یونائیٹڈِ اسٹیٹس آف پاکستان (ریاست ہائے متّحدہ پاکستان)۔

Asif-Javaid4

آصف جاوید

ریاست ہائے متّحدہ پاکستان  کا نظریہ ، موجودہ پاکستان کے معروضی حالات میں  پاکستان کو بچانے اور قائم رکھنے کے لئے ممکنہ طور پر ایکقابلِ عمل نظریہ  قرار دیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو خود مختار اور آزاد ریاستوں میں تقسیم کرکے انکے کنفیڈریشن کا نظریہ  پہلے بھی پیش کیا گیا تھا ، جب سقوطِ ڈھاکہ نہیں ہوا تھا، اور بنگالی پاکستان سے بے حد ناراض تھے۔ اس وقت لسّانی بنیادوں پر قائم کئے گئے صوبوں کو ختم کرکے،  رقبے اور آبادی کی بنیاد پر نئے صوبے قائم کرنے کی بات  بھی گئی  تھی۔

  نئے صوبوں کی بات موجودہ حالات میں بھی  زیادہ تواتر کے ساتھ  کی جارہی ہے۔ مگر   پاکستان کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں میں امریکی طرز  کی ریاست ہائے متّحدہ پاکستان  کی  تجویز  اکثر سماجی  و سیاسی علوم کا ادراک رکھنے والے دانشوروں کی گفتگو میں بھی سننے کو ملتی ہے۔ 

موجودہ حالات میں قومی وسائل  کی غیر منصفانہ تقسیم اور اور اقتدار  کے سرچشمے افواجِ پاکستان میں جنرلوں، افسروں اور جوانوں کی تعداد کے لحاظ سے پنجاب کی بالا دستی  نے بقیہ تین صوبوں کے عوام کو  عملاپنجاب کا غلام بنا کر رکھ دیا ہے۔ پنجاب کی قبضہ گیری نے  تینوں صوبوں کے عوام کو متنفّر اور مایوس کر  دیا ہے۔

    قومی وسائل اور اقتدار پر پنجاب کا غاصبانہ قبضہ ہے۔ پنجاب کے علاوہ تینوں صوبوں میں فوج کا آپریشن جاری ہے ۔ اور ملک انتشار اور خانہ جنگی کی طرف رواں دواں ہے، خانہ جنگی کے قریب  تر پہنچنے کی ایک پکّی  نشانی   بغاوت ہے ، جس کے اشارے تینوں صوبوں میں پنجاب کے خلاف نفرت، پاکستان مخالف نعرے اور بلوچستان میں مبیّنہ طور پر پاکستانی پرچم کو جلائے جانے کے واقعات سے ملتے  ہیں۔

پنجاب   ملک کی آبادی کا  52  فیصد  ہے  مگر  اقتدار  ، قومی وسائل اور ریاستی طاقت کے سرچشمے یعنی  فوج میں   75 فیصد سے زیادہ کا مالک ہے۔   افسروں اور جنرلوں کی تعداد بالترتیب 85 فیصد اور 90 فیصد ہے۔

جب غیر منقسم ہندوستان میں ، انگریز کی غلامی سے چھٹکارہ حاصل کرنے  کے لئے مسلمانوں کی نمائندہ سیاسی جماعت کے قائد ، بیرسٹر محمّد علی جناح ، مسلمانوں کے معاشی اور سیاسی حقوق اور جداگانہ تشخص کو قائم رکھنے، اور ہندووں کی عددی برتری سے نجات  حاصل کرنے کے لئے انگریز  حکمرانوں کو دوقومی نظریہ پیش کرسکتے  تھے ، تو موجودہ پاکستان  کے تین صوبوں   کے عوام (خیبر پختونخواہ بشمول قبائلی علاقہ جات ، سندھ دیہی و سندھ شہری اور بلوچستان ) پاکستان کے سب سے بڑے غاصب  صوبے پنجاب  سے آزادی کا مطالبہ اور  ریاست ہائے متّحدہ امریکہ کی طرز پر  پاکستان کی تمام آزاد  اور خودمختار ریاستوں  کے فیڈریشن کا مطالبہ کیوں نہیں کرسکتے؟

 پاکستان کے کچھ اہلِ دانش تو فیڈریشن کی بجائے ایک زیادہ ڈھیلےڈھالے بندھن یعنی کنفیڈریشن  کے  حامی ہیں۔  جس میں صرف چند  اہم امور  مملکت ہی مشترک ہوتے ہیں۔ اور ریاستیں خود مختار ہوتی ہیں۔

ریاست ہائے متّحدہ امریکہ ، دنیا کی عظیم سپر پاور ہے۔ جو   4 جولائی سنہ 1776 کو  برطانوی غلامی سے متحدہ نوآبادیات کو آزاد اور خودمختار ریاستوں کے طور پر قائم رہنے کے حق کے تحت وجود میں آیا تھا۔مارچ 1782ء میں برطانوی کابینہ نے امریکا کی خودمختاری کو تسلیم  کیا تھا ۔ 1789ء میں جارج واشنگٹن امریکا کے صدر منتخب ہو  ئے تھے۔

اسکے بعد امریکہ مسلسل  پاکستان کی طرح  80 سال اندرونی انتشار و کشمکش اور   کساد بازاری   کا شکار رہا۔ پھر  1861 میں شروع ہونے والی پانچ سالہ خانہ جنگی کے بعد  بالآخر 1865 میں ابراہم لنکن کی سربراہی میں قائم ہونے والی   50  خود مختار اور آزاد ریاستوں کے  فیڈریشن کے طور پر  آج تک نہ صرف برقرار ہے بلکہ  سرد جنگ کے خاتمے اور 1991 میں سوویت یونین کے زوال کے بعد دنیا کی  واحد سپر پاور ہے۔   ریاست ہائے متحدہ ایک وفاقی جمہوری  آئینی ریاست ہے ۔ بتّیس کروڑ آبادی کا یہ ملک  96 لاکھ مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا،  دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔

ریاست ہائے متحدہ امریکہ  دنیا کی  قدیم آئینی جمہوریہ ہے جس کا آئین برطانیہ کی طرح سینہ بہ سینہ غیر تحریری نہیں ہے،  بلکہ امریکی آئین ،   دنیا کا سب سے پرانا اور مکمل طور پر تحریری  آئین ہے۔  امریکہ کی حکومت کا انحصار نمائندہ جمہوریت پر ہے۔  جو آئین کے تحت اختیارات کی حامل ہوتی ہے۔ تاہم یہ کوئی عام نمائندہ جمہوریت نہیں ہے بلکہ اس میں اکثریت کو اقلیت کے حقوق کے لئے آئینی طور پر پابند کیا گیا ہے۔  ریاست کا کوئی سرکاری مذہب نہیں ہے۔

حکومت کی  تین  سطحیں ہیں۔  وفاقی حکومت، ریاستی حکومت  اور مقامی شہری حکومت ۔ ان تینوں سطحوں کے اراکین کا انتخاب یا تو رائے دہندگان کے خفیہ ووٹ سے یا پھر دوسرے منتخب اراکین کی طرف سے نامزدگی کی مدد سے ہوتا ہے۔ کچھ ریاستوں میں عدلیہ کی نشستیں  بھی عام انتخابات سے پر کی جاتی ہیں۔

وفاقی حکومت  کا منبع تین  ذیلی شاخیں  مقنّہ ،  ا ایگزیکیٹوِ اور عدلیہ    ہیں۔ جن کی تشکیل اس طرح کی گئی ہے کہ یہ ایک  دوسرے کے اختیارات پر چیک اینڈ بیلنس  میں اس طرح بندھی ہیں جیسے چارپائی کے چولوں میں پائے بندھے ہوتے ہیں۔

مقننہ: جسے عرفِ عام میں کانگریس کہا جاتا ہے۔  سینیٹ اور ہاؤس آف ریپریزنٹیٹوز سے مل کر بنتی ہے اور یہ وفاقی قوانین بناتی ہے، اعلان جنگ کرتی ہے، معاہدوں کی منظوری دیتی ہے اور مواخذے  کی مختار ہے۔

ایگزیکٹوز: صدر، جو کہ سینیٹ کی رضامندی کے ساتھ کابینہ اور دیگر افسران کی نامزدگی کرتا ہے، وفاقی قوانین کی دیکھ بھال اور ان کی بالادستی قائم کرتا ہے، بلوں کو مسترد کرسکتا ہے اور فوج کا کمانڈر ان چیف بھی ہوتا ہے۔

عدلیہ: سپریم کورٹ اور زیریں وفاقی عدالتیں جن کے ججوں کا تعین صدر ، سینیٹ کی منظوری سے کرتا ہے، جو قوانین کی تشریح کرتے ہیں اور آئین کے تحت ان کی معیاد مقرر کرتے ہیں اور وہ قوانین جو غیر آئینی ہو گئے ہوں، انہیں ختم بھی کرسکتے ہیں۔

امریکی کانگریس دو ایوانوں پر مشتمل مقنّنہ ہے۔ ہر ریاست کو اس کی آبادی کی شرح سے سیٹوں کی تعداد ملتی ہے۔ آبادی کا تعین ہر دس سال بعد  مردم شماری کی  بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ہر ریاست کو کم از کم ایک نمائندے کی اجازت ہوتی ہے۔ ہر ریاست کے دو سینیٹر ہوتے ہیں جو کہ ریاستی سطح پر چھ سال کے لئے منتخب ہوتے ہیںْ۔ ایک تہائی سینیٹ کے انتخابات ہر دوسرے سال منعقد ہوتے ہیں۔

ریاست ہائے متحدہ امریکہ  کا آئین امریکی نظام میں سب سے  طاقتور قانونی دستاویز ہے، اور  امریکی عوام اور ریاست  کے درمیان   عمرانی  معاہدہ بھی   یہی ہے۔  وفاقی اور ریاستی حکومت کے تمام قوانین پر  باقاعدہ نظر ثانی کی جاتی ہے،  جو قوانین  کسی طور پر بھی آئین کے خلاف ہوں،  عدلیہ انہیں ختم بھی کرسکتی ہے۔

آئین ایک زندہ دستاویز ہے، مگر مقدّس ہرگز نہیں،   کیونکہ اس میں ترمیم کئی طریقوں سے کی جاسکتی  ہیں۔ لیکن اس کی بہر طور منظوری ریاستی اکثریت ہی دیتی ہے۔اب تک 27 بار آئین میں  ترمیم کی جاچکی ہے۔ آخری ترمیم 1992ء میں کی گئی تھی۔ آئین میں ریاست کے ہر فرد کو مکمّل  آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔  لیکن اس کے ساتھ ساتھ حقوق کی بھی وضاحت موجود ہے۔

  ان آزادیوں میں اظہار رائے کی آزادی، مذہب کے اختیار کی آزادی، میڈیا کی آزادی، منصفانہ عدالتی کارروائی کی ضمانت، ہتھیار رکھنے  اور ان کا استعمال کا حق، ووٹ کے استعمال  کا حق اور غریبوں کے حقوق شامل ہیں۔

 اگر پاکستان کی موجودہ جغرافیائی حدود  میں  امریکی طرز پر  خود مختار ریاستوں کو قائم رکھتے ہوئے  پاکستان قائم و دائم رکھا جا سکتا ہو، تو اس ماڈل کو اختیار کرنے میں برائی کیا ہے، ملک ٹوٹنے سے تو بہتر ہے۔

یہی وہ طریقہ ہے جس میں مذہب کو ریاست اور ریاست کو سیاست سے علیحدہ کرکے قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم اور اقتدار میں  منصفانہ شرکت ممکن ہے۔ وما علینا الالبلاغ 

4 Comments