کافر کے بعد اب غدّار

13767348_10208177711053468_2656519165861739623_o-2-1-298x300

علی احمد جان

تکفیریت تو سرزمین ہندوستان سے ہی ساتھ آئی تھی جو یہاں خوب پنپ گئی ۔ مجلس احرار  اور جماعت اسلامی نے  پاکستان کی مخالفت کی تھی مگر یہاں آکر جب تک انہوں نے  ۱۹۷۳ کے آیئن میں احمدیوں کو کافر قرار نہیں  دیا   چین سے نہ بیٹھے۔   ہمارے شہروں کی دیواریں اس بات کی گواہ ہیں کہ احمدیوں کے بعد یہ سلسلہ رکا نہیں  ہے۔  اگر آپ چھوٹے قصبوں سے لیکر بڑے بڑے شہروں  تک گھوم پھر کر دیکھ لیں تو کم و بیش سب  ہی فرقے ایک دوسرے کو کافر نہیں   تو مسلمان بھی نہیں سمجھتے  ۔ 

ہوٹلوں اور عوامی بیت الخلاؤں  کی دیواریں بھی  ایک دوسے پر کفر کے فتوؤں سے خالی نہیں۔  1990 کی دہائی میں جب  کراچی شہر کی دیواریں ایسے فتوؤں سے بھری تھیں تو کسی غیر ملکی سیاح نے  نوشتہ دیوار کے تراجم سننے کے بعد    حیرت کا   اظہار  کرتے ہوئے کہا  تھا کہ  یہاں    کوئی مسلمان بھی  بستا ہے ؟

عباسی خلیفہ   مامون الرشید ن کے زمانے میں اسلام کے مکمل ہونے کے دو سو سال بعد آٹھویں اور نویں صدی عیسوی  میں بغداد میں   جس بحث کا آغاز  بغرض خرد افروزی   ہوا   وہ  بعد میں شرعی قوانین کے نام پر  مسلکی فرقہ پرستی  کی بنیاد  بن گیا ۔ اب مسلمان اپنے آپ کو اور دوسروں کو  ا نہی تفرقاتی    میزان پر تولتا ہے ۔   اولین آئمہ کا  اختلاف راۓ ایک علمی بحث  کی بجا ئے  پہلے مخالفت  اور پھر رزم حق و باطل بن گیا   ۔

حجاز پرحملہ  نجدی آل سعود نے کفر پر حملہ سمجھ کر ہی کیا تھا۔ ان کا فارمولہ واضح تھا ۔   جو ان سے متفق نہیں وہ مسلمان نہیں اور جو مسلمان نہیں  وہ موت کا حق دار ہے ۔  آل سعود  کے بعد مذہب کے نام پر لوگوں سے لوگوں کو مرواکر حکومت حاصل کرکے  سلطنت سازی  کا رواج عام ہوا جس نے جزیرہ نما عرب میں جدید ملوکیت کی داغ بیل ڈالی ۔  ایران میں بادشاہت کے خلاف عوامی انقلاب کے ثمرات  مذہبی سخت گیروں کے ہاتھ آنے کے بعد اختلاف راۓ رکھنے والوں  کو تکفیر کی بلی چڑھایا گیا ۔

ان دونوں ملکوں  کی حکومتوں نے اپنے نقطہ نظر  کے فروغ کے لیٔے دوسرے ممالک میں مذہبی سفارتکاری  کا طریقہ کار اختیار کیا جو   بتدریج دوسرے ممالک  کے اندرونی معاملات میں  مداخلت کی سطح  تک جاپہنچا ۔ ان دونوں ملکوں کی جانب سے دوسرے ممالک ،  بشمول پاکستان،  کی حکومتی مشینری میں اپنے  اپنے آلہ کاروں کی تعنیاتی سے لیکر مدارس اور مکاتب میں سرمایہ کاری ،  مقلدین کی تربیت اور اپنے مقاصد کے لیٔے استعمال  تک کی کاروائیاں  بلا روک ٹوک  جاری ہیں  ۔  ان کے وسائل  اور مدد سے چلنے والے مدارس میں اب اختلافات اور تفرقات  کی تعلیم ہی مذہبی تعلیم کہلاتی ہے۔ 

 نتیجتاً  اب تک کئی ڈاکٹر انجنئیر ، سائینسدان، سیاست دان، پروفیسر ، وکیل، فنون لطیفہ سے وابستہ افراد کو  تکفیریت  کا عفریت نگل چکا ہے ۔ اس کے علاوہ ایک دوسرے کی تکفیری کاروئیوں  سے بچنے کے لیٔے ملک کے کئی شہروں  سے دوسرے شہروں اور ملک سے باہر نقل مکانی  کرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔  

 آپ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہتے ہوں تو  آپ کا کوئی بھی دشمن  آپ پر توہین رسالت، قرآن پاک کی بے حرمتی اور توہین صحابہ کا الزام لگاکر آپ کو مار نہ دے تو کم از کم ایک پولیس کیس ضرور کر سکتا ہے جس میں آپ کو اپنی بے گناہی ثابت کرنا  مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔  ضروری نہیں کہ آپ  ان جرائم کے مرتکب ہوئے ہوں ،  لیکن اگر   آپ کسی کو پسند نہیں تو توہین مذہب کے مقدمے  کے لئے تیار رہیں ۔

ایک طرف تکفیریت اپنے عروج پر ہے تو دوسری طرف ایک بیانیہ ریاست کی طرف سے ملک کی سلامتی کو لیکر آیا ہے  کہ کوئی شخص اگر اپنے قول و فعل سے ملک کی سالمیت کے خلاف  پایا گیا تو اس  عمل کو غدار ی سمجھا  جاۓ۔  بادی النظر میں یہ بیانیہ  ان لوگوں  کے خلاف ہے جو   آئین پاکستان  کا ابطلال کرتے  ہوئے آئین اور قانون کی ذاتی   تفسیر بزور ِ شمیشر   نافذ بھی کرنا چاہتے ہیں ۔  

  پاکستان میں قوانین کو  سیاسی مخالفین کے خلاف  استعمال کرنے کی ایک تاریخ ہے ۔مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے  کے لیٔے غدّاری کا الزام ہماری مختصر سی سیاسی تاریخ میں  بڑے بڑے راہنماؤں پر لگایا گیا لیکن کسی پر یہ الزام کبھی کسی عدالت میں ثابت نہ ہو سکا۔ سالمیت پاکستان کے قانون کا بھی اس طرح سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لئے استعمال  کئے جانے کا خدشہ موجود ہے ۔

اب  ان خدشات  کو  درست ثابت ہونے کے شواہد سامنے آرہے ہیں۔   سیاسی مخالفین کو شیڈول ۴ میں  ڈال کر نگرانی کی جارہی ہے  تو دوسری طرف شیڈول ۴  کے لوگ  کھلے عام جلسے کر رہے ہیں۔  سیاسی مطالبات  اور حقوق کی بات کرنے والوں کو غداری کے مقدمات کا سامنا ہے تو    آئین کو نہ ماننے والے دور  بیٹھے ہنس رہے ہیں۔

آئین  شہریوں اور یاست کے تعلق اور اس میں  رہنے  کا معاہدہ  عمرانی   ہوتا ہے جس پر ہر سطح پر بحث  کا  جاری رہنا ایک صحت مند معاشرے کی علامت ہے۔ یورپ میں ریاست کی چرچ سے علیحدگی اور ہم جنس پرستی کی اجازت تک کا ارتقا ئی عمل اس بحث کا ہی مرہون منت ہے۔

سکاٹ لینڈ کے وہ لوگ جنھوں نے برطانیہ سے علیحدہ ہونے کے لئے ووٹ دیا تھا اب غدّار نہیں کہلاتے بلکہ وہ بھی  اتنے ہی محب وطن سمجھے جاتے ہیں جتنے کہ  دوسرے۔   دنیا کا سب سے بڑا ملک روس ایک گولی  چلائے  بغیر ٹوٹ کر پھر ایک  فیڈریشن  کی شکل میں  منظم بھی ہوا۔  کوئی غدّار نہیں کہلایا نہ کوئی جاسوس۔

اس کے مقابلے میں جہاں آمریت اور ملوکیت ہےوہاں آج بھی   گولیاں چلتی ہیں اور خون بہتا ہے، غدّاری کے مقدمے بنتے ہیں اور پھانسیاں بھی ہوتی ہیں لیکن امن کا عنقا کسی  منڈیر پر نہیں بیٹھتا ۔

آئین  اور قانون پر بات کرنا  ،  اس میں کسی سقم کی نشاندہی کرنا اور س کو دور کرنے کے لئے تجاویز دینا  غدّاری نہیں بلکہ حب الوطنی ہے  ، احساس  جفا   اور اظہار وفا ہے۔ کسی طرف سے اگر اختلاف سامنے آۓ تو  تھانے میں پرچہ کرانے کے بجاۓ اس پر غور کیا جانا چاۂے ۔ اس  لئے صرف  حکومت کو ہی کسی شہری یا گروہ کے خلاف  غدّاری کا مقدمہ درج کرنے کا اختیار دیا گیا ہے کہ ہر شخص اٹھ کر کسی پر الزام نہ لگا سکے۔  ٹھوس شواہد کی بنیاد پر ہی کسی  پر ۱۲۴ الف  کے تحت مقدمہ بنایا جاۓ اور کسی کو شیڈول ۴  میں ڈالا جاۓ۔

قراقرم، ہندوکش، ہمالیہ   کے  پہاڑوں سے لیکر بحیرہ عرب کے ساحلوں تک  غدّاری کی دشنام طرازی  ایک  قومی روش کی شکل اختیار کر رہی ہے۔ سرکاری تادیبی کاروائیاں ایک طرف اب سیاسی مخالفین  بھی ایک دوسرے کو  غدّار وطن کے الزامات لگا رہے ہیں۔ جب تک کوئی کسی عدالت سے غدّاری کے جرم کا مرتکب  قرار نہ پاۓ اس کو غدّار کہنا ایسا ہے جیسے کسی کو بغیر جرم کے قاتل یا چور کہنا۔  

اگر سالمیت پاکستان کا  قانون   سیاسی مخالفیں کو کچلنے کے لیٔے استعمال کرنے کی روش ختم نہ ہوئی تو  بعید نہیں کہ تکفیریت کے بعد غدّاریت  کا طاعون پھیل جائے گا ۔

  ♦

5 Comments