بھارت کی پاکستان کو ’دہشت گرد‘ ملک قرار دینے کی پالیسی

019561584_30300

بھارتی سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اڑی حملہ خود وزیر اعظم نریندر مودی کے لئے بھی ایک بڑی آزمائش ہے۔ اگر وہ پاکستان کو کوئی سخت جواب نہیں دیتے ہیں تو ان کے امیج کو زبردست دھچکا پہنچے گا۔

معاون وزیر دفاع سبھاش بھامرے نے کہا کہ اُڑی حملے کے بعد پورا ملک صدمے میں ہے، عوام میں زبردست اشتعال ہے، فوج میں اشتعال ہے اور اس حملے کا منہ توڑ جوا ب دیا جائے گا۔

جبکہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اشتعال انگیز بیان بازی یا سخت جواب دینے کی بجائے پاکستان کو عالمی برداری میں تنہا کرنے اور اسے ’دہشت گرد‘ ملک قرار دینے کی اسٹریٹجی پر کام کرنے کا حکم دیا ہے۔

بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی اُڑی فوجی چھاؤنی پر حملے میں انیس فوجیوں کی ہلاکت سے پیدا شدہ صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے آج بیس ستمبر کو وزیر اعظم نریندر مودی کی رہائش گاہ پر ایک اعلیٰ سطحی ہنگامی اجلاس ہوا۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے کہا ہے کہ اب انہیں پاکستان کو سفارتی سطح پر عالمی برادری سے الگ تھلگ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

وزیر اعظم مودی کی صدارت والی اس اعلیٰ سطحی میٹنگ میں وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ، وزیر دفاع منوہر پاریکر، وزیر خزانہ ارون جیٹلی، قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال ، آرمی چیف جنرل دلبیر سنگھ سوہاگ، انٹلی جنس بیورو کے سربراہ، ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز، داخلہ سکریٹری اور ڈیفنس سکریٹری کے علاوہ متعدد سینئر افسران بھی موجود تھے۔

جنرل سوہاگ اور اعلیٰ فوجی افسران نے وزیر اعظم کو سکیورٹی کی صورت حال اور بھارت کی دفاعی تیاریوں کے حوالے سے بریفنگ دی۔ آرمی چیف نے کہا کہ فوج کسی بھی کارروائی کے لئے تیار ہے۔ اس موقع پر وزیر دفاع نے اُڑی حملے کے سلسلے میں وزیر اعظم کو اپنی رپورٹ بھی پیش کی۔

مودی حکومت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہنا ہے کہ اُڑی حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت ہیں جبکہ ہلاک ہونے والے حملہ آوروں کے پاس پاکستانی ہتھیار تھے۔ بھارتی حکومت کے الزام کے مطابق حملہ آوروں کے پاس سے جو دیگر چیزیں برآمد ہوئی ہیں ان سے بھی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ حملہ آور باہر سے آئے تھے۔

دوسری جانب بھارت نے اس معاملے کو اقوام متحدہ کے رواں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر خارجہ سشما سوراج 26 ستمبر کو اقوام متحدہ سے خطاب کے دوران یہ معاملہ اٹھائیں گی اور اس دوران وہ پاکستان کو ’دہشت گرد‘ ملک قرار دینے کا مطالبہ بھی کر سکتی ہیں۔

اس سے قبل وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کی وزیر دفاع اور اعلیٰ سکیورٹی افسران کے ساتھ ایک میٹنگ ہوئی، جس میں وادی کشمیر نیز کنٹرول لائن کی تازہ ترین صورت حال پر غور و خوض کیا گیا۔

میٹنگ میں علیحدگی پسندوں کے حملے سے پیدا شدہ چیلنجز سے نمٹنے کے لئے ممکنہ اسٹریٹیجی پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس میٹنگ کے بعد امور خارجہ کے وزیر مملکت جنرل (ریٹائرڈ) وی کے سنگھ نے میڈیا سے کہا کہ کوئی بھی فیصلہ جذبات کی رو میں نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی سرحد میں داخل ہوکر حملہ کرنے کی کوئی پالیسی نہیں بنی ہے لیکن دراندازی کے خلاف آرمی بڑا آپریشن کرسکتی ہے۔

اس میٹنگ میں قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال نے پاکستان اور دہشت گردوں کے حملو ں سے نمٹنے کے لیے مختصر اور طویل المدتی منصوبہ پیش کیا۔ اس منصوبے پر وزیر داخلہ، آرمی چیف، ڈی جی ایم او اور آئی بی چیف نے غور و خوض کیا۔

خیال رہے کہ کل اتوار کو بھاری ہتھیاروں سے لیس حملہ آوروں نے اُڑی فوجی چھاونی پر حملہ کر کے سترہ بھارتی فوجیوں کو ہلاک کردیا تھا، جب کہ انیس دیگر فوجی زخمی بھی ہوئے ہیں۔ ان میں سے کئی کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے۔ اس حملے کو بھارت کی کسی فوجی چھاونی پر علیحدگی پسندوں کا اب تک کا سب سے بڑا حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے اس حملے کے لئے پاکستان کو براہ راست ملوث قرار دیا ہے۔

پاکستان نے کہا ہے کہ بھارت پہلے بھی بغیر تفتیش کے ایسے الزام عائد کرتا آیا ہے۔جبکہ کچھ مبصرین کا کہنا ہےکہ پاکستان نے ابھی تک ممبئی حملوں اور پٹھان کوٹ پر حملہ آوروں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔الٹا ان حملوں میں ملوث حافظ سعید، سید صلاح الدین اور مولانا مسعود اظہر پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد میں کھلے عام بھارت کے خلاف ریلیاں نکالتے ہیں اور بھارت پر حملہ کرنے کے لیے عوام کو اکساتے ہیں۔

مبصرین کے مطابق چونکہ ان رہنماوں کو پاکستان کی سیکیورٹی ایسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہےاس لیے پاکستان کی سیاسی حکومت بھی بے بس ہے اور ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرسکتی۔

اس سلسلے میں مبصرین پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کے بیان کو بھی کافی اہمیت دے رہے ہیں جو انہوں نے کوئٹہ میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے دیا ۔ انہوں نے کہ پاکستان میں امن تب ہوگا جب ہم پکے ارادے سے یہ فیصلہ کریں گے کہ ہم نہ اپنے ملک میں کسی کی مداخلت برداشت کریں گے اور نہ ہی ہم کسی اور ملک میں مداخلت کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی سیاسی حکومت اپنے ہمسایوں کے ساتھ دوستی اور دوطرفہ تعلقات قائم کرناچاہتی ہے مگر کچھ طاقتیں اس عمل کو سبوتارژ کر دیتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ فوج اور عدلیہ کو پارلیمنٹ کے تابع ہوناچاہیے نہ کہ ریاست کے اندر ریاست۔

یاد رہے کہ افغانستان کے صدر حامد کرزئی بھی پاکستان پر افغانستان میں حملوں کا ذمہ دار ٹھہراتے چلے آرہے ہیں ۔

DW/News Desk

Comments are closed.