارجہ کے بیانات بہت محتاط اور مصلحت آمیز تھے۔ جس طرح کہ توقع کی جارہی تھی کہ وہ پاکستان کے حق میں دو ٹوک بات کر ے گا اور اپنا پلڑا پاکستان کے حق میں ڈالے گا وغیرہ۔ اس طرح کا کوئی بیان تو عوامی سطح پر نہیں آیا البتہ اگر کسی اور چینل سے ایسی بات ہوئی ہو تو غیب کا علم خدا جانتا ہے۔

2 Comments