کس قدر عام ہے یہ مہرو وفا کا نعرہ

asaf jilani

آصف جیلانی

نہ جانے کیا بات ہے کہ پاکستان میں ہر شہر ی کو وہ چاہے سیاست دان ہو، صحافی ہو یا کسی اور شعبہ زندگی سے اس کا تعلق ہو،اپنے آپ کو محب وطن ثابت کرنا پڑتا ہے۔ اور اب تو پچھلے کچھ دنوں سے اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کے لئے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانا عام ہوگیا ہے۔ اور تو اور ٹی وی چینلز کے اینکرز بھی اپنا پروگرام اسی نعرہ پر ختم کرتے ہیں۔

دنیا میں بر صغیر ہی واحد خطہ ہے جہاں ہندوستان اور پاکستان میں قدم قدم پر حب الوطنی کے نعرے لگائے جاتے ہیں ، دل کی بات تو اللہ ہی جانے۔ ہندوستان میں جے ہندکے ساتھ اب مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ بھارت ماتا کی جے کا نعرہ لگائیں اور بندے ماترم گائیں۔ پاکستان میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ عام ہے۔

برطانیہ میں مجھے برسو ں ہوگئے، لیکن یہاں میں نے کسی کو’’ لانگ لو برٹین ‘‘ یا برطانیہ زندہ باد کا نعرہ لگاتے نہیں سنا۔ برطانیہ پچھلے پچاس سال کے دوران متعد سیاسی بحرانوں کے ساتھ ، شمالی آیرلینڈ میں آئی آر اے کے مسلح باغیوں کے ساتھ معرکہ آرائی ، فاک لینڈ کی جنگ ، خلیج کی پہلی جنگ ، عراق کی جنگ ، افغانستان کی جنگ اور، لیبیا میں فوجی مداخلت کے معرکوں میں الجھا رہا ہے لیکن سیاسی قائدین یا عوام کو حب الوطنی کا نعرہ لگاتے نہیں سنا۔

ہاں سرکاری تقریبات ’’ گاڈ سیو دی کوئین‘‘ کا ترانہ گایا اور بجایا جاتا ہے۔ کسی پر زبردستی نہیں اور نہ کسی کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ یہ ترانہ گائے۔ برطانیہ میں کسی کو اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی ، البتہ شہریت کے حصول کے لئے جو فارم بھرنا ہوتا ہے اس میں فرماں روا سے وفا داری کا پیمان ضرور کرنا پڑتا ہے۔

ویسے بھی برطانیہ کے عوام ، دنیا بھر میں حب الوطنی کے اظہار میں سب سے پیچھے ہیں۔ وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ برطانیہ کے عوام کی اکثریت اس بناء پر کہ کہیں ان پر نسل پرستی کا الزام نہ عائد ہو وہ اپنے گھروں پر برطانوی پرچم یونین جیک لہرانے سے گریز کرتے ہیں ۔حتی کہ سینٹ جارج ڈے پر بھی یہ سینٹ جارج کے کراس کا جھنڈا لہرانے سے کتراتے ہیں ۔ سینٹ جارج یونانی نژاد یونانی سپاہی تھاجسے رومن بادشاہ نے عیسائی عقیدہ ترک نہ کرنے پر موت کے گھاٹ اتاردیا تھا ۔

سینٹ جارج کو شہید کا درجہ حاصل ہے اور برطانیہ کے پرچم میں اسکاٹ لینڈ کے سینٹ اینڈریو کے کراس اور آیرلینڈ کے سینٹ پیٹرک کے کراس کے اوپر سینٹ جارج کا کراس حاوی ہے۔ البتہ 2012میں ملکہ ایلزبتھ کی تخت نشینی کی ڈائمنڈجوبلی کے تقریبات کے دوران سڑکوں پر ضیافتوں میں عوام کی شمولیت کو حب الوطنی کا اظہار سمجھا گیا تھا اور پھر لندن اولمپکس کے دوران یونین جیک لہرا کر عوام نے اپنی وطن دوستی کا اظہار کیا تھا۔ فٹ بال کے ورلڈ کپ کے میچوں میں انگلینڈ کے حامی بڑے جوش و خروش سے یونین جیک لہراتے ہیں جو حب الوطنی سے زیادہ ہنگامہ بازی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

عجیب و غریب بات ہے کہ جرمنی جو ایک زمانہ میں پورے یورپ میں حب الوطنی کے جذبہ میں پیش پیش تھا، گذشتہ ستر سال کی تاریخ کی بناء پر وطن پرستی کے جذبہ میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ تازہ جائزہ میں صرف ۹ فی صد عوام نے اعتراف کیا کہ وہ حب الوطن ہیں۔ ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ جرمنی میں غیر ملکی تارکین وطن کی بڑی آبادی ہے جن میں ترکوں کی تعداد سب سے زیادہ ہ ہے، جو ظاہر ہے جرمنی کو ترکی کی طرح اپنا وطن نہیں سمجھتے ہیں۔ یورپ میں نیدر لینڈ کو حب الوطنی کے جذبہ کے سلسلہ میں فوقیت حاصل ہے ۔

عالمی جائزہ کے مطابق سب سے زیادہ حب الوطن عوام تھائی لینڈ کے عوام ہیں جن کی تعداد ۵۸ فی صد بتائی جاتی ہے۔ تھائی لینڈ میں بادشاہ پر نکتہ چینی یا ان کے خلاف بات کرنا قانونا ممنوع ہے اس لئے ہر شخص بادشاہ سے اظہار وفاداری کے ذریعہ اپنی حب الوطنی ثابت کرتا ہے ۔ امریکا میں اسکولوں میں وفا داری کے پیمان کی تقریبات ہوتی ہیں اور قومی پرچم کا احترام اور قومی ترانہ یاد کرنا حب الوطنی کے اظہار کے لئے ضروری ہے۔ اور ہر تقریر اور ہر تقریب میں ’’ گاڈ بلیس امریکہ‘‘ کا نعرہ لازمی ہے۔

پاکستان کی صورت حال دوسرے ملکوں سے یکسر مختلف ہے، کیونکہ پاکستان ابھی ۴۵ سال ہوئے ایسے خونریز المیہ سے گذرا ہے کہ جس نے ہمہ گیر اثرات چھوڑے ہیں۔ ایک تو ملک کے دو لخت ہونے کی وجہ سے عوام کے ذہنوں میں ملک کی بقا کے بارے میں خوف اور غیر یقینی کا عالم طاری ہے۔ گو ملک کے ٹوٹنے کے مختلف اسباب تھے لیکن عوام اس کی بڑی وجہ ، اس کے ذمہ داروں کی وطن دشمنی سمجھتے ہیں۔ لہذا جب بھی ملک میں سنگین سیاسی بحران پیدا ہوتا ہے تو عوام میں غیر یقینی ہولناک صورت اختیار کر جاتی ہے اور اس بحران کا ذمہ دار وہ وطن دشمنوں کو گردانتے ہیں۔

پھر پچھلی چند دہائیوں کے دوران ملک میں غیر ملکی مداخلت کا سلسلہ اتنا سنگین صورت اختیار کر گیا ہے کہ لوگوں کی حب الوطنی پر شک و شبہ عام ہوگیا ہے اور ہر ایک کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ ہر ایک اس شک کی نگاہ سے بچنے کے لئے اپنی حب الوطنی کا اعلان کرتا نظر آتا ہے۔

پاکستان میں ایک عجیب و غریب انداز فکر ہے۔ حکومت اور ریاست میں فرق کا کوئی ادراک نہیں ۔ حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف کو ریاست کی مخالفت اور وطن دشمنی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ رجحان قیام پاکستان کے اوائل دور سے چلا آرہا ہے۔ اس زمانہ میں حکمران مسلم لیگ کی طرف سے یہ استدلال عام تھا کہ یہ ملک مسلم لیگ نے حاصل کیا ہے اس لئے مسلم لیگ اور اس کی حکومت کی پالیسیوں کی مخالفت ، پاکستان کی مخالفت ہے ۔ 

لوگوں کو اب بھی یاد ہے کہ حسین شہید سہروردی نے جب سن پچاس کے اوائل میں مسلم لیگ کے مقابلہ میں عوامی لیگ قائم کی تو انہیں سر عام غدار کہا گیا۔ اب جب کہ قائد اعظم کے قریبی ساتھی حسین شہید سہروردی ، جو سن ۴۰ میں آل انڈیا مسلم لیگ کے قائد کی حیثیت سے بنگال کے وزیر اعلی رہے ، ان کی حب الوطنی پر صرف اس بناء پر شبہ کیا گیا کہ انہوں نے حکمران مسلم لیگ کے مقابلہ پر عوامی لیگ قائم کی تھی ، تو پھر غداری کے الزام سے کون بچ سکتا ہے۔

یہ روایت اب بھی جاری ہے ، حکومت کی پالیسیوں کے مخالف کو ملک دشمن قرار دیا جاتا ہے اور اس صورت میں ہر شخص اپنی حب الوطنی اور وفا داری کے اعلان کے لئے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتا ہے۔