حج کا سیاسی اور فرقہ وارانہ استعمال

shah_suliman

سعودی عرب کے بادشاہ نے کہا ہے کہ حج کو سیاسی یا فرقہ ورانہ مقاصد کے استعمال نہیں کیا جا نا چاہیے۔ انھوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب کی حکومت حج کے سیاسی اور فرقہ ورانہ استعمال کو سختی سے مسترد کرتی ہے ۔ بادشاہ کا یہ موقف بہت صائب اور قابل تعریف ہے اوربظاہر درست نظر آنے والے اس موقف کی تائید و حمایت کی جانی چاہیے ۔

لیکن صورت حال کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو نظر آئے گا کہ شاہ سلمان جو کچھ کہہ رہے ہیں اس سے ان کی مراد اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ اپنے مخالف ملک ایران کو حج کو فرقہ واریت اور سیاسی مقاصد کے استعمال کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔

جب سے ایران میں شاہ ایران کی بادشاہت کے خاتمے کے بعد شیعہ مذہبی قیادت کی سربراہی میں حکومت قائم ہوئی ہے سعودی شاہی خاندان مسلسل اس کوشش میں ہے کہ ایران کے سیاسی پھیلاو کے آگے روک لگائی جائے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ ایران مشرق وسطی کے بادشاہوں اورشیوخ کو محروم اقتدار کرکے وہاں شیعہ حکومتیں قائم کرنا چاہتا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب حکمران اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے لئے توتیار ہیں لیکن ایران کے ساتھ قطعی نہیں ۔بلکہ وہ تو امریکہ سے اس بنا پر ناراض ہیں کہ وہ ایران سے صلح کا ڈول کیوں ڈال رہا ہے۔ 

سعودی فرمان روا سمجھتے ہیں کہ ایران کی شیعہ قیادت حج کو سیاسی اور فرقہ ورانہ مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہے ۔ لیکن گذشتہ تقریبا ایک صدی کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو حقیقت سامنے آتی ہے کہ اسلام کے دو مقدس ترین مقامات ۔روضہ اقدس اور خانہ کعبہ اور اسلام کی اعلٰی ترین عبادت حج کو سیاسی اور فرقہ ورانہ مقاصد کے لئے سب سے زیادہ استعمال خود سعودی عرب کی حکومت اور اقتدار پر قابض شاہی خاندان نے کیا ہے ۔

دنیا بھر کے مسلمانوں کو خانہ کعبہ اور روضہ اقدس سے جو عقیدت ہے اس کو سعودی شاہی خاندان نے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے اور مسلمان ممالک میں فرقہ واریت پھیلانے کے لئے استعمال کیا ہے ۔ خود ہمارے اپنے ملک میں سعودی عرب نے ایسے دینی مدرسوں کو بے تحاشاہ فنڈنگ مہیا کی جو سعودی شاہی خاندان کے فکری اور نظریاتی حلیف تھے۔

سعودی عرب کی طرف سے فراہم کردہ مالی امداد سے جس طرح جہادی جتھے تیار کئے گئے اور ان جتھوں نے ’جہاد‘ کے نام پر جو فساد پھیلا یا وہ سب پاکستانیوں کے لئے سامنے کی بات ہے ۔

پاکستان کے عوام کی اکثریت اسلام کو رواداری، برداشت اور انسان دوستی کا دین خیال کرتی ہے لیکن سعودی عرب کے انتہا پسندانہ مذہبی نظریات کے زیر اثر عوام میں فرقہ ورانہ نظریات پھیلانے کی بھرپور کوشش کی گئی جو ایک خاص حد کامیاب بھی رہی۔

اب صورت حال یہ ہے کہ’ سلفی ‘ اسلام کے زیر اثر فرقہ ورانہ جنگ اپنے عروج ہے ۔ سعودی عرب کامقابلہ کرنے کے لئے ایران کی شیعہ قیادت نے بھی اپنے فرقہ ورانہ حواریوں کو دامے درمے سخنے مد د فراہم کرنا شروع کردی ۔پاکستان جہاں عوام تمام تر کلامی اختلافات کے باوجود پرامن زندگی گزاررہے تھے فرقہ ورانہ جنگ کی دلد ل میں اتنا دھنس گیا ہے کہ اس سے باہر نکلنا بہت مشکل لگ رہا ہے۔

ایران اور سعودی عرب نے اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لئے پاکستان کی سرزمین کو ہمارے ہی عوام کے خون سے رنگ دیا ہے ۔ صدیوں سے باہم پر امن بسنے والے ہمسایوں کو فرقہ کے نام پر تقسیم کر دیا ہے ۔

بادشاہ سلیمان اگر واقعی نیک نیت ہیں اور سمجھتے ہیں کہ حج جیسی اعلٰی ترین اسلامی عبادت کو فرقہ ورانہ مقاصد کے لئے استعمال نہیں ہونا چاہیے تو سب سے پہلے انھیں پاکستان میں فرقہ ورانہ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی فنڈنگ بند کرنا ہوگی ۔ وہ تمام مدرسے جو جہاد کے نام پر دہشت گردوں کی ذہن سازی کرتے اور مخالف فرقوں کو ٹارگٹ کرنے کے لئے نوجوانوں کو تیار کرتے ہیں ان کی پشت پناہی بند کرنا ہوگی ۔

اگر وہ ایسا کچھ نہیں کرتے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ محض زبانی جمع خرچ کر رہے ہیں اور ان کا حقیقی مقصد فرقہ واریت کا خاتمہ نہیں بلکہ اپنے فرقہ ورانہ مخالف ایران کو نشانہ بنا نا ہے ۔

لیاقت علی ایڈووکیٹ

One Comment