پاک-بھارت کشیدگی اور جنگ جوئیانہ بیانیوں کا زور  

aimalایمل خٹک 

پاکافغان تعلقات کے بعد اب پاکبھارت تعلقات بھی انتہائی کشیدہ ہوگئے ہیں اور دونوں طرف تند و تیز بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔ کوسوں میل دور نیویارک میں سفارتی جنگ کے ساتھ ساتھ سرحدوں پر بھی غیر معمولی نقل و حرکت شروع  ہو چکی ہے۔ سٹرٹیجک شطرنج بچھ چکی ہے فریق ایک دوسرے کو برائے راست اور بالواسطہ دھمکیوں دینے،  ایک دوسرے کے چالوں پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کو سیاسی اور حتی کہ فوجی مات دینے کیلئے ممکنہ چالوں اور جوابی چالوں پر سوچ بچار میں مصروف ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ دونوں ممالک کے پالیسی ساز اپنے محبوب مشغلے یعنی صرف پراکسی وارز پر اکتفا کرینگے اور اس میں مزید شدت لائیں گے یا محدود یا بھرپور جنگ کی طرف بھی جائیں گے۔ دونوں فریق دشمنی میں آگے تک چلے گئے ہیں اور صورتحال آہستہ آہستہ نو ریٹرن کی حالات پر جا رہی ہے اور اب بلف چالوں کا امکان نہیں رہا۔ پاکستان نے چھوٹے جوہری ہتھیاروں کا آپشن اوپن رکھا ہے۔ دونوں ممالک میں نیوکلئیر ہتھیاروں کی موجودگی میں جنگ کا آپشن ایک خطرناک اور تباہ کن آپشن ہوگا۔ 

سرحد پار کشمیر میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور اڑی سیکٹر میں فوجی ہیڈکوارٹر پر حالیہ حملے کے بعد کے بعد پاکبھارت تعلقات پر بھی انتہائی کشیدہ ہوگے ہیں اور دونوں ممالک میں جنگجویانہ جذبات روز افزوں ہیں ۔ اور باتوں کے علاوہ پاکبھارت کشیدگی کا ایک ا ہم سبب افغانستان اور بھارت کے بڑھتے ہوئے سٹرٹیجک تعلقات بھی ہیں۔

پاکستان کو خدشہ ہے کہ کہ دہلی سرکار پاکستان کی سفارتی حصاربندی کرکے اس کو علاقے میں تنہا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بدقسمتی سے بھارت اور پاکستان کی مخصوص اندرونی صورتحال میں دونوں ممالک کے جنگ پرست اور انتہاپسند حلقوں کے ساتھ ساتھ سیاسی اشرافیہ کو بھی تناؤ اور کشیدگی کی فضا فائدہ مند ثابت ہو رہی ہے۔  کوئی بھی جذباتی فیصلہ اور قدم دونوں ممالک کے بیچ جاری الفاظ کی جنگ کو ہتھیاروں کی جنگ میں تبدیل کر سکتی ہے ۔  

بھارتی وزیر اعظم کے زیر غور آپشنز میں ایک پاکستان سے سفارتی تعلقات کا منقطع کرنا بھی شامل ہے۔  اس طرح بھارتی وزیراعظم نے آیندہ سارک سربراہی اجلاس جو امسال ماہ نومبر میں پاکستان میں ہو رہی ہے میں شرکت کرنے سے معذرت کر لی ہے۔ بھارت میں سارک کے افادیت کے بارے میں بھی سوالات اٹھ رہے ہیں اور بھارتی پالیسی حلقوں میں مائنس پاکستان کسی نئے علاقائی تعاون تنظیم کی باتیں ہو رہی ہے ۔

ماضی میں عالمی طاقتیں پاکبھارت بڑھتی ہوئی کشیدگی پر تشویش کا اظہار کرتی رہی ہے اور فریقین پر اپنے تنازعات بات چیت سے حل کرنے پر زور دیتی رہی ہے۔  پاکبھارت بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر چین نے کشمیر میں کشیدگی پر اظہار تشویش کرتے ہوئے تنازعے کی بات چیت کےذریعے حل پر زور دیا ہے۔

 اڑی دہشت گرد حملے پر فرانس ، روس اور نیپال کے بیانات بھارتی موقف کی تائید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جبکہ چینی وزارت خارجہ کا یہ بیان کہ کہ چین ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے بڑی معنی خیز ہے۔ چین کی تشویش کی ایک وجہ چینپاکستان اقتصادی راھداری منصوبہ بھی ہے۔ چین نہیں چاہتا کہ پاک بھارت کشیدگی کی وجہ سے یہ منصوبہ کھٹائی میں پڑ جائے ۔

چین بھارت کو منصوبے کی مخالفت ترک کرنے کی تگ و دو کر رہا ہے ۔ چین کی پالیسی ساز اداروں میں پاکبھارت کشیدگی کے حوالے سے تشویش بڑ ھ رہی ہے۔ اور آڑی واقعے کے بعد چین کی حکومت پر پاکستان کے ساتھ یہ ایشیو اٹھانے کیلئے اندرونی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اس سلسلے میں لو شیشنگ جو وزارت خارجہ سے منسلک ادارہ برائے عصری بین الاقوامی تعلقات کے ڈائریکٹر ہیں  کا حالیہ بیان بڑا اہم ہے۔ 

اڑی کے واقعے کے علاوہ  پاکبھارت کشیدگی کی علاقائی سٹیرٹیجک تناظر کو سمجھنا ضروری ہیں ۔ اس سلسلے میں درج ذیل نکات ا ہم ہیں۔ 

پہلی بات یہ ہے کہ پاکافغان تعلقات ریکارڈ حد تک خراب ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف بھارت اور افغانستان میں کئی علاقائی مسائل پر اشتراک نظر اور ہم آہنگی بڑھ رہی ہے جس کا بھرپور اظہار افغان صدر کے حالیہ دورہ بھارت کے دوران جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں بھی ہوا۔

بھارت کی جانب سے افغانستان کی فوجی امداد کے حوالے سے موجود تذبذب ختم ہو رہا ہے اور اب وہ اقتصادی امداد کے ساتھ فوجی امداد بڑھانے کا بھی سوچ رہا ہے۔  مجموعی طور پر پاکستان کے پالیسی ساز حلقوں میں افغان صدر کے دورہ بھارت کے حوالے سے تحفظات پا ئے جاتے ہیں۔ اور افغان صدر کے بیانات کے حوالے سے سخت غم وغصہ پایا جاتا ہے۔

پاکستانی وزارت خارجہ نے افغان صدر کی پاکستان کو وسطی ایشیائی ریاستوں تک تجارتی رسائی روکنےکی دھمکیوں اور دورہ بھارت کے دوران پاکستان مخالف بیانات کا سخت نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ افغان قیادت کے غیر مفید بیانات پاکستان کی افغانستان میں میں امن اور استحکام کیلئے کرنے والی کوششوں کی منافی ہے۔  اور ہمسایہ ملک افغان سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ 

دوسرا افغانستان  اور امریکہ کی پاکستان سے مسئلہ افغانستان میں مدد کے حوالے سے بڑھتی ہوئی مایوسی بھارت کیلئے فرصت اور موقع پیدا کررہی ہے ۔ کہ وہ امریکہ اور افغانستان سے تعلقات میں مذید سٹرٹیجک گہرائی اور گیرائی لائے۔ بھارت افغانستان کے حوالے سے ایک اہم اسٹیک ہولڈر کے طور پر تسلیم کیا جانے لگا ہے اور اس حوالے سے اس کا رول بڑھ رہا ہے۔

افغانستان کے حوالے سے ایک اھم سہ فریقی اجلاس عنقریب نیویارک میں منعقد ہو رہا ہے۔ یہ اجلاس  پہلے عموماً پاکستان ، افغانستان اور امریکہ پر مشتمل ہوتا تھا اب اس میں پاکستان کی جگہ بھارت نے لے لی ہے۔ جو بہت بڑی علاقائی تزویراتی تبدیلی ہے ۔ اس طرح اس سال کے آخر میں ھارٹ اُف ایشیا کانفرنس بھی امرتسر بھارت میں منعقد ہورہی ہے۔ پہلے اگر امریکہ پاکستان کی حساسیت کے پیش نظر اور خوشنودی کی خاطر افغانستان میں بھارت کو کوئی رول دینے سے کتراتا تھا تو اب اوبامہ انتظامیہ پاکامریکہ تعلقات میں سرد مہری کے پیش نظر بھارت کو سرگرم رول دینے کیلئے کوشاں ہے۔  

تیسرا افغانستان، ایران اور بھارت کے سٹرٹیجک تعلقات بڑھ رہے ہیں ۔ اور ان کے درمیان سیاسی اور تجارتی تعلقات روز افزوں ہیں۔ اور یہ ایک نیا منی علاقائی تعاون کا بلاک وجود میں آرہا ہے۔ اور کئی ایک علاقائی مسائل پر ان میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ 

 چوتھا نکتہ یہ ہے کہ بھارت نے پاکستان کے حوالے سے جارحانہ سفارت کاری کی پالیسی اختیار کی ہے اور پاکستان کی دکھتی رگوں کو چھیڑنے کا کوئی موقع ضائع ہونے نہیں دیتا۔ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی سفارتکاری کو کاؤنٹر کرنے کیلئے بھارت نے بلوچستان کے مسئلے کو اٹھانا شروع کیا ہے بھارتی وزیراعظم کی جانب سے قومی دن کے موقع پر اپنے خطاب میں مسئلہ بلوچستان کے بعد دہلی سرکار نے حال ہی میں اقوام متحدہ کے کونسل برائے انسانی حقوق میں پہلی بار بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا ذکر کیا ہے۔  اور اب بلوچ مز احمت پسند راہنما براہمداغ بگتی کو بھارت کا پاسپورٹ جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔  

 جہاں تک پاکبھارت کشیدگی کا تعلق ہے تو دونوں ممالک کے جنگ پرست اور انتہاپسند قوتیں اس صورتحال پر خوش اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گی ۔ دونوں طرف جنگ پرست اور انتہاپسند حلقے کشیدگی کو ہوا دے رہے ہیں اور ان کے زیر اثر میڈیا جنگی فضا پیدا کرنے میں کسر نہیں چھوڑ رہاہے۔

میڈیا کو دیکھ کر بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ دونوں ممالک حالت جنگ میں ہیں۔ پاک بھارت   کشیدگی  سے پورا خطہ  تناؤ کا شکار ہوجائیگا ۔ علاقے میں جنگ کے شعلے بھڑکانا آسان ہے مگر جنگ تباہی اور بربادی لاتی ہے۔ دونوں ممالک میں پہلے سے کروڑوں لوگ غربت اور افلاس کی زندگی گزار رہے ہیں۔  جنگ انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ معاشی بدحالی بھی لاتی ہے۔ اسلئے حد درجہ احتیاط اور جوش کی بجائے ہوش کی ضرورت ہے۔ 

Comments are closed.