شہرِ کراچی یاد تو ہو گا ، تیرے شب بیداروں میں

12695990_10206729873699704_2066619818_n

منیر سامی۔ ٹورنٹو

یہ کل شام کی بات ہے کہ اردو کے ممتاز شاعر عرفان ؔستّار نے سوشل میڈیا پر احباب کو ایک شعر کی لطافت میں شریک کیا۔۔شعرہے کہ، ’’لاکھ پھولوں پہ پہرے بٹھاتے رہو، لاکھ اونچی فصیلیں اٹھاتے رہو۔۔جائے گی سوئے گلزار جب بھی صبا، اپنی آوازِ زنجیر پا جائے گی‘‘۔۔

یہ شعر سنتے ہی اس غزل کا مطلع میرے ذہن میں مکمل ارتعاش کے ساتھ ابھرا، ’’میں نے سوچا تھا اس اجنبی شہر میں زندگی چلتے چلتے گزر جائے گی۔۔۔یہ مگر کیا خبر تھی تعاقب میں ہے، ایک نادیدہ زنجیرِ ہمسایئگی‘‘۔۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ مطلع اور یہ شعر ہر صاحبِ احساس مسافر کی ان کیفیتوں کا استعار ہ ہے ، جو وہ زندگی کے لامتناہی سفر میں اور مسلسل ہجرتوں میں محسوس کرتا ہے ، اور مسلسل مڑ کر دیکھتا ہے لیکن زنجیر ِ ہمسایئگی سے رہائی نہیں پاتا۔

یہ اشعار ، اردو زبان کے جس درویش صفت بے مثل شاعر کے ہیں انہوں نے اپنے پہلے ہی مجموعہ میں لکھ دیا تھا کہ، ’’پاس اپنے اک جان ہے سایئں۔۔ باقی یہ دیوان ہے سایئں‘‘، اور یہ کہ ’’جوگی سے اور جگ کی باتیں ۔۔جوگی کا اپمان ہے سایئں‘‘۔ یہ اشعار عصرِ حاضر میں اردو زبان کے بہت اہم اور ممتاز شاعر رساؔچغتائی کے ہیں، جن کو یاد کرتے ہوئے، عرفان ؔستار نے اس شعر میں بھی شریک کیا کہ، ’’اب خدائے سخن تو کیا کوئی۔۔۔ثانیئ میرزا رساؔہوتا‘‘۔۔جس مصرعے کو میں نے اس تحریر کا عنوان بنایا ، اس کا مکمل شعر یوں ہے:

شہرِ کراچی یاد تو ہو گا ، تیرے شب بیداروں میں
مرزا رسا ؔچغتائی بھی تھا، یار ہمارا یاروں میں

رساؔچغتائی کے ساتھ میرا ذاتی تعلق پرانا ہے۔ وہ میرے والد کے پسندیدہ طلبا اور شاگردوں میں شامل ہیں۔ میں اب بھی اکثر ان کے پہلے شعری مجموعہ ’ ریختہ‘ کے اس صفحہ کو دیکھتا ہوں جس کو انہوں نے اپنے دستخطوں سے میرے والد کو پیش کیا تھا۔ اور ہر بار ان کے بے شمار اشعار اردو زبان کی شان کے ساتھ ذہن میں ابھرتے ہیں۔ وہ اردو زبان کی اس پھبن کا استعارہ بھی ہیں جو بقولَ جونؔ ایلیا چھین لی گئی ہے۔

رساؔچغتائی ہمارے ادب کے اس المیہ کا بھی استعارہ ہیں، جس میں ہمارے نابغہ ادیب اور شاعر گمنامی اور گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ آج ہمارے ادب کی حالتِ زار یہ ہے کہ ہمارے بڑے بڑے شعرا کی کتابیں اس لیے شائع نہیں ہو پاتیں کہ شاعر یا ادیب کو اپنی کتاب خود چھپوانی پڑتی ہے۔ پاکستان میں کتابوں کی ایک اہم پبلشر نے مجھ سے خود کہا کہ منیر ؔصاحب شاعری کی کتابیں چھاپنا گھاٹے کا سودا ہے۔

اس المیہ کا دوسرا رخ یہ ہے کہ رساؔ چغتائی سے کہیں کم تر درجہ کے صاحبِ زر، ادیب اور شاعر زرِ کثیر صرف کرکے اپنی کتابیں چھپواتے ہیں، پھر بھی ان کا ابلاغ نہیں ہوتا ہے۔ پھر یہی ادیب شاعر اپنے تعلقات اورذرائع شہرت استعمال کرتے ہوئے نشان ہائے اعزاز سجائے پھرتے ہیں ، اور تماشبین عوام ان کی شاعری یا ادب کے بجائے تمغوں کے سامنے سجدہ کناں دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی رساؔ چغتائی جیسے اساتذہ کے کلام کو اشاعت نصیب ہوتی ہے، پذیرائی خودان کے سامنےہاتھ باندھے سر جھکائے کھڑی ہوتی ہے۔

جو لوگ میرے جملہ ہائے معترضہ پر خنجر آزمائی اور دشنام طرازی کے لیے اپنے حواریوں کی جلو میں نکلیں ، وہ ذرا جاکر استفسار کریں کہ ثاقؔب امروہوی کی کتاب کا کیا بنا۔ ثروتؔ حسین کی کلیات کیسے چھپی، اور رساؔ بھائی کے مختلف مجموعے کن دشواریوں سے گزر کر منظرِ عام پر آئے۔

مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ رسا چغتائی کا ہر مجموعہ ، ہر شاعر کے لیے ادب کے ایک صحیفہ کا درجہ رکھتا ہے، جس کی صرف ورق گردانی ہی سے شعر کی تخلیق کے اسرار، اور زبان کی ندرتوں سے ٓگاہی ہوتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ کینیڈا میں رائٹرز فورم نے رسا چغتائی کا مجموعہ ‘چشمہ ٹھنڈے پانی کا ‘ اپنی استطاعت کے مطابق زیادہ سے زیادہ شعرا تک تحفتاً پہنچانے کی کوشش کی۔

رساؔچغتائی پر پاکستان کے جریدہ ’ڈان ‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھا گیا کہ، ’انہوں نے کراچی کے شعرا کی کئی نسلوں کو لاشعوری طور پر متائثر کیا ہے۔ لیکن ان کے کلام پر باقی اردو دنیا میں وہ توجہ نہیں دی گئی جس کا وہ مستحق ہے۔

اس مضمون میں مصنف آگے لکھتا ہے کہ’ یہ ایک المیہ ہے کہ رساؔچغتائی کو وہ اعلیٰ مقام نہیں ملا جو بہر طور ان کا حق ہے۔ خود رسا چغتائی کا کہنا ہے کہ سماج میں مقام حاصل کرنے کے لیئے جو کو شش کرنا ہوتی ہے وہ میں نہیں کرتا۔ میں کسی صاحبِ اثر کو خط نہیں لکھتا۔ صاحبان شرف میں نہیں گھلتا ملتا۔مجھے اس کا کوئی افسوس بھی نہیں ہے۔ میں صرف شعر اور شاعری کی طاقتِ پرواز پر یقین رکھتا ہوں۔ یہ صرف اپنے زور پر آگے جاسکتے ہیں۔مجھے صرف اپنی کتابیں شائع ہونے کی فکر تھی۔ وہ شائع ہوگیئں سو میں مطمئن ہوں‘۔

رساؔ چغتائی کے شعری محاسن پر گفتگو تفصیل طلب ہے، جو اس کالم میں مکمل نہیں ہو سکتی۔ سومیں آخر میں ان کے چند اور مصرعے پیش کرکے اجازت لیتا ہوں۔ اس امید کے ساتھ کہ چند صاحبانِ احساس اس تحریر میں پنہاں ہمارے ادبی المیہ کو محسوس کریں گے۔

سنتے ہیں اس گلی میں

اک شخص منحنی سا

کچھ رنگ گندمی سا

ہونٹوں پہ مسکراہٹ

آنکھوں میں کچھ نمی سی

باتوں میں زندگی سی

کچھ دن سے آبسا ہے

تم جس کو ڈھونڈتے ہو

یہ شخص وہ نہیں ہے

وہ شخص اب کہاں ہے؟

2 Comments