افغان امن مذاکرات : امکانات اور چیلنجز  

aimal-250x300

ایمل خٹک 

پاکستان کی آشیرباد سے افغان طالبان اور افغان حکومت کے مابین قطر میں بلا واسطہ ابتدائی بات چیت ہوئی ہے۔ اور مستقبل میں قطر یا سعودی عرب میں امن بات چیت کے جاری رہنے کا امکان ہے ۔ کچھ حلقے مذاکرات کی کامیابی کیلئے سعودی عرب کو مذاکرات کے سلسلے میں آن بورڈ کرنا چاہتے ہیں۔ طالبان نے پاکستان اور چین کو مذاکرات کے سلسلے میں اعتماد میں لیا ہے۔ اس سے قبل پچھلے سال جولائی کے اوائل میں پاکستان کی سہولت کاری سے مری میں بعض طالبان راہنماوں اور افغان حکومت کے مابین مذاکرات ہوئے تھے مگر اس سے طالبان کے قطر آفس نے لاتعلقی کا اعلان کیا تھا اور اسے مذاکرات کرنے والے طالبان کی انفرادی کوشش قرار دیدیا تھا۔ اس کے بعد مذاکرات دوبارہ پھر منعقد ہونے تھے مگر بوجوہ نہ ہوسکے۔

گزشتہ سال ڈیڑھ سال میں طالبان پر مذاکرات شروع اور پھر دوبارہ بحال کرنے کیلئے سخت دباؤ موجود تھا۔ اور مذاکرات کی معطلی کے بعد پاکستان بھی شدید بیرونی دباؤ میں رہا۔ ایک طرف پاک۔امریکہ اور دوسری طرف پاک۔افغان تعلقات انتہائی کشیدہ ہوگئے۔ اس دوران امریکہ اور چین مختلف زرائع سے طالبان پر مذاکرات بحال کرنے کیلئے دباؤ ڈالتے رہے۔ 

اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا مذاکرات کیلئے آمادگی بیرونی دباؤ کو کم کرنے کا ایک حربہ ہے۔ جس میں مختلف تاخیری حربوں سے مذاکرات کے عمل کو طول دیا جائیگا یا طالبان واقعی مذاکرات میں دلچسپی لے رہے ہیں۔   

پاکستان نے حال ہی میں چند اہم طالبان راہنماوں کو گرفتار کیا ہے۔ بعض مبصرین اس کو پاکستان کی جانب سے طالبان کو مذاکرات کیلئے آمادہ کرنے کیلئے دباؤ قرار دے رہے ہیں  جبکہ کچھ اور مبصرین جن میں افغان بھی شامل ہے۔ اس کی مختلف تشریح کر رہے ہیں ان کے نزدیک پاکستان ان طالبان راہنماوں کو گرفتار کرتا ہے جو اپنے طور پر افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کرتے ہیں۔ اور پاکستان بیرونی دباؤ کو کم کرنے کیلئے یہ حربے استعمال کرتا ہے۔  مسئلہ افغانستان اب اس مرحلے پر پہنچ چکا ہے کہ کاسمیٹک اقدامات یا محض خانہ پُری سے کام نہیں چلے گا۔ فریقین ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات چاہتے ہیں۔  

افغان طالبان کی سینئر قیادت ملا عمر اور خاص کر ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد طالبان صفوں میں انتشار اور مایوسی پھیل رہی ہے ۔ افغانستان بھر میں مختلف فوجی مہمات شروع کرنے اور افغان حکومت پر فوجی دباؤ بڑھانے کے باوجود طالبان سخت مالیاتی مشکلات کا شکار ہیں۔ اور مختلف محاذوں پر فوجی سازوسامان کی رسد بھی بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ اب اس کے بیرونی آقاؤں کو طالبان پراجیکٹ جاری رکھنا مشکل ثابت ہو رہا ہے۔  بڑھتے ہوئے داخلی اور خارجی دباؤ کے پیش نظر طالبان نے افغانستان سے بیرونی افواج کے مکمل انخلاء کے شرط میں نرمی کرنے اور مذاکرات کی کامیابی  کے فوری بعد بتدریج انخلاء کی تجویز پر غور شروع کردیا ہے۔  

پاکستان کے علاوہ قطر ، ترکی اور سعودی عرب بھی طالبان کو حزب اسلامی افغانستان کی طرح پرامن مذاکرات کے ذریعے مسائل کےحل پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ طالبان ذرائع کے مطابق پاکستان کی جانب سے مکس سگنلز مل رہے ہیں۔ مذاکرات کے ساتھ ساتھ فوجی سرگرمیاں تیز کرنے کے اشارے بھی مل رہے ہیں۔ افغان طالبان کے  رویے میں تبدیلی کے حوالے سے تین اہم وجوہات کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ 

پہلی بات تو یہ کہ فوجی سرگرمیوں میں تیزی لانے کے باوجود طالبان کسی اہم شہر پر قبضہ کرنے اور قبضہ برقرار رکھنے کی پوزیشن میں نہیں۔ مُلا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد طالبان تحریک سخت مشکلات کا شکار ہے۔  نئی قیادت نہ تو مُلا عمر جیسی کرشماتی شخصیت اور نہ مُلا اختر منصور کی طرح انتظامی اور فنڈز جمع کرنے کی صلاحیتوں کی حامل ہے۔

دوم ، مُلا محمد عمر کی وفات کے بعد طالبان کے اندر طاقت کے مختلف مراکز بن چکے ہیں۔ ملا اختر منصور نے طالبان پر گرفت مضبوط کرنے کیلئے داخلی اختلافات کو بزور دبانے سے بھی گریز نہیں کیا بلکہ اس کے بعض مخالفین نے ان کی حمایت یافتہ بیرونی ایجنسی پر بھی الزام لگایا تھا کہ اس نے مخالفین کومُلا منصور کی حمایت پر مجبور کرنے کیلئے ہر قسم کا دباؤ ڈالا۔ طالبان حلقوں میں مولوی ھیبت اللہ کی نیک نامی اور احترام اپنی جگہ مگر ان میں تحریک کی قیادت کیلئے درکار قائدانہ صلاحیتوں کا فقدان  ہے۔

اگرچہ طالبان شوریٰ میں سراج الدین حقانی کی اثرورسوخ میں اضافہ ہوا ہے مگر مُلا عمر کا بیٹامُلا محمد یعقوب بھی توجہ کا مرکز بن رہا ہے۔ اور آہستہ آہستہ طاقت کا منبع بنتا جا رہا ہے۔ مُلا یعقوب کو عام طالبان کے علاوہ مُلا اختر منصور مخالف گروپ کے اکثر کمانڈروں کی حمایت بھی حاصل ہے اور وہ کئی ناراض شخصیات کو طالبان صفوں میں واپس لایا بھی ہے۔ عام طالبان اور خصوصا جنگجو کمانڈروں کو کسی بھی ممکنہ حل پر راضی کرنے کیلئے مُلا عمر کا خاندان اہم رول ادا کرسکتا ہے۔ 

سوم ، پاکستان اور افغان طالبان کے تعلقات میں بد اعتمادی اور غلط فہمیاں بڑھ رہی ہے اور طالبان قیادت پر پاکستان سے اندرون افغانستان منتقل ہونے کیلئے اندرونی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ طالبان قیادت پر پاکستان کے اثرورسوخ اور دباؤ کو اب محسوس کیا جانے لگا ہے۔ اور یہ احساس زور پکڑ رہا ہے کہ علاقائی ممالک کسی مذہبی بھائی چارے کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے قومی مفادات کی حصول کیلئے ان کی حمایت کر رہے ہیں ۔ علاقائی طاقتیں اپنے مفادات کو ترجیح دیتی ہیں اور اکثر ان کے یعنی طالبان کے مفادات کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ 

اور ایشوز کے علاوہ افغان مہاجرین کی بزور بیدخلی کی کوشش اور بعض طالبان راہنماوں کی گرفتاریوں سے طالبان میں غم وغصہ بڑھا ہے۔ طالبان صفوں میں اندرونی اختلافات اور بعض علاقائی طاقتوں کے بارے میں ان کے نکتہ نظر میں تبدیلی کے اشارے ہمیں اہم طالبان راہنما اور مُلا عمر کے معتمد خاص سید طیب آغا کی طالبان سربراہ مولوی ہیبت اللہ کو لکھے گئے حالیہ خط میں بھی ملتے ہیں ۔ جس میں انہوں نے طالبان قیادت کو کچھ تجاویز پیش کی ہیں۔

طیب آغا نے تجویز دی ہے کہ طالبان امیرالمومنین اور امارت اسلامی کا الفاظ اس وقت تک استعمال نہ کریں جب تک ضروری شرائط برابر نہ ہوں۔ انہوں نے انہیں سویلین ٹارگٹس کو نشانہ بنانے سے اجتناب کرنے کا مشورہ بھی دیا ہے۔  اس نے طالبان قیادت کو کہا ہے کہ آزادانہ  فیصلے کرنے کیلئے وہ پاکستان اور دیگر ممالک سے افغانستان کے اندر منتقل ہوجائے کیونکہ ان ممالک میں قیام کی صورت میں طالبان آزادانہ فیصلے نہیں کر سکتے اور میزبان ممالک اس پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

افغان مسئلے کے حوالے سے اب عالمی قوتوں کا صبر اور برداشت جواب دے چکا ہے۔ اب پاکستان نے کوئی فیصلہ کرنا ہے کہ طالبان کی حمایت جاری رکھی جائے یا طالبان پر اپنا اثر ورسوخ استعمال کرتے ہوئے مثبت ثالثی یا سہولت کاری کے ذریعے افغان مفاہمتی عمل کو آگے بڑھایا جائے۔ اس سلسلے میں تین ممالک کا دباؤ بہت اہم ہے۔ 

سب سے پہلے امن مذاکرات کے حوالے سے افغانستان کی ناراضگی بڑی اہم ہے ۔ افغانستان میں پاکستان مخالف جذبات ریکارڈ سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ اسلام آباد سے مایوس ہونے کے بعد کابل انتظامیہ کا رویہ اب بہت سخت ہوگیا ہے اور سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات کے بغیر وہ کسی بھی طرح پاکستان کے ساتھ بیٹھنے کیلئے تیار نہیں۔ کابل انتظامیہ چار فریقی رابطہ کاری میکنزم  جس میں پاکستان کے علاوہ افغانستان، امریکہ اور چین شامل ہے کے تحت جو روڈ میپ تیار ہوگیا تھا اور جس میں تمام شامل ممالک نے وعدے وعید کیے تھے پر عملدرآمد اور پاکستان سے اپنے وعدے ایفا کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ وہ امن مذاکرات کے حوالے پاکستان سے مثبت ، ٹھوس اور نتیجہ خیز تعاون کا طلب گار ہے۔ پاکستان کیلئے اب کابل انتظامیہ کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔ کیونکہ وہ اب بین الاقوامی فورمز پر بغیر کسی لگی پٹی اپنا موقف بیان کر رہا ہے۔  

دوسرا امریکہ نے بھی اقتصادی اور فوجی امداد کو افغان مذاکراتی عمل اور عسکریت پسندی کے خلاف بلا امتیاز کاروائی سے مشروط کردیا ہے ۔ امریکی انتظامیہ اور پالیسی ساز اداروں کے موقف میں سختی کا پہلو نمایاں ہے۔ ان کے رویے میں پاکستان سے خفگی اور مایوسی عیاں ہے اور وہ اپنی ناراضگی کا اظہار مختلف طریقوں سے کر رہے ہیں ۔  دونوں ممالک کے تعلقات میں سرد مہری کی ایک وجہ مسئلہ افغانستان بھی ہے۔ اس وجہ سے اس مسئلے میں پیش رفت کے بغیر دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کا امکان نہیں۔  

تیسرا اب کچھ عرصے سے چین بھی پاکستان کی بعض داخلی اور خارجی پالیسیوں پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ چین کی اقتصادی راہداریوں کے منصوبوں میں افغانستان کے قدرتی وسائل اور تجارتی راستوں کی اپنی اہمیت ہے۔ اس کے علاوہ علاقے میں عسکریت پسندی کے پھیلاؤ کے حوالے سے اس کی حساسیت اور تحفظات کی وجہ سے بھی افغانستان کے حوالے سے اس کی خاموش مگر مسلسل دباؤ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اپنے مطلب کے کام نکالنے اور بنیاگری کے حوالے سے چین نے سب کو مات دی ہے۔ چین گاجر آسانی سے نہیں کھلاتے۔ گاجر کھلانے سے پہلے ، کھانے کے دوران اور کھانے کے بعد انتہائی مہارت کے ساتھ ڈنڈا بھی چلاتے ہیں۔

♦ 

Comments are closed.