پاکستان ایک تجربہ

10685493_277312899133395_1920896914263296411_nسید نصیر شاہ

مولانا ابوالکام آزاد نے فرمایا تھا
۔’’ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہندوستان ایک ملک ہے جبکہ پاکستان ایک تجربہ ہے‘‘۔

پاکستان اس لحاظ سے بھی ایک تجربہ تھا کہ اس کی بنیاد دو قومی نظریہ تھا اور قوم مذہب سے بنتی ہے وطن سے نہیں کا نعرہ لگا کر الگ ملک وجود میں لایا گیا تھا۔ ہم نے وضاحت سے بتایا تھا کہ یہ نظریہ تسلیم شدہ حقائق کے خلاف تھا اس لئے پاکستان بنتے ہی قائداعظم نے اس کے پرخچے اڑادئیے قیام پاکستان کے اعلان سے تین چار دن پہلے انہوں نے گیارہ اگست والی تاریخی تقریر کی۔ یہ تقریر ان کی پاکستان میں دستور سازی کے عمل کو سیکولر رکھنے کی پالیسی تقریر تھی اور دستور ساز اسمبلی میں کی گئی تھی۔ اس میں واضح کردیا گیا تھا کہ پاکستان میں مسلم اور غیر مسلم کو مساوی حیثیت حاصل ہوگی۔ 

قائداعظم کے بعد آل پاکستان مسلم لیگ کے صدر بنے والے چوہدری خلیق الزمان نے ایسی تقریر پر کہا تھا کہ اس سے پچھلی تمام باتوں کو ختم کردیا گیا تھا ایسا کیوں ہوا تھا؟ اس لئے کہ پاکستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہندو، سکھ، پارسی، مسیحی بھی رہتے تھے اوروہ پوچھنے لگے تھے کہ ہم کونسی قوم ہیں ہم اپنی نیشنلٹی کیا لکھیں مذہب کا نام لکھیں؟ 

یہ بڑا سوال تھا’’قوم مذہب سے بنتی ہے‘‘ ایک تھیوری تھی اب اُسے تجربہ میں لانے کا وقت آگیا تھا۔ اب قائداعظم یہ بتانے پر مجبور تھے کہ’’تم بھی اپنی نیشنلٹی‘‘ پاکستانی لکھو۔ اب قوم وطن سے بن گئی اور’’قوم مذہب سے بنتی ہے‘‘ والی تھیوری دم توڑ گئی۔ پاکستان بن گیا آج کی دانشور دنیا کی طرح ریاست مذہب سے نہیں چلے گی۔ سیکولر ہوگی۔ وہ بنیاد گرگئی اور اُسے چھوڑنا ہی تھا کیونکہ اس کی بنیاد ہوا میں رکھنے کی ناکام کوشش سراسر غلط تھی اب قائداعظم نے جو اقدامات کئے وہ تمام سیکولر نوعیت کے تھے۔ ایک کالم نگارقیوم نظامی لکھتے ہیں:۔

۔’’قائداعظم نے گورنر جنرل کا منصب سنبھالنے کے بعد جو بنیادی فیصلے کئے وہ ان کے تصور پاکستان کا عملی اظہار تھے انہوں نے پاکستان کی پہلی کابینہ کا انتخاب اپنی سیاسی سوچ کے مطابق کیا۔ ایک ہندو جوگندرناتھ منڈل کو وزیر قانون بنایا گیا تاکہ کوئی ایسی قانون سازی نہ کی جاسکے جس سے غیر مسلموں کے حقوق سلب ہوجانے کا خطرہ ہو اور ایک احمدی سرظفر اللہ خان کو وزیر خارجہ نامزد کیا گیا۔ پاکستان کی پہلی کابینہ کا کوئی وزیر بھی مذہبی رہنما نہیں تھا۔

قائداعظم نے مذہبی وزارت بھی قائم نہ کی ان کے دونوں ملٹری سیکرٹیری انگریز تھے جو وفات تک ان کے ساتھ رہے کام کرتے رہے۔ انہوں نے بری،بحری اور فضائی افواج کے چیف بھی انگریز نامزد کئے دو صوبوں کے گورنر بھی انگریز تھے جبکہ فوج اور سول سروس کے پانچ سو آفیسر بھی انگریز تھے۔مسلم لیگ نے پنجاب اسمبلی کے سپیکر کے منصب کے لئے کرسچین دیوان بہادر ایس پی سنگھا کو نامزد کیا۔ معروف مورخ پروفیسرطاہر کامران کی تحقیق کے مطابق ایس پی سنگھا کو قرار دادِ مقاصد کی منظوری کا شدید صدمہ ہوا اور وہ حرکت قلب بند ہوجانے سے وفات پاگئے۔

قائداعظم نے گورنر جنرل پاکستان کا منصب سنبھالنے کے بعد کسی مسجد یا مزار پر حاضری دینے کی بجائے7اگست 1947ء کو کراچی کے ہولی ٹرینٹی چرچ کا دورہ کرکے غیر مسلموں کو یقین دلایا کہ وہ پاکستان کے برابر کے شہری تصوری کئے جائیں گے۔ قائداعظم نے سرکاری دفاتر اور پاکستانی سفارت خانے کے لئے اپنی جس پورٹریٹ کا انتخاب کیا وہ شیروانی اور جناح کیپ والی نہیں تھی بلکہ تھری پیس سوٹ اور ہاتھ میں سگار والی تھی۔ قائداعظم کے یہ اقدامات مذہبی نہیں سیاسی اور سیکولر نوعیت کے تھے‘‘۔(قائداعظم بحیثیت گورنر جنرل، از قیوم نظامی،ص79)۔

سچے دانشور ایک مدت سے واضح کرتے چلے آرہے ہیں کہ’’سیکولر‘‘ کے معنی کافروملحد نہیں’’سیکولرزم‘‘ وہ روشن خیالی ہے جو کسی کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کرتی انسان کو برداشت اور رواداری سکھاتی ہے اور مذہب کو حکومت کی قوت سے انسانوں پر لادنہیں دیتی سیکولرزم میں یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے آغا حشر کاشمیری نے ٹھیک لکھا تھا

لڑتے ہیں اختلافِ عقائد پہ لوگ کیوں
ہے یہ تو اک معاملہ دل کا خدا کے ساتھ

یہی سیکولرزم ہے سیکولرزم میں پوری مذہبی آزادی ہے ہر آدمی اپنی سوچ کے مطابق معتقدات رکھ سکتا ہے اور اس سوچ کی مدلل اور معقول انداز میں تبلیغ کرسکتا ہے۔ قائداعظم کی 11اگست1947ء والی تقریر مکمل طور پر سیکولر تقریر تھی بحیثیت گورنر جنرل انہوں نے جو اولین اقدامات کئے وہ بھی بقول قیوم نظامی صاحب سیکولر تھے۔ اب انہیں احساس ہوگیا تھا کہ قوم مذہب سے نہیں وطن سے بنتی ہے۔ پاکستان میں رہنے والے جس مذہب سے بھی تعلق رکھتے ہوں وہ پاکستانی ہیں اور ایک قوم ہیں ان پر واضح ہوگیا تھا کہ قوم کو مذہب کے نام پر تشکیل دینے کی تھیوری قابل عمل نہیں اسے تجربہ میں لایا نہیں جاسکتا۔

برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ کسی’’ظالم‘‘ نے’’سیکولر‘‘ کے لفظ پر یہ ظلم کیا کہ اس کے معنی لکھ دئیے’’ملحد اور لادین‘‘ گوئبلز کی مقلد اور پراپیگنڈا کی ماہر جماعت اسلامی نے ان معانی کو اتنا فروغ دیا کہ ایک بیان میں سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس صاحب نے بھی اس غریب لفظ پر ظلم روارکھا۔ اب اس غلطی کو بہت مستحکم کردیا گیا ہے اور قائداعظم کوسیکولر کہا جائے تو ہمارے نام نہاد’’دانشور‘‘ لٹھ لے کر حملہ آورہوجاتے ہیں۔

روزنامہ’’نوائے وقت‘‘ کے مالک ومدیر جناب مجید نظامی نے ایک’’نظرےۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ قائم کررکھا ہے یہ ٹرسٹ’’نظریہ پاکستان‘‘ کے نام سے ایک ماہ نامہ بھی نکالتا ہے، اس ماہنامہ کے ستمبر2012کے شمارے میں ایک مضمون بعنوان’’کیا قائداعظم سیکولر تھے‘‘ شائع ہوا ہے مضمون نگار کوئی احمد سعید صاحب ہیں انہوں نے اپنے مضمون میں یہ ثابت کرنے کے لئے کہ قائداعظم سیکولر نہیں تھے۔ اپنی دلیل میں کہا ہے کہ قائداعظم نے فلاں نماز فلاں جگہ پڑھی اور فلاں صاحب ان کے ساتھ تھے۔ فلاں محفل میلاد میں شریک ہوئے پس ثابت ہوا کہ وہ سیکولر نہیں تھے۔ گویا مضمون نگار صاحب بھی سمجھتے ہیں کہ سیکولر کے معنی ملحد اور بے دین ہیں۔ انہوں نے مختلف کتابوں سے قائداعظم کی دس نمازیں ڈھونڈ نکالی ہیں۔

اگر ہم بھی مضمون نگار کی طرح مولویانہ مناظرہ کی راہ اختیار کرتے تو سب سے پہلے تو یہ سوال کرتے کہ قائداعظم نے کس مسلک کی پیروی ان نمازوں میں روارکھی کیونکہ وہ شیعہ تھے ۔ان کے دوست ایم اے ایچ اصفہانی کی شہادت کے مطابق وہ خاندانی طور پر آغا خانی اسماعیلی تھے بعد میں انہوں نے شیعہ اثناء عشری مسلک اختیار کرلیا ۔یاد رہے اصفہانی صاحب نے ایک عدالتی بیان میں یہ بات کہی تھی اور انہوں نے کہا تھا خود قائداعظم نے انہیں یہ بات بتائی تھی۔ ہمارا دوسرا سوال یہ ہوتا کہ جن نمازوں کا حوالہ دیا جارہا ہے وہ زیادہ تر عیدین یا جمعہ کی نمازیں ہیں یہ کام بعض لوگ نمائشی طور پر بھی کرتے ہیں۔ اس سے کہاں ثابت ہوتا ہے کہ وہ صوم وصلوٰۃ کے پابند تھے۔ مضمون نگار نے اس سوال کا بڑا دلچسپ جواب دیا ہے آپ بھی پڑھ کر قہقہہ لگا لیجئے فرماتے ہیں:۔

’’اسلامیہ کالج لاہور میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے ایک جلسہ میں علامہ مشرقی کے اذان دینے کا واقعہ تو ابھی کل کی بات ہے جب قائداعظم نے دن بارہ بجے یہ آواز سنی تو کہا کہ یہ تو نماز کا کوئی وقت نہیں، ظاہر ہے کہ ایک شخص نماز نہیں پڑھتا اس کو یہ کیسے معلوم ہوگیا کہ کونسی نماز کس وقت پڑھی جاتی ہے۔‘‘ (ماہنامہ’’نظرےۂ پاکستان‘‘ ماہ ستمبر2012،ص25)۔

سب سے آخر میں ہم یہ سوال کرتے کہ قائداعظم کے قریبی ساتھی تو کچھ اورکہتے ہیں مثلاً قائداعظم کے پرانے ساتھی جو کسی زمانہ میں گورنر پنجاب بھی رہے۔ اُن یوسف ہارون صاحب نے روز نامہ’’پاکستان‘‘ لاہور کے ایک پینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا:۔

’’سوال: کیا قائداعظم محمد علی جناح لبرل تھے۔
جواب: ہاں وہ لبرل تھے پہلی دفعہ جب انہوں نے نماز پڑھی تو میرے ساتھ جامع مسجد گئے اورکہنے لگے یوسف کس طرح نماز پڑھنی ہے۔ میں نے کہا جس طرح میں کروں اسی طرح آپ کرتے رہیں۔ امام صاحب نے جب دیکھا قائداعظم نماز پڑھنے آئے ہیں تو انہوں نے نمازی لمبی کردی۔‘‘ (روزنامہ ’’پاکستان‘‘ لاہور سنڈے میگزین12، اکتوبر2008)۔

قائداعظم کے ایک محب صادق ایم اقبال اپنی خود نوشتہ سوانح عمری میں لکھتے ہیں:
’’
ایک روز الطاف حسین(ایڈیٹر ڈان) کے ساتھ ہارڈنگ روڈ پر واقع لیاقت علی خان کی کوٹھی پر جانے کا اتفاق ہوا اس وقت وہاں مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کا اجلاس ہورہا تھا۔ اس زمانہ میں’’کیبنٹ مشن‘‘ دہلی میں موجود تھا اوربرصغیر کی تقدیر کے فیصلے ہورہے تھے مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ کوٹھی کے ڈرائنگ روم میں منعقد تھی باہر لان میں ملکی اوربیرونی اخباری نمائندے موجود تھے۔ مغرب کی نماز کا وقت ہوا تو مولانا شبیر احمد عثمانی باہر نکلے ملازمین نے صفیں بچھادیں۔ اذان ہوئی مولانا عثمانی امامت کے لئے کھڑے ہوگئے۔ خبر نہیں ورکنگ کمیٹی کے کتنے ممبر باقاعدگی سے نماز پڑھتے ہوں گے لیکن اس روز سبھی وضو کرتے دکھائی دئیے ان میں لیاقت علی خان، حسین امام ، عبد القادر سیٹھ، ایوب کھوڑو وغیرہ شامل تھے لیکن قائداعظم نہ آئے وہ سگار سلگائے ڈرائنگ روم میں اکیلے بیٹھے کسی سوچ میں مستغرق تھے۔‘‘
(
گونج، چند یادیں، چند باتیں، از ایم اقبال، ص133)

قائداعظم کے ایک سیاسی رفیق سرسکندر حیات خان کی بات تو’’نظرےۂ پاکستان‘‘ کے مضمون نگار نے خود بڑے غصیلے جذبات کے ساتھ نقل کی ہے لکھتے ہیں:۔
قائداعظم کو سیکولر ثابت کرنے کے لئے معاندین اور دوست نما دشمن مختلف ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ ایک دورمیں یہ کہا جاتا رہا کہ ان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں نہ تو انہیں نماز پڑھنی آتی ہے نہ نماز پڑھتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ الزام لگانے والوں میں آل انڈیا مسلم لیگ کے ایک نام نہاد ’’ستون‘‘ سرسکندر حیات بھی شامل تھے۔ ملک برکت علی نے 21 جولائی1941ء کو قائداعظم کو لکھا سرسکندر نے لائل پور میں تقریر کرتے ہوئے کہا’’میں گناہ گار ہوسکتا ہوں لیکن باقاعدگی سے نماز پڑھتا ہوں جبکہ آپ کے قائداعظم دن میں ایک نماز بھی نہیں پڑھتے۔‘‘۔(قائداعظم پیپرز، از رضوان احمد،ص64بحوالہ ماہ نامہ’’نظرےۂ پاکستان‘‘،ص24)۔

مگر ہم اس طرح کے سوالات میں سے کوئی سوال بھی’’نظرےۂ پاکستان‘‘ کے ان مضمون نگار صاحب سے نہیں کرتے۔ ہم ان سے صرف یہ گزارش کرتے ہیں کہ خدارا اپنی ڈکشنری درست کرلیجئے تاکہ اس طرح کی دُور کی کوڑی لانے کے تردَد سے آپ کی جان چھوٹ جائے۔ ہمارے نزدیک اگر قائداعظم یہ دس نمازیں بھی نہ پڑھتے تو بھی وہ سیکولر ہوتے اور اگر وہ مکمل طور پر پابند صوم وصلوٰۃ ہوتے تو بھی یہ بات ان کے سیکولر ہونے میں مائع نہیں تھی کیونکہ سیکولرزم مذہبی معاملات کو فرد کی ذات پر چھوڑ دیتا ہے وہ تو رواداری اور مسالمت کی تحریک ہے۔

اب برسبیل تذکرہ تحریر کی ہوئی باتوں کے بعد اب ہم موضوع کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔

پاکستان اس لحاظ سے بھی ایک تجربہ تھا کہ ہمارے سیاسی رہنماؤں نے زمین کے دو ایسے ملکوں کو ایک ملک کردیا جن میں تقریباً ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا اور جنہیں آپس میں مربوط کرنے کا کوئی زمینی راستہ نہیں تھا۔ ان دونوں کے درمیان کا سارا علاقہ ہندوستان میں تھا۔ہم نے قرار دادِ لاہور میں ان دونوں حصوں کو دو آزاد اور خود مختار ریاستیں کہا تھا لیکن پھر انہیں ایک ہی ریاست پاکستان کے دو حصے قرار دے دیا ۔ ہم نے کہا مذہب ان دونوں حصوں کو ملائے رکھے گا۔ مذہب ہی رشتہ اتحاد ہے ان دونوں خطہ ہائے زمین کی زبان تہذیب وتمدن سب کچھ الگ تھا مگر ہم نے مذہب کی بنیاد پر دونوں کو چپکائے رکھنے کا تجربہ کیا۔ اُس وقت مولانا ابو الکلام آزاد کی فراست اور بصیرت اس تجربہ کا وہ نتیجہ اور انجام واضح طور پر دیکھ رہی تھی جو برسوں بعد وقوع پذیر ہوا۔ انہوں نے کہا تھا۔

’’مسلمانوں کی اکثریت کے علاقے شمال مشرق اور شمال مغرب میں ہیں۔ یہ دونوں علاقے کسی مقام پر بھی ایک دوسرے سے متصل نہیں ہیں۔ ان علاقوں کے باشندے مذہب کے سوا ہر لحاظ سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں یہ کہنا عوام کو بہت بڑا فریب دینا ہے کہ صرف مذہبی یگانگت دو ایسے علاقوں کو متحدرکھ سکتی ہے جو جغرافیائی، معاشی، لسانی اور معاشرتی اعتبار سے ایک دوسرے سے بالکل جداہوں۔ اس میں شک نہیں کہ اسلام نے ایک ایسے معاشرہ کے قیام کی کوشش کی تھی جو معاشی، لسانی، معاشرتی اور سیاسی حد بندیوں سے بالاتر ہولیکن تاریخ شاید ہے کہ شروع کے چالیس برسوں کو یا زیادہ سے زیادہ پہلی صدی کو چھوڑ کر اسلام کبھی سارے مسلمان ممالک کو صرف مذہب کے نام پر متحد نہ کرسکا۔ کون یہ توقع کرسکتا ہے کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے اختلافات دور ہوجائیں گے اوریہ دونوں علاقے قوم بن جائیں گے‘‘۔(’’انڈیا وِنز فریڈم‘‘، از مولانا ابوالکلام آزاد)۔

اور ہم نے اپنے تجربہ کی ناکامی دیکھ لی۔ قیام پاکستان کے24سال بعد پاکستان ٹوٹ کر دو حصوں میں بکھر گیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی طرح ماؤنٹ بیٹن نے بھی پاکستان کا یہ انجام اپنی فراست سے معلوم کرلیا تھا۔ لاری کولنز اور ڈامسنک لیپیڑ کی مشترکہ تصنیف میں ہے۔

’’ماؤنٹ بیٹن کو بہرحال یقین تھا کہ مسٹر جناح کی یہ دو حصوں میں بٹی ہوئی ریاست قائم نہیں رہ سکے گی۔ اس نے وائسرائے ہاؤس میں اپنے جانشین راج گوپال اچاریہ سے کہا تھا کہ مشرقی بنگال چوتھائی صدی کے اندر پاکستان سے الگ ہوجائے گا۔‘‘(فریڈم ایٹ مڈ نائٹ،ص15)۔

2 Comments