ہنزہ کی سیاسی ترقی معکوس

13767348_10208177711053468_2656519165861739623_o-2-1-298x300

علی احمد جان

قراقرم اور پامیر کے پہاڑی سلسلوں کے بیچ واقع ہنزہ کو آج دنیا میں جو مقبولیت حاصل ہے وہ اس پورے خطے میں کسی اور علاقے کے نصیب میں نہیں۔ بلتیوں اور کشمیریوں کے ہنر کا شاہکار بلتت کے قلعے کو جتنی شہرت حاصل ہے اتنی پورے بلتستان اور کشمیر میں کسی تاریخی عمارت کو نہیں۔

ہنز ہ کا دارالخلافہ کریم آباد پوری دنیا کے سیاحوں کی ایک منفرد منزل ہے جہاں پہنچ کر وہ اپنے ہوٹل یا گاڑی میں بیٹھے سا ت ہزار میٹر بلندی کی ایک نہیں ، دو نہیں بلکہ پوری پانچ چوٹیوں کا ایک ساتھ نظارہ کر سکتے ہیں۔کسی نے اس کو کھوئی ہوئی جنت یا شنگریلا کہا ہے تو کسی نے پرستان۔

گزشتہ کچھ عرصے سے ہنزہ کو پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں بڑی اہمیت دی جارہی ہے۔ یہاں کے میر غضنفر علی خان کو مشرفی ہونے کا باوجود تخت لاہور نے گورنری کے سنگھاسن پر بیٹھا دیا ۔ میاں برادران کے جلاوطنی کے زمانے میں مشرف کے فیوض و برکا ت ٹھکرا کر مسلم لیگ نون کا جھنڈا تھامے تنہا کھڑے رہنے والے سلطان مدد کو اب محض اس بنا پر دھتکارا گیا کہ اس کا تعلق ہنزہ کے شاہی خاندان سے اور رشتہ تخت لاہور سے نہیں تھا۔ ورنہ لندن اور سعودی عرب سے ہفتے میں ایک بار سلطان مدد کو فون کیئے بغیر جس میاں صاحب کو نیند نہ آتی رہی ہو اس کو ان کی شکل دیکھنا گورا کیوں نہ ہوا۔

سنہ 1890 سے قبل ہنزہ کی حیثیت ایک غیر معروف وسط ایشیائی ریاست کی تھی جو افغانستان، پامیر، تاجکستان اور چینی ترکستان کی جنوبی ایشیا کے لئے گزرگاہ تھی۔ دریا کے اس پار نگر ،اس کے جنوب میں گلگت اور اس کے بعد قبائلی دردستان کے علاقے نے بھی مقامی طورپر ہنزہ کو ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کے لئے میدان کارزار بناۓ رکھا۔ ہنزہ کے جنوب میں شینا بولنے والے درد اور شمال میں وخی بولنے والے بھی آباد ہیں۔

ہنزہ کے لوگوں کی زبان بروشاسکی اس کے دریا پار نگر کے علاوہ سلسلہ ہندوکش کی وادی یاسین میں بھی بولی جاتی ہے۔ مگر ہنزہ کے لوگ خود کو ان دونوں علاقوں میں بسنے والے اپنے ہم زبانوں سے مختلف گردانتے ہیں اور کچھ سالوں سے اپنا نسب یونان کے سکندر اعظم سے بھی جوڑتے رہے ہیں۔

ہنزہ کامعاشرہ دیگر کوہ ہندوکش، قراقرم اور ہمالیائی معاشروں سے مختلف نہیں جہاں عام لوگوں کے آپس میں نفاق اور ایک دوسرے کی عدم قبولیت کی وجہ سے ان کو اپنے حکمران باہر سے درآمد کرنا پڑے۔ ہنزہ میں بھی موجودہ حکمرانوں کا تعلق یہاں کے مقامی قبائل سے نہیں ۔ باہر سے نہایت تعلیم یافتہ نظر آنے والا ہنزہ دراصل ایک انتہائی قبائلی طرز معاشرت ہے۔

صرف ایک ہی فرقے کی اکثریت کی آبادی والا یہ علاقہ اس قدر مذہبی ہے کہ بعض اوقات مذہبی ادارے سماجی اور سرکاری ادروں کو زیر نگیں رکھتے ہیں۔ علاقے کی جغرافیائی تقسیم بھی لسانی ہے جس سے بظاہر اکائی میں نظر آنے والے ہنزہ کا معاشرہ مزید تین حصوں یعنی، شینا، بروشاسکی اور وخی بولنے والوں میں منقسم ہے۔

اٹھارویں اور انیسویں صدی میں برطانوی سامراج کی اس خطے میں حکمت عملی کا جائزہ لےلیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مغرب نے اس خطے میں روس کے ساتھ کسی بھی جنگی صورت حال میں دو مشکلات کو پیش نظر رکھا تھا۔ اول جنگ سے قبل حالات و واقعات سے بر وقت آگاہی اور دوئم جنگ کے دوران اگلے مورچوں تک اسلحہ اور خوراک کی رسد۔

تخت لاہور کے مہا راجہ رنجیت سنگھ کی موت کے بعد جب انگریزوں نے اپنی سرحدیں مغرب کی طرف بڑھادیں تو ان کی نظر یں شمال کی جانب بھی اٹھیں۔ کشمیری ڈوگروں کیساتھ امرتسر میں 1846میں ایک معاہدے کے تحت انگریز کشمیر کے شمالی علاقوں میں داخل ہوۓ۔ چونکہ کشمیریوں نے شمالی علاقوں پر اپنی عمل داری سے متعلق امرتسر کے معاہدے میں غلط بیانی کی تھی اس لئے یہاں انگریزوں کوڈوگروں کے شانہ بشانہ مقامی لوگوں کیخلاف جنگ لڑنا پڑی۔

نگر نلت کی مشہور تاریخی لڑائی کے بعد ہنزہ بغیر کسی جنگ کے سرنگوں ہوا تو یہاں کے میر اپنے وزیر سمیت کاشغر بھاگ چکا تھا ۔ وزیر ہمایوں بیگ کی دانشمندی اور اپنے ساتھ غیر مشروط وفاداری دیکھ کر انگریزوں نے ان کو ہنزہ کا نیا میر بنانے کی کوشش کی تو مقامی لوگوں نے بھاگ جانے والے میر کے خاندان کے کسی فرد کو ہی تخت پر بٹھانے کا مطالبہ کیا جو ہنزہ کے قبائل کے آپس میں روایتی نفاق کا مظہر تھا۔

موجودہ موتمدن ہنزہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ گلگت بلتستان کے دوسرے علاقوں کے بر عکس یہ بغرض کاشت کاری یا گلہ بانی آباد نہیں ہوا بلکہ راستے میں وسطی اور جنوبی ایشیا کے درمیان سفر کرنے والے قافلوں کو لوٹنے والے لوگ یہاں مقیم تھے جو غلاموں کی تجارت بھی کرتے تھے۔ یہاں سے گزرنے والے قافلوں کو لوٹنے اور پکڑ کر فروخت کر نےاور سفاکی سے قتل کر دینے کی وجہ سے ان لوگوں کی دہشت آس پاس کے علاقوں میں پھیلی ہوئی تھی۔ یہ اپنے سردار کو تھمو کہتے تھے جس کو بعد میں غالباً کشمیر کی باجگزاری کے بعد ہی میر کہا گیا۔

سنہ 1947 میں گلگت اور سکردو کی وزارت کے علاوہ پونیال، اشکومن، گوپس اور یاسین کی پولیٹیکل ڈسٹرکٹ اور ہنزہ اور نگر کی ریاستوں کو اندرونی خود مختاری حاصل تھی۔ جب اس خطے نے ایک مقامی بغاؤت کے نتیجے میں یکم نومبر 1947 کو کشمیریوں سے آزادی کا اعلان کیا تو ہنزہ اور نگر کے لوگ پیش پیش تھے۔

برطانوی آفیسر میجر براؤن نے جب پاکستان سے الحاق کے لئے مقامی راجوں اور میروں سے ان کی رضا مندی طلب کی تو ہنزہ کے میر نے بھی اپنی ریاست کے الحاق کا نہ صرف خط حکومت پاکستان کو لکھا بلکہ اس خط کی ایک کاپی اپنے روحانی پیشوا آغاخان کو بمبئی بھی بھیجا۔ یاد رہے کہ آغا خان نے ہی گوادر کو سلطنت عمان سے خرید کر پاکستان میں شامل کرنے میں حکومت پاکستان کی اعانت کی تھی ۔ آج پاکستان اور چین کے مابین تجارتی راہداری کے ایک سرے پر ہنزہ اور دوسرے پر گوادر واقع ہے۔

پندرہ اگست 1947کو برطانیہ سے واپس لیا جانے والا پورا جموں و کشمیر کا خطہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق متنازع تسلیم کیا گیاہے۔ چونکہ یکم نومبر 1947 تک ہنزہ جموں کشمیر کی ایک ذیلی باجگزار ریاست کے طور پر موجود تھا اس لئے جب حکومت پاکستان نے چین کے ساتھ شاہراہ ریشم کی تعمیر کے لئے 1963 میں سرحدی معاہدہ کیا تو اس خطے کی متنازع حیثیت کونہ صرف تسلیم کیا ہوا ہے بلکہ یہ بھی وضاحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ تنازع کشمیر کے حل کے بعد جب بھی اس خطے میں ایک نمائندہ قانونی حکومت تشکیل دی جاۓ گی وہ اس معاہدہ پر دوبارہ نظر ثانی کرنے میں بااختیار ہو گی۔ اس معاہدے کے نتیجے میں ہنزہ کی ریاست کا ایک وسیع علاقہ بھی عارضی طور پر چین کے حوالے کیا گیا ہے جس پر ہنزہ کے میر کی رضا اور تائید بھی حاصل کی گئی تھی۔

سن ستر کے اوائل میں پاکستان کے صدر اور پھر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے گلگت بلتستان میں فرنٹئیر کرائمز ریگولیشن (ایف ۔سی۔ار) کا خاتمہ کرکے ایک عوامی نمائیندگی کا نیم جمہوری نظام دیا گیا۔ ہنزہ کے میر پورے گلگت بلتستان میں سابق مقامی حکمرانوں کا واحدخاندان ہے جو اس نئے نظام کے انتخابی عمل میں بھی تسلسل کے ساتھ منتخب ہوتا آیاہے۔

ان کی کامیابی کے پیچھے ایک طرف اگر پاکستان کی حکومتوں اور ریاستی اداروں کی کھلی اور چھپی حمایت ہے تو دوسری طرف ہنزہ کے اکثریتی آبادی والے قبائل کا آپس میں ایک دوسرے پر عدم اعتماد بھی ایک بڑی وجہ ہے جو یہاں صدیوں سے رہا ہے ۔ ورنہ ایک اقلیتی گھرانے کی اکثریت پر حکمرانی ممکن نہ ہو پاتی۔

چین کے لئے مشرق وسطیٰ ، یورپ اور افریقی منڈیوں تک رسد کے لئے جہاں پاکستان کی اہمیت ہے وہاں پاکستان کے لئے گلگت بلتستان کی اہمیت اس قدر ہے کہ اگر جموں کشمیر کے مسئلے پر اس کو اپنےروایتی موقف سے ہٹنا بھی پڑا تو سودا مہنگا نہیں ہوگا۔ اور اس کے امکانات واضح نظر بھی آرہے ہیں۔ ہنزہ کی اہمیت پورے گلگت بلتستان سے زیادہ اس لئے ہے کہ اس علاقے کے علاوہ چین کا راستہ کہیں اور سے نہیں جاتا۔

ہنزہ میں ضمنی انتخابات کا بار بار التواء اور بالاخر انعقاد پر متوقع نتائج ریاست پاکستان کی منشا کے عین مطابق ہیں کیونکہ وہ اس علاقے کی سیاسی بھاگ ڈور کسی عوامی حمایت یافتہ مقبول راہنما، مذہبی اداروں کے حمایتی کسی تعلیم یافتہ سیانے کو یا کسی کاروباری ہوشیار شخص کے ہاتھ میں دینے کا رسک نہیں لے سکتی۔

ریاست پاکستان کو ہمیشہ یہاں اپنے ایک آزمودہ ، وفادار اور احسان مند خاندان اورشخص کی ضرورت رہے گی۔ ہنزہ کے میروں کی وفاداری پاکستان کیساتھ کہاں تک رہتی ہے اس کا دارومدار بھی ریاست کی جانب سے ان کو دی جانے والی رعایات و عنایات پر ہے ورنہ تاریخ بتاتی ہے کہ بلوچستان کے مینگل اور بگٹی بھی کل تک ایسے ہی وفاداروں میں شامل تھے جو اب نہیں سمجھے جاتے۔

بادی النظر میں یوں لگتا ہے کہ ہنزہ میں ایک حکمت عملی کے تحت سیاست کی بساط پر مہروں کی ترتیب یوں دی گئی ہے کہ ریاست کو ہمیشہ وفاداروں کی دستیابی میں فراوانی رہے۔ ہنزہ کے قبائلی، علاقائی، لسانی اور جغرافیائی تضادات سے فائدہ اٹھاکر گروہ بندی یوں کی گئی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کی دشمنی میں ہمیشہ ریاستی اداروں کے محتاج اور حکومت کے وفادار رہیں۔

یہ حکمت عملی قبائلی علاقوں اور گلگت بلتستان کےضلع دیامر میں شروع دن سے انتہائی کارگر ثابت ہوئی ہے۔

One Comment